عوام غلط فیصلہ نہیں کرتے!
کامیابی یا ناکامی لیڈروں کی نہیں ، ان کے فالوئرز کی ہوتی ہے۔ اس لئے دنیا بھر میں خلائی مخلوق لیڈروں پر نہیں ، عوام پر پر کام کرتی ہیں ، انہیں توڑتی مروڑتی ہیں ، مضمحل کردیتی ہیں!.... تب کہیں جا کر مخالف کیمپ کے عوام کوہمنوا کر پاتی ہیں ۔ بھٹو کے جیالوں کو اسلام پسندوں نے شکست دی تھی ، جب وہ اسلام پسند نون لیگ کے قالب میں ڈھلے تو ان کے مقابلے میں پی ٹی آئی کے آزاد خیال لوگ کھڑے کردیئے گئے ہیں، حالانکہ یہ آزاد خیال وہی ہیں جو کل ماتھے پر جیالے کا لیبل سجائے گھوما کرتے تھے اور بھٹو کے نام پر لاٹھی چارج اور قید و بند کی صعوبتیں ہنس کر برداشت کرتے تھے۔
ہمیں لیڈر کی نہیں لوگوں کی ضرورت ہے ، ایسے لوگوں کی جو خلائی مخلوق کے خلاف سیہ سپر ہو سکیں، جن میں ایکائی ہواور جو تقسیم ہونے کے عادی نہ ہوں، جن کو پاٹا نہ جا سکے، چونکہ ایسا ممکن نہیں اس لئے خلائی مخلوق کا کام ہر دور میں آسان ہوتا ہے ۔اب بھی اس کے باوجود کہ نواز شریف ڈٹ کر کھڑا ہے ، اس کے نیچے سے زمین گھسکتی جارہی ہے ان کے اردگرد کھڑے لوگ ایک ایک کرکے گرکر عمران خان کے ہاتھوں کیچ ہوتے جا رہے ہیں۔
دیکھا جائے تو نواز شریف کے جانے یا عمران خان کے آنے سے نظام کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ جس طرح آصف زرداری کے جانے اور نواز شریف کے جانے سے نہیں پڑاتھا۔ تب بھی حکومت اسٹیبلشمنٹ سے نبردآزما تھی، اب بھی ہے ۔ پیپلز پارٹی اسے بھاری پتھر جان کر چوم چاٹ کر پیچھے ہٹ گئی تھی ، نون لیگ کو بھی ایسا کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے کیونکہ زمین میں میخوں کی طرح گڑے پہاڑوں کو خدا کی قدرت ہی رائی بنا کر اچھال سکتی ہے۔
مایوسی کفر ہے ، جذباتی ہما ہمی آن واحد میں رفوچکر ہوجاتی ہے اگر یہ سوچ لیا جائے کہ نواز شریف لکھوا کر تو نہیں لائے کہ وہی نظام مملکت چلائیں گے ، آخر ان سے پہلے بھی تو پاکستان چل رہا تھا، وہ دس سال جلا وطن رہے تو بھی توچلتا رہا تھا، اب اگر اگلے پانچ سال نہیں ہوں گے تو بھی چلے گا اور جب بالکل ہی نہیں ہوں گے تو بھی چلے گا لیکن یہ فارمولاصرف نواز شریف کے لئے تو نہیں ہے، لیکن یار لوگوں کو طریقہ کار پر اعتراض ہے ، مگر انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ اقتدار کی کرسی ریوالونگ ڈور کے پیچھے پڑی ہوتی ہے جس میں ایک طرف سے نکل کر دوسری طرف سے دوبارہ داخل ہوا جا سکتا ہے بشرطیکہ ہمت جواب نہ دے جائے،جذبہ مرنہ جائے اور شوق کاقتل نہ ہو جائے۔
یہ بحث ختم ہوگئی ہے کہ نواز شریف غدار ہیں،مگر عمران خان آج بھی ان کی ہر بات پر ریسپانڈ کر رہے ہیں حالانکہ ہونا یہ چاہئے تھا کہ نواز شریف عمران خان کو ریسپانڈ کر رہے ہوتے۔ اسی سے عمران کی مقبولیت کا اندازہ ہوسکتا ہے ، شیخ رشید بھی کہتا ہے کہ اگر عمران خان کی ہوا چل پڑی تو!....یعنی عمران کے ساتھ ابھی بھی ’اگر ‘لگا ہوا ہے ، وہ لاہور میں مینار پاکستان پر جلسہ کرکے بھی غیر مقبول ہیں اور نواز شریف چشتیاں میں جلسہ کرکے بھی مقبول نظر آتے ہیں ۔ یہ ہے آج کی صورت حال، اس صورت حال کو اگلے دو ماہ تک نواز شریف برقرار رکھ سکیں گے ، اس بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے ، ویسے بھی ابھی تو وہ سی آر پی سی کی دفعہ 342کا بیان ریکارڈکروا رہے ہیں۔
20جون سے 20جولائی تک انتخابی مہم شروع ہو چکی ہوگی، نواز شریف کو سپریم کورٹ سے ایک اور ماہ ملنے کا امکان ہے، ایسا ہوا تو وہ بھی انتخابی مہم میں جتے ہوں گے، شہباز شریف علیحدہ سے جتے ہوں گے، مریم نواز شریف تن تنہا جلسوں سے خطاب کرنے جا رہی ہوں گی، حمزہ شہباز ان کے ہمرکاب ہوں گے، دیکھا جائے تو اگر انتخابات 26جولائی کو ہونا ہیں تو وہ سپیل دھواں دھار تقریریوں کا ہوگا، اسی دوران یہ بے یقینی ہوگی کہ نگران سیٹ اپ کی مدت میں اضافہ ہو سکتا ہے لیکن ایسا کیسے ممکن ہوگا جب تک کہ سپریم کورٹ سے اس کی اجازت نہ لی جائے ، سپریم کے چیف جسٹس کہہ چکے ہیں کہ اگر مارشل لاء لگا تو وہ آخری شخص ہوں گے جو اس کی حمائت کریں گے، چنانچہ ان پر پریشر ہوگا، وہ اس پریشر سے کیسے نکلیں گے، نکل پائیں گے تو مارشل لائی قوتیں کیا کریں گی، بچوں کو سکولوں سے چھٹیاں ہوں گی، سڑکوں پر رش اس طرح سے نہ ہوگا جس طرح ہوتا ہے، البتہ گرمی ضرور ہو گی، جنریٹر ضرور ہوں گے، یوپی ایس ضرور ہوں گے۔ دیکھنا یہ ہے کہ بین الاقوامی پراپیگنڈہ کس کے حق میں ہوگا!
20جولائی سے 20اگست کے درمیان عام انتخابات کا انعقاد ہوچکا ہوگا ، نئی حکومت اقتدار میں آچکی ہوگی، لوگ انتخابات کے انعقاد پر خوش ہوں گے، کچھ سیاسی پارٹیاں جز بز ہو رہی ہوں گی مگر جیتنے والی پارٹی جشن منا رہی ہوگی، اسٹیبلشمنٹ کے کردار کو زیر بحث لایا جا رہا ہوگا، بلاول بھٹو قومی اسمبلی میں پہنچ چکے ہوں گے، عمران خان قومی اسمبلی میں پہنچ چکے ہوں گے، نواز شریف اسمبلی سے باہر ہوں گے، اقتدار سے باہر ہوں گے، ان کی حا لت پتلی ہوگی اگر عوام نے انہیں چھوڑدیا لیکن اگر عوام ان کے ساتھ کھڑے رہے تو اگلے عام انتخابات کے بعد نواز شریف طمطراق سے پارلیمنٹ میں داخل ہو رہے ہوں گے۔
اگلے تین ماہ پاکستان کی قسمت کا تعین کریں گے، یا تو ہم دوبارہ پچھلے ستر سال میں واپس چلے جائیں گے یا پھر اگلے ستر سال کا سفر ایک جست میں طے کرلیں گے۔ ملک میں جمہور کی حکومت ہوگی یا پھر دوبارہ سے اسٹیبلشمنٹ اپنے پنجے گاڑ چکی ہوگی ۔فیصلہ عوام نے کرنا ہے اور عوام غلط فیصلہ نہیں کرتے، اس مرتبہ اسٹیبلشمنٹ نہیں ، اسٹیبلشمنٹ کے پٹھو ہاریں گے!