جنرل باوجوہ کو بھارت کے دورے کی باضابطہ دعوت دی جائے، سابق چیف ”را“ کی تجویز
نئی دہلی (اے این این ) بھارتی خفیہ ایجنسی ریسرچ اینڈ اینا لا سزونگ ”را“ کے سابق سرابرہ اے ایس دولت نے اپنی حکومت کو تجویز دی ہے کہ وہ پاک بھارت مذاکرات کے نئے آغاز کے لے پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کو دورے پر مدعو کرے۔
یوٹیوب چینل سبسکرائب کرنے کیلئے یہاں کلک کریں
یہ بات انہوں نے اپنی کتاب کے اجرا کے موقع پر بھارتی نشریاتی ادارے این ڈی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ داسپائی کرونیکل : را ، آئی ایس آئی اینڈ دی الیوڑن آف پیس نامی تصنیف ، پاکستان کی خفیہ ایجنسی ، انٹر سروسز انٹیلی جنس ”آئی ایس آئی “ کے سابق سر براہ لیفٹننٹ جنرل اسد درانی اور بھارتی ہم منصب نے مشترکہ طور پر تحریر کی ہے لیکن جنرل (ر) اسد درانی کتاب کی اجرا کی تقریب میں بھارتی ویزانہ ملنے کے سبب شرکت نہیں کر سکے۔
نجی ٹی وی کے مطابق اپنی گفتگو میں اے ایس دولت کا کہنا تھاکہ دنیا بھر میں سفارتی اور دفاعی میدان میں نئے زاویے آزمائے جارہے ہیں ، کچھ دن قبل تک کون سوچ سکتا تھا کہ امریکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ شمالی کوریا کے سپریم لیڈر سے بات کرنے پر آمادہ ہوجائیں گے۔ اسی طرح ہمیں بھی عمومی سوچ سے ہٹ کر دیکھنا ہوگا جیسا کہ سابق بھارتی وزیراعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ کہا کرتے تھے کہ جنرل باجوہ کو مدعو کیا جائے اور پھر نتائج دیکھیں۔ مصنفین نے دونوں ممالک کے عوام میں باہمی تعلقات کو بہتر بنانا نسبتاً آسان قرار دیا جس میں ویزے میں نرمی اور کرکٹ کی بحالی شامل ہے۔
پاکستان میں موجود جنرل (ر) اسد درانی نے بھارتی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ مصر کے شہر شرم الشیخ میں پاکستانی وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور ان کے بھارتی ہم منصب من موہن سنگھ کے مابین ہونے والی ملاقات ایک نئی سمت کا آغاز تھا جسے دونوں ممالک کی بیورو کریسی نے پنپنے نہیں دیا ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف مشترکہ میکا نزم کے قیام کا معاہدہ دونوں ممالک کے لیے بڑی کامیابی ہوتا لیکن افسوس ایسا ہو نہ سکا۔
علاوہ ازیں بھارتی اخبار انڈین ایکسپریس کے مطابق جنرل (ر) اسد درانی نے کتاب میں بھارتی قومی سلامتی مشیر برائے وزیر اعظم ، اجیت دووال کا پاکستان کے حوالے سے بیان تحریریر کیا کہ پاکستان سے صرف طاقت کے زور پر نمٹا جا سکتاہے۔ واضح رہے اجیت دووال بھارتی خفیہ ایجنسیوں کا حصہ رہے اور 2005میں ریٹائر ہوئے تھے ، ان کے بارے میں جنرل (ر) اسد درانی نے بتایا تھا کہ انہوں نے پالیسی میں تبدیلی نہیں کی ، ان کا سخت موقف اب بھارتی پالیسی کا حصہ ہے ، وہ صرف ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح چیختے چلاتے اور بیانات دیتے ہیں اصل میں وہ مرچ مصالحہ لگاتے ہیں۔ جنرل (ر)اسد درانی کے کتاب میں مزید لکھا کہ اجیت دووال آج کل اس لیے اہم ہیں کیونکہ نریندر مودی اہم ہیں ، وہ تماشا لگانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ، میں ان پر دونوں ممالک کے کے تعلقات بہتر بنانے کے لیے بھروسہ نہیں کر سکتا ، اگر وہ لاہور یا اسلام آباد میں پائے گئے تو وہ بھارت کے تو مفاد میں ہوگا لیکن بھارت کے تعلقات کے لیے بہتر نہیں ہوگا۔
اس ضمن میں جنرل (ر) اسد درانی نے بھارتی قومی سلامتی کے مشیر کی پاکستان کے 6سابق ہائی کمشنرز کے ساتھ ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 2016میں ہونے والی اس ملاقات میں 6پاکستانی کمشنرز کو مدعو کیا گیا جس کا خیال تھا کہ یہ ملاقات خوشگوار ماحول میں ہوگی۔ تاہم اجیت دووال کا ان کے ساتھ رویہ خاصہ کرخت تھا انہوں نے ہائی کمشنرز کو مخاطب کر کے کہا کہ ہم آپ پر نظررکھیں ہوئے ہیں اگر ہماری تحقیقات میں کوئی مثبت پہلو سامنے نہیں آیا اور اگر ہمیں پٹھان کوٹ ، ممبئی حملوں کے ساتھ کسی ریاستی کارروائی کی کڑی ملی تو اس کے نتائج اچھے نہیں ہوں گے۔
جنرل (ر) اسد درانی نے مزید بتایا کہ ملاقات کے اختتام میں وہ بغیر کسی سے ہاتھ ملائے چلے گئے جو سفارتی روایت کا حصہ ہوتا ہے ، اس سے ان کے عزائم کا اظہار ہوگا۔ تاہم اس حوالے سے اے ایس دولت نے مختلف موقف دیا اور انہوں نے بتایا کہ میں نے جو دہلی سنا وہ اس سے مختلف تھا جو آپ بتا رہے ہیں ، اجیت دووال کے سخت گیررویے کے برعکس ملاقات میں ان کا غیر متوقع طور پر نرم رویہ دیکھ کر ہائی کمشنرز خاصے حیران ہوئے تھے۔ مزید گفتگو کرتے ہوئے پاکستان میںپکڑے گئے بھارتی جاسوس کلبھوشن کے بارے میں ایس کے دولت کا کہنا تھا کہ اگر وہ راکاایجنٹ تھا اور یہ آپریشن راکا تھا تو یہ نامناسب آپریشن تھا۔