آخر یہ خرم نواز گنڈاپور ہے کون؟

آخر یہ خرم نواز گنڈاپور ہے کون؟
آخر یہ خرم نواز گنڈاپور ہے کون؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

طالبات تھر تھر کانپ رہی تھیں، وہ بہت غصے میں تھا۔ اسنے کہا ”تمہارے والدین نے ہمیں لکھ کر دیا کہ تم کوشام کے بعد باہر جانے کی اجازت نہ دی جائے، تمہیں جانے کی اجازت نہیں ملنے والی، جاو جاکے آرام کرو ۔تم نے صبح سحری میں بھی اٹھنا ہے“ اسکی بات سن کر بہت سی طالبات مایوس ہوکر اپنے کمروں کو لوٹ گئیں لیکن دس سے پندرہ طالبات ایسی تھیں جو نہ صرف ڈٹ چکی تھیں بلکہ ان میں سے ایک خفیہ کیمرے سے یہ منظر بھی فلمارہی تھی۔ لیکن وہ بھی کوئی عام آدمی نہیں تھا جو کل کی بچیوں سے دب جاتا ۔وہ پاکستان ملٹری اکیڈمی سے سورڈ آف آنر جیتنے والا ریٹائرڈ کیپٹن تھا۔
جی ہاں یہ اسی خرم نواز گنڈاپور کی بات ہورہی ہے جن کا نام آج کل سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے ہرچینل کی زینت ہے۔ خرم نواز گنڈاپور کا تعلق بنیادی طور پر ڈیرہ اسماعیل خان سے ہے ۔انکے والد صاحب بیورو کریٹ تھے ۔انہوں نے ایم ایس سی ایگری کلچر کیا تھا اور گولڈ میڈلسٹ تھے جب کہ والدہ گریجویٹ تھیں۔ یہ چار بھائی ہیں اور خرم سب بھائیوں میں چھوٹے ہیں، بچپن میں زیادہ تر ایبٹ آباد میں رہے کیونکہ ابتدائی تعلیم برن ہال ایبٹ آباد سکول سے حاصل کی، ایبٹ آباد میں سردیوں کی چھٹیاں عموماً لمبی ہوتی ہیں تو وہ چھٹی گاوں میں جاکر گزارتے اور اس طرح دونوں کلچر میں پلتے رہے۔ آٹھویں کے بعد ایبٹ آباد پبلک سکول چلے گئے جو کہ اس لحاظ سے منفرد ادارہ تھا کہ وہاں بہت سے استاد انگریز تھے، ساتھ نمازیں بھی ضروری تھیں، جمعے کے دن شیروانی پہننا لازمی تھی، بزم ادب سب کے لیے لازم تھا، علامہ اقبال کی شاعری باقاعدہ پڑھائی جاتی، اس طرح سیکولر تعلیم کے ساتھ مذہبی تعلیم بھی جاری رہی۔ خرم، ایک انگریز استاد ہیوکیچ پول سے سب سے زیادہ متاثر تھے،جنہوں نے عبدالستار ایدھی کی طرح مثال قائم کی اور اپنی موت کے وقت گاڑی اپنے ڈرائیور کو اوراپنی تمام دولت ایبٹ آباد پبلک سکول کو عطیہ کردی۔
بچپن سے ہی سیریس اور پڑھائی کے شیدائی تھے۔ شعروشاعری سے شغف رکھا، بزم ادب کے ممبر رہے، بہترین مباحث رہے غرض یہ کہ غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی عموماً ٹاپ پہ رہتے ۔اردو اور انگلش دونوں کے ٹاپ مقرر رہے۔ اس تعلیمی نظام کی انہی خوبیوں کی بنا پرخرم نواز گنڈاپورچاہتے ہیں کہ یہ تعلیمی کلچر پاکستان میں رواج پائے۔ خرم صاحب نے میٹرک میں سکالرشپ لی، ایف ایس سی میں ٹانگ ٹوٹ جانے کی وجہ سے بہتر رزلٹ نہیں دے سکے۔
تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد چاروں بھائی مختلف گورنمنٹ سروسز میں چلے گئے دو بھائی فوج میں گئے ایک فارن سروس اور ایک عدلیہ میں، جو بعد میں ہائیکورٹ کے جج بھی بنے، جب کہ فارن سروس والے بھائی بعد ازاں سفیر بنے۔ آرمی میں جانے والے خرم نواز گنڈاپور اور انکے بھائی، دونوں نے بعد میں آرمی سے استعفی دیا انکے بھائی نے کاروبار کرلیا اور اب تک کررہے ہیں جبکہ گنڈاپور تعلیم مکمل کرنے چلے گئے جس کا ذکر آگے چل کر آئے گا۔ گنڈاپور کی بیوی ڈاکٹر ہیں اور وہ امریکہ میں بھی مقیم رہےں۔
پاکستان آرمی میں شمولیت اختیارکرنے کے بعد، خرم نواز گنڈاپورصاحب نے 47 پی ایم اے کورس میں سورڈ آف آنر(اعزازی تلوار) جیتی، روزہ رکھ کے پاسنگ آوٹ پریڈ لیڈ کی اور14 پنجاب رجمنٹ جوائن کی، ملٹری اکیڈمی میں اول پوزیشن حاصل کرنے پر انہیں آرمی میں کمیشن ملا۔ سروس کے دوران انہوں نے متعدد اعلی اعزازات جیتے، بعد ازاں انہوں نے پاکستان آرمی کی فائرنگ ٹیم کے ساتھ لندن کے مقابلوں میں بھی حصہ لیا۔ 1976 سے1978تک پاکستان ملٹری اکیڈمی میں بطور انسٹرکٹر خدمات سرانجام دیں، متعدد ہائی رینک آفیسرز کے علاوہ، جنرل پرویز مشرف بھی انکے شاگرد رہے۔
فوج چھوڑنے کے بعد پشاور یونیورسٹی سے گریجویشن کی اور یونیورسٹی میں چوتھی پوزیشن حاصل کی یاد رہے اس زمانے میں پورے خیرپختونخواہ میں صرف ایک ہی یونیورسٹی تھی اسکے بعد گومل یونیورسٹی سے پہلی پوزیشن میں، ایم اے پولیٹیکل سائنس کیا جس میں انہیں گولڈ میڈل ملا اور کراچی یونیورسٹی سے ایل ایل بی بھی کیا۔ اسکے بعد درج ذیل پوزیشنز پہ کام کیا۔
• 1982 سے 1993 تک عمان کی فوج کے مارشل ٹریننگ ایڈوائزر رہے، سلطان قابوس نے انکی خدمات کے اعزاز میں انہیں شاہی نشان عطا کیا۔
• 1993 سے 1997 تک وہ پاکستان کے ایوان بالا (سینٹ) کی درج ذیل کمیٹیوں میں بطور سیکرٹری تعینات رہے
• سینٹ سٹینڈنگ کمیٹی برائے ڈیفینس، ڈیفینس پروڈکشن اینڈ سول ایوی ایشن
• سینٹ سٹینڈنگ کمیٹی برائے فارن اینڈ کشمیر افیئرز
• سینٹ سٹینڈنگ کمیٹی برائے لیبر، افرادی قوت اور اوورسیز پاکستانیز
• سینٹ سٹینڈنگ کمیٹی برائے ترقی پذیر علاقہ جات بشمول فاٹا، بلوچستان اور خیبر پختونخواہ
• سینٹ سٹینڈنگ کمیٹی برائے انسانی حقوق
خرم نواز گنڈاپور 1989سے منہاج القرآن سے وابستہ ہیں ۔انکے بقول ڈاکٹر طاہر قادری کی جو بات انکو اچھی لگتی ہے وہ یہ کہ اس ملک کی سیاست اور وسائل پہ اشرافیہ کا قبضہ ہے اورعام آدمی کے لیے نہ سیاست میں کوئی موقع ہے اور نہ دیگر وسائل پہ کوئی استحقاق۔ پہلے پہل سیاست سے دور رہے لیکن یہی درد انہیں سیاست میں کھینچ لایا۔ 2012 میں جب ڈاکٹر قادری نے دس نکاتی ایجنڈا دیا تو گویا یہ خرم نواز گنڈاپور کے دل کی آواز تھی اور انہوں نے کرپٹ عناصر کو ملکی سیاست سے نکالنے کے لیے اس آواز پہ لبیک کہا۔
وہ نہ صرف پاکستان عوامی تحریک کے مرکزی جنرل سیکرٹری ہیں بلکہ منہاج القرآن کو بھی بطور ناظم اعلٰی چلا رہے ہیں جس میں دو باتیں قابل ذکر ہیں، پہلی، جاپان سے لے کر نارتھ امریکہ تک، دنیا کے نوے ممالک میں منہاج القرآن کے مراکز ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ بیرون ممالک مراکز کے ٹائم کے فرق کی بنا پر، منہاج القرآن کے مرکز کو چوبیس گھنٹے رابطے میں رہنا پڑتا ہے ۔دوسری بات، خرم نواز یہ کام بغیر کسی تنخواہ کے اللہ کی رضا کے لیے کرتے ہیں۔
منہاج القرآن کے ترجمان سے رابطہ کیا گیا تو علم ہوا کہ یہ ہاسٹل یونیورسٹی کا حصہ نہیں تھا اور اسکی انتظامیہ بھی الگ تھی، اسے خرم نواز گنڈا پور صاحب ہیڈ کرتے تھے اور اس میں وہ بچیاں رہائش پذیر تھیں جنکے والدین چاہتے تھے کہ انکی ہدایات کے مطابق بچیوں کا خصوصی خیال رکھا جائے۔ آخری اطلاعات کے مطابق والدین کو آگاہ کرکے یہ ہاسٹل، بیت الزہرا بند کردیا گیا ہے اور طالبات کو یہ کہتے ہوئے شہر میں موجود اپنی مرضی کا ہاسٹل منتحب کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے کہ یونیورسٹی ان طالبات کے معاملات میں کسی بات کی ذمہ دار نہیں ہوگی۔

..

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں,ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -