امریکہ پہلے افغان جنگ کے سود و زیاں کا حساب کر لے
ایران کے صدر حسن روحانی نے کہا ہے کہ امریکہ کے ساتھ کسی قسم کی کوئی بات چیت نہیں ہو سکتی،ایران کو پہلے ہی امریکہ کی اقتصادی جنگ کا سامنا ہے،موجودہ حالات مذاکرات کے لئے سازگار نہیں ہیں اور ایرانی مزاحمت ہی واحد سہارا رہ گیا ہے، ہمیں ایک مرتبہ پھر عراق کی 1980ء کی مسلط کردہ جنگ جیسے حالات کا سامنا ہے۔ ایرانی پابندیوں کی وجہ سے ایران کو شدید معاشی مشکلات کا سامنا ہے، دوسری جانب امریکہ کے سابق صدر جمی کارٹر نے صدر ٹرمپ سے کہا ہے کہ جنگوں سے مسائل حل نہیں ہوتے،امریکہ نے اگر چین کا مقابلہ کرنا ہے تو پھر اسے اپنے اوپر جنگی جنون طاری کرنے سے بچنا چاہئے۔1979ء کے بعد چین نے کسی کے ساتھ جنگ نہیں کی، بلکہ وہ اپنے وسائل اپنی معیشت کو بہتر بنانے پر لگاتا رہا، جبکہ دوسری طرف امریکہ جنگیں کر کے اپنے وسائل برباد کرتا رہا۔اگر نئی جنگ چھیڑی گئی تو امریکی حکومت کو عوامی غیظ و غضب کا سامنا کرنا پڑے گا، عوام نہیں چاہتے کہ اُن کا ٹیکس کا روپیہ جنگوں پر برباد ہو۔
صدر ٹرمپ جب سے اِس منصب پر براجمان ہوئے ہیں انہوں نے ایران کے ساتھ مسلسل کشیدگی کا راستہ اپنایا ہوا ہے، پہلے وہ ایران کو دھمکیاں دیتے رہے کہ نیو کلیئر ڈیل کا خاتمہ کر دیا جائے گا، پھر انہوں نے اپنی اس دھمکی کو عملی جامہ بھی پہنا دیا اور امریکہ، ایران کے ساتھ اس نیو کلیئر ڈیل سے نکل گیا، جس میں پانچ دوسرے طاقتور ممالک بھی فریق ہیں اور جن کی کئی سال کی کوششوں سے یہ معاہدہ طے پایا تھا، صدر اوباما بھی اس معاہدے کو امریکہ اور یورپی ممالک کی بڑی سفارتی کامیابی تصور کرتے تھے،اس معاہدے کی امریکی کانگرس نے منظوری دی تھی، اگرچہ57 ارکان نے صدر حسن روحانی کو باقاعدہ خط لکھ کر احتجاج کیا تھا کہ ایران خود ہی اس معاہدے سے منحرف ہو جائے ورنہ آنے والا صدر یہ معاہدہ منسوخ کر دے گا۔
یہ تمام ارکان اسرائیل کی محبت میں اس رویئے کا اظہار کر رہے تھے اور انہوں نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کو کانگرس سے خطاب کی دعوت بھی دی تھی،جنہوں نے اپنی تقریر میں اس نیو کلیئر ڈیل کو شدید تنقید کا ہدف بنایا تاہم اس سب کچھ کے باوجود صدر اوباما اپنے موقف پر ڈٹے رہے اور انہوں نے کانگرس کو بھی کہہ دیا کہ اگر اس معاہدے کی توثیق نہ کی گئی تو وہ صدارتی ویٹو کا استعمال کریں گے،جس کے بعد کانگرس نے اس معاہدے کی توثیق کر دی اور ویٹو کے استعمال کی نوبت نہ آئی،لیکن صدر ٹرمپ نے اسرائیل کو خوش کرنے کے لئے نیو کلیئر ڈیل سے علیحدگی اختیار کر لی ہے اور ایران پر نئی تجارتی پابندیاں عائد کر دیں، اِس سے پہلے ایران اقوام متحدہ کی پابندیوں کے دور سے بھی گزر چکا تھا اور ایرانی معیشت کو ان سے بڑا دھچکا لگا،مختصر مدت میں جونہی پابندیاں ختم ہوئیں ایران نے تیز رفتاری سے ایسے اقدامات شروع کر دیئے تھے،جن کے ذریعے معیشت کی بہتری کا عمل بھی شروع ہو گیا تھا،لیکن خوفزدہ اسرائیل ایران کے ساتھ معاہدے کے خاتمے کے لئے مسلسل امریکی صدر پر دباؤ ڈالتا رہا اور بالآخر معاہدہ منسوخ ہو گیا۔
امریکہ اب ان پابندیوں سے آگے بڑھ کر ایسے حالات پیدا کر رہا ہے جو بالآخر جنگ پر منتج ہو سکتے ہیں،امریکی صدر اور اُن کے وزیر ایران کے خلاف دھمکی آمیزبیانات بھی دیتے رہتے ہیں اور خلیج فارس میں امریکی بحری بیڑہ بھی موجود ہے۔ ایران اگرچہ جنگ نہیں چاہتا اور ایران کے روحانی رہنما سید علی خامنہ ای سمیت ایرانی قیادت واضح کر چکی ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ جنگ کے خواہاں نہیں،لیکن اِس وقت حالات ایسے بھی نہیں ہیں کہ مذاکرات کئے جا سکیں،کیونکہ امریکہ، ایران پر دباؤ ڈالنا چاہتا اور بعض ایسی شرائط منوانا چاہتا ہے، جنہیں ایران اپنی خود مختاری اور قومی مفاد کے منافی خیال کرتا ہے۔ امریکہ میں اب بھی بڑی تعداد میں لوگوں کی یہ رائے ہے کہ نیو کلیئر ڈیل کی وجہ سے ایران نے یورینیم کی افزودگی کا عمل روک دیا تھا اور اس کے پاس جو یورینیم موجود تھا اس کی کوالٹی ایسی نہیں تھی کہ اس سے نیو کلیئر ہتھیار بنائے جا سکتے،اِس لئے یہ معاہدہ ایران کو جوہری ہتھیاروں کی تیاری سے بھی روکے ہوئے تھا۔اگرچہ معاہدے کے دوسرے فریق اب تک اس ڈیل سے الگ نہیں ہوئے،لیکن وہ امریکہ کو بھی معاہدے میں واپس لانے میں ناکام رہے ہیں۔ ایران نے اعلان کر رکھا ہے کہ اگر یورپی ممالک بھی معاہدے سے نکل گئے تو وہ بھی یورینیم افزودہ کرنے کا عمل دوبارہ شروع کر دے گا۔
دونوں عالمی جنگیں معاہدوں کی خلاف ورزیوں ہی کے نتیجے میں شروع ہوئی تھیں، اِس لئے جو معاہدے ملکوں کے درمیان طے پا جاتے ہیں،اُن کی پابندی ضروری ہے۔ صدر اوباما نے ایران کے ساتھ نہ صرف نیو کلیئر ڈیل پر اظہارِ مسرت کیا تھا، بلکہ اس پر کانگرس نے مہر تصدیق بھی ثبت کی تھی،اِس لئے ان کے جانشین پر اس کا احترام واجب تھا جو انہوں نے نہیں کیا اور ایران پر پابندیوں کے بعد اب جنگ کی دھمکیوں اور ایران کو صفحہ ہستی سے مٹا دینے کے نعروں پر اُتر آئے ہیں۔اگرچہ ایران کے جوشیلے رہنما اسرائیل کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کرنے کا اعلان کرتے رہتے ہیں،لیکن جنگوں سے مسائل حل نہیں، پیدا ہوتے ہیں اور یہی بات صدر جمی کارٹر نے صدر ٹرمپ کو سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ اگر چین کا اقتصادی مقابلہ کرنا ہے، تو جنگوں سے گریز کرنا ہو گا، چین نے بچ بچا کر ایسی پالیسی اختیار کی ہے کہ کئی عشروں سے کسی ملک کے ساتھ جنگ میں نہیں اُلجھا اور اسی کا نتیجہ ہے کہ اس کی اکانومی دُنیا کی سب سے بڑی معیشت بننے کی شاہراہ پر تیزی سے دوڑی چلی جا رہی ہے،امریکہ تجارتی پابندیاں لگا کر چین کا راستہ روکنے کی ناکام کوشش کر رہا ہے، لیکن خود دُنیا بھر کی جنگوں میں اُلجھا ہوا ہے۔
اٹھارہ سال سے افغانستان میں پھنسا ہوا ہے اور وہاں سے باعزت واپسی کی کوئی سبیل بھی پیدا نہیں ہو رہی،اِس لئے بہتر یہ ہے کہ ایران کے ساتھ جنگ میں اُلجھنے سے گریز کیا جائے۔ اگر خلیج میں جنگ چھڑی تو اس سے امریکہ اور ایران ہی نہیں پورا خطہ اور پوری دُنیا کی اکانومی متاثر ہو گی،کیونکہ دُنیا کے بیشتر ممالک کی ضرورت کا تیل آبنائے ہرمز سے گزرتا ہے، جو جنگ کی صورت میں تیل کے جہازوں کے لئے استعمال نہیں ہو سکے گی،اِس لئے صدر ٹرمپ اگر کسی اور کی نہیں سنتے تو اپنے ملک کے ایک مدبر صدر کی نصیحت پر عمل کر کے جنگ سے باز رہیں۔ بہتر ہے امریکہ پہلے افغانستان سے نکل جائے اور وہاں اٹھارہ سالہ کامیابیوں اور ناکامیوں کا گوشوارہ بنا کر اچھی طرح غور کر لے کہ اسے اِس جنگ سے کیا ملا، کوئی نیا ایڈونچر شروع کرنے سے پہلے افغان جنگ کا تجزیہ ضروری ہے،جس پر ٹریلین ڈالر خرچ ہو گئے،لاکھوں افغان زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے، ہزاروں امریکی فوجی بھی مر گئے، لیکن امریکہ کو کیا حاصل ہوا؟افغان کہسار تو اب تک باقی ہیں۔