اسلام آباد میں قبائلی بچی فرشتہ کا قتل؟
انسانی درندگی کی مثالیں تھوڑے وقفہ سے سامنے آتی رہتی ہیں، کچھ عرصہ سے میڈیا بھی چوکس ہوا تو بہیمانہ وارداتیں سامنے آئیں اور اکثر معاملات میں ملزم بھی پکڑے گئے، گرفتاری کے بعد کیا ہوا اور کیا ملزم انجام تک پہنچے،اِس حوالے سے میڈیا بھی خاموش ہو جاتا ہے، ابھی راولپنڈی کی طالبہ کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی صدائے باز گشت تھی کہ اسلام آباد میں درندگی کا ایک اور واقعہ سامنے آ گیا،دس سالہ فرشتہ(قبائلی بچی) کی نعش گمشدگی کے پانچ روز بعد جنگل سے ملی، جس کی حالت خراب تھی، جسم پر تشدد کے نشانات کے علاوہ جانوروں نے بھی کھایا ہوا تھا، یہ بچی پانچ روز پہلے گم ہوئی، پولیس نے لواحقین کی درخواست پر کوئی توجہ نہ دی تھی،بچی کے ورثاء اور رشتہ داروں کے مظاہرے کے بعد انتظامیہ حرکت میں آئی، متعلقہ پولیس آفیسر کو معطل کیا گیا اور تحقیقاتی کمیشن بھی بنا دیا گیا۔پولیس اور انتظامیہ کے مطابق تین افراد کو شبہ میں گرفتار کیا گیا تو قتل کا سراغ مل گیا اس میں مرکزی ملزم بچی کا رشتہ دار ہی ہے، جسے پکڑ لیا گیا۔معصوم بچوں اور بچیوں کے ساتھ ایسے بہیمانہ سلوک کی واداتوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور یہ بھی دیکھا گیا کہ جن بچوں اور بچیوں کو درندگی کے بعد قتل کیا گیا، اکثر ملزم قریبی رشتہ دار یا محلے دار ہی نکلے۔یہ سماجی رشتوں کی ٹوٹ پھوٹ کی نشاندہی ہے کہ معاشرہ کس راہ پر چل پڑا ہے،ایسے کریہیہ جرائم کو روکنے کے لئے ضروری ہے کہ پولیس کی روایتی بے عملی کو ختم کیا جائے اور گمشدگی کی رپورٹ فوری طور پر درج ہو کر کارروائی ہو تاکہ توقع ہو جائے کہ مغوی کو قتل نہ کیا گیا ہو اور وہ برآمد ہو جائے،ایسے جرائم میں ملوث ملزموں اور ان کی پشت پناہی کرنے والوں کو سخت ترین سزائیں دی جائیں تاکہ دوسروں کو عبرت ہو۔