آج کی تراویح میں پڑھے جانے والے قرآن ِ پاک کی تفہیم

آج کی تراویح میں پڑھے جانے والے قرآن ِ پاک کی تفہیم
آج کی تراویح میں پڑھے جانے والے قرآن ِ پاک کی تفہیم

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


بسم اللہ الرحمن الرحیم
اٹھارہویں تراویح
سورۃ الحجرات …… 49 ویں سورت
سورۂ حجرات مدنی ہے، 18 آیات اور 2رکوع ہیں، نزول کے اعتبار سے 106 ویں سورت ہے، چھبیسویں پارہ کے تیرہویں رکوع سے چودھویں رکوع تک ہے۔ سورت کا نام آیت 4 سے لیا گیا ہے، جہاں آپ کے حجرات کے حوالے سے بات کی گئی ہے۔ یہ سورت مختلف مواقع پر احکام وہدایات کا مجموعہ معلوم ہوتا ہے کہ اکثرا حکام مدینہ طیبہ کے آخری دور کے ہیں۔ بعض مفسرین نے بنی تمیم کے وفد (جو 9 ھ میں آیا تھا) کے آنے کو شان نزول بتایا ہے۔ آیت 6 کے بارے میں بکثرت روایات ہیں کہ ولیدؓ بن عقبہ کے بارے میں نازل ہوئی،جنہیں بنی مصطلق سے زکٰوۃ کے لئے بھیجا گیا تھا۔
فرمایا: ”اے ایمان والو، اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے آگے نہ بڑھو۔ یعنی حضور انور ﷺ سے کسی معاملے میں آگے نہ جاؤ اور اللہ سے ڈرو۔ اپنی آواز حضور انورﷺ کی آواز سے اونچی نہ کرو اور ان سے اس طرح چلا کر بات نہ کرو جس طرح تم آپس میں بات کرتے ہو، ورنہ تمہارے اعمال ضائع ہو جائیں گے اور تمہیں خبر بھی نہ ہو گی۔ بیشک وہ لوگ ناسمجھ ہیں جو آپ کو حجروں کے باہرسے زور سے پکارتے ہیں۔ انہیں چاہئے کہ وہ آپ کا انتظار کریں کہ آپ خود ہی باہر تشریف لے آئیں۔


اے ایمان والو اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تحقیق کر لو، کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کی بات پر تم کسی قوم کو بے علمی میں رہتے ہوئے ایذا دے بیٹھو اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ کسی وجہ سے اختلاف کرتے ہوں تو زیادتی کرنے والے کو اللہ کے حکم کی طرف لے آؤ اور انصاف کرو۔ مسلمان تو مسلمان کے بھائی ہیں،اس لئے دو بھائیوں میں صلح کروا دو۔ اے ایمان والو! ایک دوسرے پر مت ہنسو، ممکن ہے کہ جس پرہنسا گیا ہے وہ ہنسنے والے سے بہتر ہو۔ اور آپس میں طعنہ نہ کرو اور نہ ہی ایک دوسرے کے برے نام رکھو۔ مسلمان ہو کر فاسق کہلایا جانا ہی بہت برا نام ہے۔ گمانوں سے بھی بچو، بیشک کوئی گمان گناہ ہو جاتا ہے۔ عیب جوئی نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کی غیبت کرو۔کیا تم میں سے کوئی پسند کرے گا کہ وہ اپنے مرے بھائی کا گوشت کھائے؟


سورۃ ق …… 50 ویں سورت
سورۂ ق مکی ہے 45، آیات اور 3، رکوع ہیں۔ نزول کے اعتبار سے 34 ویں ہے۔ چھبیسویں پارہ کے پندرہویں رکوع سے سترہویں رکوع تک ہے۔ آغاز ہی کے حرف مقطع ”ق“ سے نام لیا گیا ہے، یعنی وہ سورت جس کے شروع میں“ق“ آیا ہے۔ سورت کے مضمون سے معلوم ہوتا ہے کہ مکہ کے دوسرے دور میں (جو نبوت کے دوسرے سال سے پانچویں سال تک رہا) نازل ہوئی۔اندازاً پانچویں سال نبوت میں۔ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول پاک ﷺ عیدین کی نماز میں اس کی اکثر تلاوت فرماتے تھے۔ اسی طرح فجر میں بھی اور جمعہ میں بھی۔ پوری سورت کا موضوع آخرت ہے۔
فرمایا، نوح علیہ السلام کی قوم، اصحاب الرأس، ثمود، عاد، فرعون، لوط علیہ السلام کے ہم قوم، سبھی منکر ہوئے۔ کیا ہم پہلی بار تخلیق کر کے تھک گئے جو دوبارہ پیدا نہیں کر سکتے؟ آپؐ ان کافروں کی بات پر صبر کریں اور اپنے رب کی تسبیح وتمجید کرتے رہیں فجر، ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور تہجد میں اور جب اسرافیل علیہ السلام صور پھونکیں گے تو لوگ قبروں سے باہر آ جائیں گے۔ زندہ کرنا، مارنا اور پھر زندہ کرنا ہمارے اختیار میں ہے۔


سورۃ الذاریات …… 51 ویں سورت
سورۂ ذاریات مکی ہے، 6 آیات اور 3 رکوع ہیں، نزول کے اعتبار سے 105 ویں سورت، چھبیسویں پارہ کے اٹھارہویں رکوع سے ستائیسویں پارہ کے دوسرے رکوع تک ہے۔ ستائیسواں پارہ اس کی 31 ویں آیت سے شروع ہوتا ہے۔ سورت کا نام پہلے ہی لفظ ”الذاریات“ سے لیا گیا۔ (ذاریات، ان ہواؤں کوکہتے ہیں جو گردوغبار اڑانے والی ہوں) یہ سورت اس زمانے میں نازل ہوئی، جب کفار مکہ نے تکذیب، استہزاء اور جھوٹے الزامات زور وشور سے شروع کر رکھے تھے۔ سورت کا بڑا حصہ آخرت پر اور پھر توحید کی دعوت پر ہے۔
ارشاد ہے: حضرت ابراہیم کے پاس معزز مہمان (فرشتے) آئے تھے،جن کے لئے آپ نے ایک نفیس بھنا ہوا بچھڑا پیش کیا، لیکن انہوں نے نہیں کھایا اور ایک علم والے صاحب زادے کی بشارت دی اور ان کی اہلیہ نے تعجب کیا کہ میں تو بڑھیا بانجھ ہوں۔ ابراہیم علیہ السلام نے ان فرشتوں سے دریافت کیا کہ تم اور کس کام سے آئے ہو تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم لوگ قوم لوط پر عذاب کے لئے آئے ہیں اور ایسا عذاب جو حد سے گزر جانے والوں کے لئے ہے۔ البتہ ایک مسلمان گھر کو بچا لیا۔ موسیٰ علیہ السلام کے واقعے میں ہے کہ وہ فرعون کے پاس روشن دلائل کے ساتھ گئے، لیکن اس نے اور اس کے ساتھیوں نے ان کا انکار کیا اور موسیٰ علیہ السلام کو جادو گر یا دیوانہ کہا۔ آخر ہم نے فرعون اوراس کے لشکر کو دریا میں پھینک دیا، حالانکہ وہ ایسے وقت میں خود کو ملامت کر رہا تھا۔ قوم عاد کو بھی نافرمانی کی وجہ سے سخت آندھی سے ہلاک کیا گیا۔ اسی طرح قوم ثمود کو ہولناک کڑک نے ہلاک کر دیا اور ان لوگوں سے پہلے نوح علیہ السلام کی قوم کو بھی نافرمانی کی وجہ سے ہلاک کیا گیا تھا-


سورۃ الطور …… 52 ویں سورت
سورۂ طور مکی ہے، 49 آیات اور 2رکوع ہیں۔ نزول کے اعتبار سے 76 ویں سورت ہے، ستائیسویں پارہ کے تیسرے اور چوتھے رکوع پر مشتمل ہے۔نام پہلے ہی لفظ ”الطور“ سے لیا گیا ہے۔ یہ بھی اسی دور میں نازل ہوئی جس میں ”ذاریات“ نازل ہوئی۔ پہلے رکوع میں آخرت موضوع ہے۔ دوسرے میں مکہ والوں کے رویہ پر تنقید ہے۔
”اللہ پاک مختلف اور ممتازچیزوں کو گواہ کر کے فرماتا ہے کہ کفار کے لئے عذاب ضرور ہونا ہے۔ اس دن تو آسمان اس طرح حرکت میں آئیں گے جیسے چکی چلتی ہے اور پہاڑ اس طرح چلیں گے جس طرح ہوا میں غبار اڑتا ہے۔ اس دن جھٹلانے والوں کے لئے خرابی ہی خرابی ہے۔ آج وہ لوگ کفر وباطل کے مشغلوں میں مگن ہیں،لیکن کل وہ جہنم میں دھکیلے جائیں گے۔


سورۃ النجم …… 53 ویں سورت
سورۂ نجم مکی ہے۔ 62، آیات اور 3، رکوع ہیں۔ نزول کے اعتبار سے 23 نمبر پر ہے۔ ستائیسویں پارہ کے پانچویں رکوع سے ساتویں رکوع تک ہے۔ نام پہلے ہی لفظ ”والنجم“ سے لیا گیا ہے۔ اس میں واقعہ معراج کا ذکر ہے۔ بخاری ومسلم وغیرہ میں ہے کہ یہ پہلی سورت ہے جس میں سجدہ نازل ہوا۔ حضرت ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ یہ پہلی سورت ہے، جسے آپ نے قریش کے مجمع عام میں سنایا تھا اور جب آپ ﷺ نے سجدہ فرمایا تو کفار کے بڑے بڑے سردار بھی سجدہ میں گر گئے۔ اس سے پہلے رجب 5 نبوی میں صحابہ کرامؓ کی ایک مختصر جماعت حبشہ ہجرت کر چکی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ سورت رمضان 5نبوی میں نازل ہوئی۔
فرمایا: ”چمکتے ہوئے ستارے کی قسم، تمہارے صاحب اورتمہارے آقا ﷺ نہ کبھی بہکے اور نہ کبھی بے راہ چلے۔ ان کی کوئی بات اپنی خواہش سے نہیں ہے بلکہ وحی ہے جو ان پر کی جاتی ہے۔ اور ان کوزبردست قوت والے نے سکھایا ہے۔ وہ آسمانوں کے اوپر گئے تو تجلی ربانی آپ ﷺ کی طرف متوجہ ہوئی۔ اللہ نے آپ ﷺ کو اپنے قرب کی نعمت سے نوازا پھر اللہ نے اپنے پیارے بندے کو وحی فرمائی جو وہ چاہتا تھا اور حضور انور ﷺ کے قلب مبارک نے اس کی تصدیق کی جو دیکھا تھا۔ اور وہ تم لوگ کیا جانو جو تم ان کے دیکھے پر جھگڑتے ہو۔ انہوں نے تو دوبارہ جلوہ دیکھا۔ سدرۃ المنتہیٰ کے پاس۔ اسی کے پاس جنت الماویٰ ہے اور سدرہ پر ملائکہ اور انوار بھی چھائے ہوئے تھے، لیکن حضور انور ﷺ کی آنکھ نہ کسی طرف پھری اور نہ حد سے بڑھی اور بیشک آپ ﷺ نے اپنے رب کی بہت بڑی نشانیاں دیکھیں۔ موسیٰ علیہ السلام اور ابراہیم علیہ السلام کے صحیفوں میں بھی ہے کہ ہر شخص اپنے کئے کا ذمہ دار ہے، دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا اور یہ کہ ہر شخص اپنی کوشش ہی سے پاتا ہے اور اس کی کوشش اللہ کے نزدیک مشکور ہو سکتی ہے اوروہی اس کا پورا بدلہ دینے والا ہے۔ اسی نے قوم لوط علیہ السلام کو الٹ دیا تھا اور پتھر برسائے تھے۔ پھر اس کی کون سی نعمتوں کو جھٹلایا جا سکتا ہے؟۔


سورۃ القمر …… 54 ویں سورت
یہ مکی سورت ہے، 55 آیات اور 3 رکوع ہیں۔ نزول کے اعتبار سے 37 ویں ہے، ستائیسویں پارہ کی آٹھویں رکوع سے دسویں تک ہے۔ نام پہلی آیت کے فقرہ ”وانشق القمر“ سے لیا گیا ہے۔ واقعہ ہجرت سے پانچ سال قبل منٰی کے مقام پر چاند دو ٹکڑے ہوا تھا، یہ سورہ اسی واقعہ کا ذکر کرتی ہے۔ سورت میں کفار کو ہٹ دھرمی پر تنبیہ کی گئی ہے۔منکرین قیامت کے بھی منکر تھے اور رسول ﷺ کے بھی منکر تھے او ران سے مطالبہ کر رہے تھے کہ کوئی معجزہ دکھلایئے۔ اس سورہ میں اللہ پاک نے قرب قیامت کا ذکر بھی کیا ہے اور حضور انور ﷺ کے اشارے پر چاند دو ٹکڑے ہو گیا تھا۔ اس کا ذکر بھی ہے، لیکن منکرین اس معجزے کو بھی جادو کہتے تھے، حالانکہ دور دور کے ملکوں میں بھی لوگوں نے شق القمر کا مشاہدہ کیا تھا۔ ایسے لوگوں نے نوح علیہ السلام کی تکذیب بھی کی تھی تو انہوں نے اللہ سے دعا کی تھی کہ اے اللہ میں مغلوب ہو گیا ہوں تو میرا بدلہ لے۔ پھر تو آسمان سے زور کا پانی آیا اور زمین نے اپنے چشمے کھول دیئے۔ زبردست طوفان آیا تو نوح علیہ السلام کو ہم نے کشتی پر سوار کرا دیا اور کافروں پر سخت عذاب ہوا، منکرین میں قوم عاد بھی تھی، جس پر ایک سخت آندھی آئی اور وہ تباہ ہو ئے۔ قوم ثمود نے بھی اسی طرح انکارکیا اور صالح علیہ السلام سے کہا کہ پتھر میں سے ایک اونٹنی نکال دیں۔ جب وہ اونٹنی نکلی تو ان لوگوں میں سے ایک نے اس کی کوچیں کاٹ دیں، پھر ایک ہولناک آواز آئی اوروہ لوگ سوکھی گھاس کی طرح ہو گئے۔ لوط علیہ السلام کی قوم پر بھی ان کی برائی کی وجہ سے پتھر برسائے گئے، لیکن اللہ کو یاد کرنے والے بچا لئے گئے۔ وہ منکرین تو لوط علیہ السلام کے مہمان فرشتوں کو بھی ستانا چاہتے تھے۔ اللہ پاک نے ایسے منکروں پر سخت عذاب کیا۔ فرعون والوں نے بھی ہمارے رسول موسیٰ علیہ السلام کی تکذیب کی، آخر وہ لوگ بھی تباہ کئے گئے۔ اب حضور انور ﷺ کے زمانے کے منکرین کو تنبیہ ہے کہ وہ لوگ اگر نہیں مانتے تو انہیں (یہاں) جنگ بدر میں) بھی تباہی ہے اور آخرت میں بھی عذاب ہے۔ ٭

مزید :

رائے -کالم -