فرشتہ بھی درندگی کی بھینٹ چڑھ گئی

فرشتہ بھی درندگی کی بھینٹ چڑھ گئی
فرشتہ بھی درندگی کی بھینٹ چڑھ گئی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


جنگل بنتے اس معاشرے میں کیا درندوں نے یہ ضد پکڑ لی ہے کہ آئے روز اپنی وحشیانہ درندگی کا ایسا نشان چھوڑنا ہے کہ لوگ کانپ کانپ جائیں۔ یہ کس قسم کی لہر چل پڑی ہے کہ معصوم بچوں کو درندگی کا نشانہ بنا کر ان کی مسخ شدہ لاشیں معاشرے کے منہ پر طمانچہ مارنے کے لئے اِدھر اُدھر پھینک دی جاتی ہیں۔ اب اسلام آباد سے فرشتہ کی لاش ملی ہے جس نے زندگی کی صرف گیارہ بہاریں دیکھیں اور جسے زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا۔ ظالموں نے کوئی شہر بھی تو نہیں چھوڑا۔ صوبائی دارالحکومت محفوظ ہیں اور نہ وفاقی دارالحکومت، پھر پولیس بھی اپنے طرز کا واحد ماڈل ہے جو پاکستان کے طول و عرض میں پایا جاتا ہے۔ پنجاب پولیس کی بے حسی کے قصے سن سن کر کان پک گئے ہیں، اب اس حوالے سے اسلام آباد پولیس نے بھی تاریخ رقم کر دی ہے۔ فرشتہ نامی معصوم بچی کا والد چار دن تک تھانہ چک شہزاد کے ایس ایچ او سے فریاد کرتا رہا کہ اس کی بچی غائب ہے، مقدمہ درج کر کے تلاش کیا جائے، مگر وہ پتھر کے دل والے روائتی تھانیدار کی طرح اس باپ کا کرب محسوس کرنے کی بجائے ٹال مٹول سے کام لیتا رہا، حتیٰ کہ اسے یہ کہہ کر اس کا کلیجہ پھاڑ دیا کہ اپنی مرضی سے کسی کے ساتھ چلی گئی ہو گی، واپس آ جائے گی۔ اس بے حس تھانیدار نے یہ تک نہیں سوچا کہ بچی کی عمر کتنی ہے اور کیا اس عمر میں وہ یہ کام کر سکتی ہے؟ پولیس میں ایسے ایسے سنگدل اور بے حس نمونے بھرتی کئے گئے ہیں کہ ان کے انسان ہونے پر بھی شک ہونے لگتا ہے۔ اب خیر سے اس تھانیدار کو معطل کر دیا گیا ہے، حالانکہ اسے جوتے لگنے چاہئیں کہ اس کی نا اہلی اور مجرمانہ غفلت کی وجہ سے معاشرے میں عدم تحفظ پھیلا اور بعد ازاں اتنا بڑا ردعمل بھی سامنے آیا۔


اب لو گ یہ کہتے ہیں کہ قصور میں ننھی زینب کے مجرم عمران کو سرعام پھانسی پر لٹکایا جاتا تو شاید اس قسم کے واقعات رک جاتے۔ عوام جب سوشل میڈیا پر ایسی وڈیوز دیکھتے ہیں کہ ایران، سعودی عرب یا یمن میں کسی بچی سے زیادتی کرنے والوں کو چند گھنٹوں کی سماعت کے بعد سر میں گولیاں مارنے کے بعد بیچ چوراہے کے لٹکا دیا گیا ہے تو ان کے دل میں یہ خواہش اُبھرتی ہے کہ کاش پاکستان میں بھی ایسا ہو، مگر یہاں انسانی حقوق کی لایعنی باتیں آڑے آ جاتی ہیں۔ کیا ان بچوں کے کوئی حقوق نہیں، کیا ان کا مقدر یہی ہے کہ وہ گھر سے باہر نکلیں تو کسی درندے کی ہوس کا نشانہ بن کر اپنی زندگی بھی گنوا بیٹھیں؟ ہم تو ابھی تک یہ فیصلہ بھی نہیں کر سکے کہ ایسے کیسوں کو خصوصی عدالتوں میں چلانا ہے یا عام عدالتوں میں۔ کم از کم زیادتی کے ایسے کیسوں کی سماعت کے لئے ماڈل عدالتیں بنا دی جائیں جو ایک ہفتے کے اندر کیس کا فیصلہ سنا دیں۔ برسوں بعد کیسوں کے فیصلوں سے درندوں کے حوصلے بڑھتے ہیں اور ایک کے بعد دوسرا واقعہ سامنے آ جاتا ہے۔ پولیس کے اندر بھی ایسے کیسوں کے حوالے سے ایک بے حسی اور غفلت پائی جاتی ہے، 90 فیصد کیسوں میں یہی ہوتا ہے جو معصوم فرشتہ کے کیس میں ہوا ہے۔ پولیس کو اطلاع دی جاتی ہے، مگر اس کے تن مردہ میں جان نہیں پڑتی۔


رپٹ لکھنے کے بعد پورا تھانہ لسی پی کر سو جاتا ہے۔ایک تحرک اور ایمرجنسی جو ایسے واقعہ کی اطلاع پر متعلقہ تھانے میں دکھائی دینی چاہئے،وہ مفقود نظر آتی ہے۔ اسے معمول کا واقعہ سمجھ کر کسی لاش کے ملنے، کسی درندگی کی رپورٹ سامنے آنے کا انتظار کیا جاتا ہے۔ جب تک سڑکوں پر احتجاج نہ ہو، عوام دھرنا نہ دیں،پولیس سوئی رہتی ہے۔ کم از کم اس بے حسی کو ختم کیا جائے۔ افسران بھی انتظار کرتے ہیں کہ کب کسی ایس ایچ او کی مجرمانہ غفلت سامنے آئے اور وہ اسے معطل کرنے کا ”سنہری کارنامہ“ سر انجام دیں۔ تھانے اور سی پی او کے درمیان اتنا طویل فاصلہ ہے کہ کوئی ربط و ضبط نظر نہیں آتا، اگر چار دن سے ایک بچی غائب تھی اور اس کا والد اس کی تلاش کے لئے تھانے میں مسلسل گڑگڑا رہا تھا تو سی پی او کو اس کی کیوں خبر نہیں ہوئی۔ کیا کوئی ایسا میکنزم نہیں کہ ایس ایچ او کے اعمال کی سی پی او کو خود بخود خبر ہو سکے۔ کیا پولیس کے اعلیٰ افسران کو درجنوں ایسے واقعات کے بعد اتنی بھی عقل نہیں آئی کہ ایسے جرائم معاشرے کو ہلا کر رکھ دیتے ہیں۔ چوری، ڈکیتی حتیٰ کہ قتل کے جرائم بھی ایک حد تک اپنا اثر چھوڑتے ہیں، لیکن کسی معصوم بچی یا بچے کے ساتھ زیادتی، اس کا اغوا یا قتل ایک ایسا اثر چھوڑتے ہیں جو معاشرے کی بنیادیں تک ہلا دیتا ہے۔ شرمناک بات یہ ہے کہ پولیس والے سب سے زیادہ غفلت اور بے حسی کا مظاہرہ ایسے ہی کیسوں میں کرتے ہیں۔


آپ کو یاد ہوگا کہ جب قصور میں زینب کیس ہوا تو اس میں بھی بچی کا والد یہی دہائی دیتا رہا کہ اطلاع دینے کے باوجود پولیس نے بروقت کارروائی نہیں کی۔ اہل محلہ نے بعض اوباشوں کی نشاندہی کی جن میں مجرم عمران بھی شامل تھا، مگر اسے حراست میں نہیں لیا گیا۔ جب معصوم زینب کی لاش سامنے آگئی تو پولیس کے اندر گویا جان پڑ گئی۔ عوام کا غم و غصہ بڑھ گیا تو پولیس نے فائرنگ کر کے مزید تین بندے مار دیئے۔ گویا اپنی مجرمانہ غفلت کا خراج بھی وصول کیا۔ یہ سب واقعات بتاتے ہیں کہ پہلی نا اہلی پولیس کی طرف سے شروع ہوتی ہے،اگر وہ ایسی کسی بھی اطلاع پر فوری حرکت میں آ جائے تو شاید بچوں کی جان بھی بچ جائے اور درندوں کو نشان عبرت بنانا بھی آسان ہو۔ کیا ہر صوبے اور اسلام آباد کے آئی جی کو یہ حکم نہیں جاری کرنا چاہئے کہ کسی بھی بچے یا بچی کی اچانک گمشدگی کی فوری رپورٹ درج کر کے اس پر ایکشن شروع کیا جائے۔ اس کی اطلاع آئی جی آفس میں قائم مانیٹرنگ سیل کو دی جائے جو اس کی پراگریس چیک کرے۔ متعلقہ ضلع کا ڈی پی او یا سی پی او ایسی وارداتوں کو ٹاپ لسٹ پر رکھیں اور خود نگرانی کریں۔ اس سے اور کچھ نہ بھی ہو تو یہ ضرور ہوگا کہ بچوں کے ورثاء اور ملزموں کو احساس ہو جائے گا کہ کوئی ان پر نظر رکھے ہوئے ہے،جس طرح چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ نے سنگین مقدمات کی سماعت ے لئے ہر ضلع میں ماڈل عدالتیں بنائی ہیں، اسی طرح بچوں کے ساتھ زیادتی اور قتل کے کیس بھی ایسی ہی ماڈل عدالتوں میں بھیجے جائیں،جو زیادہ سے زیادہ ایک ماہ میں فیصلہ سنانے کی پابند ہوں۔ ایسے مجرموں کو سر عام سزا دینے کے لئے کوئی قانون سازی کرنی پڑے تو کی جائے۔ اس عفریت کو قابو کرنے کے لئے غیر معمولی اقدمات اٹھانے ہوں گے، وگرنہ ہم اس طرح کسی زینب، کسی فرشتہ کے جنازے اٹھاتے رہیں گے۔


ایک بڑی ذمہ داری والدین پر بھی عائد ہوتی ہے۔ اس وقت معاشرہ ایک بھنور کی زد میں ہے۔ انفرمیشن ٹیکنالوجی اور موبائل فون کے استعمال نے بہت سی قباحتیں پیدا کر دی ہیں۔ ایک بگاڑ تو وہ ہے جو اس کی وجہ سے نوجوانوں میں پیدا ہو رہا ہے،ان کی اگر اخلاقی تربیت نہ کی گئی اور ان کے معمولات پر گہری نظر نہ رکھی گئی تو ان کے بھٹک جانے کے سو فیصد امکانات موجود ہیں۔ دوسری طرف خاص طور پر بچیوں کو اکیلا بھیجنے یا کسی پر اعتبار کرنے کا زمانہ بھی نہیں رہا۔ اکثر کیسوں میں محلے دار، رشتہ دار یا کزن وغیرہ ملزم ثابت ہوئے ہیں۔یہ ایک بہت بڑا معاشرتی مسئلہ بن چکا ہے۔ سزاؤں کے فقدان، فوری فیصلوں کی عدم موجودگی اور پولیس کی ناقص کارکردگی نے اس معاملے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ عموماً دیکھنے میں آیا ہے کہ حکمرانوں کی طرف سے روائتی بیانات دینے کے بعد عدم توجہی برتی جاتی ہے، حالانکہ اس حوالے سے سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے، جن میں قانون سازی بھی شامل ہے۔ یہ قانون کا خوف نہ ہونا ہی ہے کہ دو جرم بیک وقت کئے جاتے ہیں، ایک زیادتی اور دوسرا قتل، اس درندگی کے آگے بند نہ باندھا گیا تو معاشرہ درندہ راج کی عملی تصویر بن جائے گا۔

مزید :

رائے -کالم -