کشمیریوں کو کرنٹ، لوہے کے گرم راڈ سے اذیتیں دی جاتی ہیں

کشمیریوں کو کرنٹ، لوہے کے گرم راڈ سے اذیتیں دی جاتی ہیں
کشمیریوں کو کرنٹ، لوہے کے گرم راڈ سے اذیتیں دی جاتی ہیں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مقبوضہ کشمیر میں قابض بھارتی فوج اور سیکیورٹی فورسز گزشتہ 30 سال سے آزادی کی تحریک کو دبانے میں لگی ہیں۔ کشمیریوں کو جسمانی اور ذہنی اذیت پہنچانے کے وہ تمام حربے استعمال کئے جا رہے ہیں جن کو عالمی قوانین کے تحت غیرانسانی اور غیرقانونی قرار دیا جاتا ہے۔بین الاقوامی نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں تشدد کا نشانہ بننے والے 70 فیصد افراد عام شہری ہیں جنہیں کرنٹ لگا کر، لوہے کے راڈ سے مار کر اور جلانے سمیت مختلف طریقوں سے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔


مقبوضہ وادی میں قابض فوج کے مظالم پر مبنی رپورٹ "ٹارچر: انڈیا سٹیٹ انسٹرومنٹ آف کنٹرول ان انڈیا ایڈمنسٹرڈ جموں اینڈ کشمیر" میں بین الاقوامی میڈیا بھی پھٹ پڑا۔ رپورٹ کے مطابق کئی دہائیوں سے جاری اس ظلم وستم میں شہریوں پرمختلف طریقوں سے تشدد کیا جاتا ہے جن میں عریاں حراست میں لینا، آئرن راڈ، لیدر بیلٹ اور ڈنڈوں سے مارنا، زمین پر گھسیٹنا، پانی میں غوطے دینا، کرنٹ لگانا، چھت سے لٹکانا اور جسم کو جلانا شامل ہیں۔رپورٹ میں چار سو بتیس مختلف کیسز کا جائزہ لیا گیا جن میں تین سو ایک افراد خواتین، طلباء، سیاسی کارکن، ہیومن رائٹس کارکن اور صحافیوں سمیت عام شہری شامل تھے۔ رپورٹ کے مطابق سرچ آپریشن کے دوران تشدد اور جنسی ہراساں کرنا عام ہے۔


رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 432 قیدیوں پر تشدد کے واقعات پر تحقیق کی گئی، ان میں سے 40 واقعات میں قیدی جسمانی تشدد سے ہلاک ہوئے۔ 190 قیدیوں کو برہنہ کرکے تشدد کیا گیا۔ 326 افراد کو ڈنڈوں، لوہے کی راڈوں، چمڑے کے ہنٹر اور بیلٹ سے مارا پیٹا گیا، ان میں سے 169 کو رولر ٹارچر کا نشانہ بنایا گیا اور واٹر بورڈنگ کا حربہ 24 قیدیوں پر آزمایا گیا۔ قیدیوں کے سروں کو پانی میں ڈبو کر تشدد کرنے کے 101 واقعات ہوئے، 231 کے جسم کے نازک حصوں پر کرنٹ لگایا گیا، 121 قیدیوں کو سر کے بل چھت سے لٹکایا گیا۔رپورٹ میں الزام ہے کہ گیارہ کشمیریوں کو طویل عرصے تک قیدِ تنہائی میں رکھا گیا۔ اکیس قیدیوں کو سونے نہیں دیا گیا اور 238 کو ریپ اور جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔


تشدد کے ان انفرادی واقعات کے علاوہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مبینہ طور پر شہریوں کو اجتماعی طور پر سزا دینے کے بھی طریقے بنا لیے گئے جن میں پوری پوری آبادیوں کا محاصرہ کر کے وہاں تلاشی کے بہانے گھروں میں گھس کر لوگوں پر تشدد کیا جاتا ہے اور خواتین کو ریپ کیا جاتا ہے۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ اس طرح کے زیادہ تر واقعات منظر عام پر ہی نہیں آتے۔ خطے میں فوج اور سکیورٹی فورسز کو خصوصی قوانین کے تحت قانونی تحفظ حاصل ہونے کی وجہ سے انسانی حقوق کی پامالی کے ایک بھی واقعہ میں ملوث کسی فوجی اور سرکاری اہلکار کو سزا نہیں دی جا سکی ہے۔ فوج اور سکیورٹی فورسز کے علاوہ اخوان اور ولج ڈیفنس کمیٹیز کو بھی وقتاً فوقتاً انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں شامل کیا جاتا رہا ہے۔


خلیج گوانتامو اور عراق کے ابو غریب قید خانے میں انسانی حقوق کی پامالی کے واقعات کے منظر عام پر آنے کے بعد بین الاقوامی سطح پر ایسے واقعات کی پرزور مذمت کے باوجود بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی صورت حال پر کوئی بات نہیں کی گئی اور یہ بین الاقوامی نظروں سے اوجھل رہی ہے۔انسانی حقوق کی تنظیموں اور لاپتہ افراد کے لواحقین کی تنظیموں نے یہ بھی الزام عائد کیا ہے کہ تشدد اور بربریت کا یہ سلسلہ وسیع پیمانے پر اب بھی جاری ہے۔


ظلم و تشدد پررپورٹ میں ایک واقعہ بھی درج کیا گیا ہے جس میں اس سال مارچ کی انیس تاریخ کو مبینہ طور پر ایک مقامی سکول کے انتیس سالہ پرنسپل رضوان پنڈت کو غیر قانونی طور پر حراست میں لیے جانے کے بعد کشمیر پولیس کے سپیشل آپریشن گروپ کے کارگو کیمپ میں تشدد کر کے ہلاک کر دیا گیا تھا۔تین دن کے بعد پولیس نے رضوان کے خلاف ایک مقدمہ درج کیا جس میں الزام لگایا کہ رضوان پولیس کی حراست سے فرار ہونے کی کوشش کرتے ہوئے مارا گیا ہے۔


ہزاروں کشمیری بچے اپنے ماں باپ کا سایہ کھونے کے بعد یوں بے یارو مددگار پھر رہے ہیں کہ انہیں دیکھ کر پتھر دل اور بڑے سے بڑے سنگدل کا سینہ بھی ایک لمحے کو دہل جاتا ہے۔ مگر بھارتی حکمران ہیں کہ اپنی سفاکی کے نتائج دیکھ کر بھی ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ جانے یہ ٹولہ کس مٹی کا بنا ہوا ہے۔ وگرنہ کوئی بھی معاشرہ کتنا بھی زوال پذیر کیوں نہ ہو جائے،وہاں کے سوچنے سمجھنے اور اہل شعور افراد کو یہ احساس ضرور ہوتا کہ ان کے حکمرانوں کے ہاتھوں جو لوگ رزق خاک ہو رہے ہیں وہ بھی انہی کی طرح گوشت پوست کے بنے ہوئے ہیں۔

ان کے سینوں میں بھی دل دھڑکتا ہے اور ہر دھڑکن میں جانے کیسی کیسی خواہشات پوشیدہ ہیں۔ یہ ناحق ماردیے جانے والے بھی کسی کے بیٹے تھے، کسی کے بھائی تھے اور کسی کی آنکھ کا نور اور دل کا قرار تھے۔ آخر ان بے کسوں کو کس گناہ کی سزا دی جا رہی ہے۔
کیا آزادی کا مطالبہ اتنا بڑا جرم ہے کہ اس کا ارتکاب کرنے والوں کو یوں زندہ درگور کر دیا جائے۔ کشمیری قوم صرف اسی گناہ کی تو مرتکب ہوئی ہے کہ عالمی رائے عامہ اور بھارتی حکمرانوں سے یہ کہہ رہی ہے کہ ایک کروڑ سے بھی کہیں زیادہ کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کی اجازت دی جائے، جس کا وعدہ بھارت نے ساری دنیا کے سامنے کیا تھا۔

ایسے میں ہندوستان کی یہ ریاستی دہشت گردی با لآخر کیا گل کھلائے گی؟

مزید :

رائے -کالم -