چینی انکوائری کمیشن کی رپورٹ
حکومت نے چینی انکوائری کمیشن کی رپورٹ جاری کر دی ہے،جس میں بتایا گیا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والی بعض بڑی شخصیات،جن کی شوگر ملیں ہیں یا ملّوں میں اُن کی حصے داری ہے اِس کاروبار میں اربوں روپے منافع کما رہی ہیں۔ کہا گیا ہے کہ یہ شوگر ملیں ٹیکس بہت کم دیتی ہیں، ایکسپورٹ کے بعد سبسڈی بھی لے لیتی ہیں اور اندرونِ مُلک مارکیٹ میں چینی کی قیمت بڑھا کر دوہرا منافع کماتی ہیں۔گنا سستا خرید کر مہنگا ظاہر کرتی ہیں، کسانوں کی جانب سے فروخت کے لئے پیش کئے جانے والے گنے پر بلا جواز کٹوتیاں کی جاتی ہیں، سٹہ کھیلا جاتا ہے، سرکاری اداروں اور مل مالکان کے لئے الگ الگ کھاتے بنائے جاتے ہیں، چینی بے نامی فروخت کی جاتی ہے۔ افغانستان کو برآمد کی جانے والی چینی کا معاملہ بھی مشکوک ہے، ایک ٹرک پر جتنی چینی زیادہ سے زیادہ لوڈ ہو سکتی ہے اس سے کہیں زیادہ وزن ظاہر کیا جاتا ہے جتنا وزن بظاہر ٹرک پر لادنا ممکن ہی نہیں۔گزشتہ پانچ برسوں میں 88 شوگر ملوں نے 29ارب روپے کی سبسڈی حاصل کی۔ پنجاب حکومت نے گزشتہ برس تین ارب روپے کی جو سبسڈی دی کابینہ نے اس کی منظوری وزیراعلیٰ کی زبانی ہدایت کے بعد دی۔ شوگر ملیں ڈبل بلنگ، اوور انوائسنگ، ڈبل رپورٹنگ اور کارپوریٹ فراڈ میں ملوث ہیں۔ رپورٹ میں چینی مہنگی ہونے کی وجہ ریگولیٹر کی غفلت کو بھی قرار دیا گیا ہے۔ سندھ میں اومنی گروپ کو سبسڈی دے کر بے حد فائدہ پہنچایا گیا۔ وفاقی حکومت نے چینی بحران کے ذمے داروں کے خلاف مقدمات نیب اور ایف آئی اے کو بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ فیصلہ بھی کیا گیا ہے کہ شوگر ملوں سے وصولی کر کے عوام کو رقم واپس کی جائے گی، دوسری شوگر ملوں کا فرانزک آڈٹ کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔
200 صفحات کی جو رپورٹ کابینہ کو پیش کی گئی ہے اس کے کچھ حصے بدھ ہی کو میڈیا پر آنا شروع ہو گئے تھے اور جمعرات کے اخبارات میں بھی اس کے چیدہ چیدہ اقتباسات شائع ہوئے۔یہ رپورٹیں میڈیا اور اخبارات نے اپنے اپنے ذرائع کے حوالے سے شائع کیں تاہم ان کے مندرجات کے بغور مطالعے سے اِس نتیجے پر پہنچا جا سکتا تھا کہ رپورٹ کے یہ حصے ایک ہی ذریعے سے لیک ہوئے تھے۔جمعرات کو کابینہ نے طویل غور کے بعد رپورٹ پبلک کرنے کا فیصلہ کیا، اِس رپورٹ میں چینی کے کارخانوں کے جن مالکان کا نام لے کر تذکرہ کیا گیا ہے ان میں سے کچھ نے اپنی اپنی وضاحتیں بھی جاری کی ہیں۔جہانگیر ترین نے رپورٹ کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ گنے کے کاشکاروں کو پوری قیمت ادا کرتے ہیں،ٹیکس ایمانداری سے دیتے ہیں اور ہمیشہ دیانتداری سے کاروبار کرتے ہیں، وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر کے ایک بیان کا حوالہ رپورٹ میں دیا گیا ہے،جس میں انہوں نے کہا ہے کہ2018ء میں چینی کا وافر سٹاک موجود تھا اِس لئے برآمد کی اجازت دی گئی۔یہ بھی کہا گیا ہے کہ اُس وقت مُلک کو زرمبادلہ کی ضرورت تھی تاہم انہوں نے پنجاب حکومت کی سبسڈی کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔وزیراعظم کے مشیر رزاق داؤد نے کہا کہ زرمبادلہ کی ضرورت کے پیش ِ نظر چین کو شوگر برآمد کرنا مطلوب تھا۔تاہم کمیشن نے ان کی اس وضاحت کو قبول نہیں کیا، سبسڈی کے سلسلے میں وزیراعلیٰ پنجاب کی وضاحت بھی قبول نہیں کی گئی، احتساب کے بارے میں وزیراعظم کے مشیر شہزاد اکبر نے البتہ پریس کانفرنس میں یہ وضاحت کرنا ضروری سمجھا کہ وفاقی وزیر خسرو بختیار کی کوئی مل نہیں،اِس لئے اُنہیں عہدہ چھوڑنے کے لئے نہیں کہہ سکتے۔ خسرو بختیار اِس لحاظ سے خوش قسمت ٹھہرے ہیں کہ اُن کے حقیقی بھائی کی ملوں نے سبسڈی کی بہتی گنگا میں دوسروں کی طرح اشنان کیا،لیکن اُن پر کوئی چھینٹ تک نہیں پڑی۔خسرو بختیار کے ایک بھائی پنجاب کے وزیر خزانہ ہیں جس نے تین ارب کی سبسڈی دی،لیکن اُن پر بھی کوئی حرف گیری نہیں ہو رہی۔جہانگیر ترین اِس معاملے میں قسمت کے دھنی ثابت نہیں ہوئے وہ تنہائی میں سوچتے تو ہوں گے کہ انہوں نے خواہ مخواہ اپنے جہاز میں کوئلے ڈھو ڈھو کر اپنا مُنہ کالا کیا۔
چینی کے کاروبار میں بے قاعدگیاں کرنے والوں کے خلاف مقدمات کب درج ہوتے ہیں اور اُن کے نتیجے میں کیا کارروائی ہوتی ہے، سزا کا کیا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے یہ تو وقت آنے پر ہی معلوم ہو گا۔البتہ وفاقی کابینہ نے ”شوگر ملوں سے وصولی کر کے عوام کو واپس کرنے“ کی جو منظوری دی ہے اس نے یہ سوال بھی اُٹھا دیا ہے کہ عوام کو واپسی کس شکل میں اور کب ہو گی؟ عوام بے چارے تو اس وقت سے جب سے چینی کا بحران پیدا ہوا ہے آج تک مہنگی چینی خریدنے پر مجبور ہیں، شوگر ملوں کو10لاکھ ٹن چینی برآمد کرنے کی اجازت دی گئی تھی، پھر اس میں ایک لاکھ ٹن کا اضافہ کر دیا گیا،جس کے نتیجے کے طور پر اندرونِ مُلک مارکیٹ میں چینی مہنگی ہوئی تو عوام کو یک دم 16روپے فی کلو زائد ادا کرنے پڑے،اس کے بعد قیمت میں اضافے کا رجحان جاری رہا، پورے رمضان میں چینی85سے88روپے میں فروخت ہوتی رہی، جو چینی پیکٹوں میں فروخت ہوتی ہے اس کی قیمت اس سے بھی زیاددہ ہے۔اب سوال یہ ہے کہ جب تحقیقاتی کمیشن خود تسلیم کر رہا ہے کہ چینی کی لاگت بھی زیادہ ظاہر کی جاتی ہے،لیکن جو قیمت مالکان ظاہر کرتے ہیں وہ بھی 61روپے کلو کے لگ بھگ ہی بنتی ہے تو پھر چینی اتنی مہنگی کیوں ہے؟ حیرت ہے کہ تحقیقات تو ہوتی رہیں،لیکن جن عوام کے نام کی مالا جپی جا رہی ہے انہیں ریلیف دینے کا کوئی اہتمام اب تک نہیں کیا گیا،حالانکہ ضرورت تھی کہ جب چینی بحران کی انکوائری شروع ہوئی تھی قیمت اُسی وقت کم کر دی جاتی،لیکن سب کچھ سامنے آنے کے بعد اگر چینی پھر بھی مہنگی فروخت ہو رہی ہے تو پھر یہ کہے بغیر نہیں رہا جا سکتا کہ عوام کو فائدہ پہنچانا حقیقتاً مطلوب نہیں ہے اگر ایسا ہوتا تو اور کچھ نہیں تو چینی پر جنرل سیلز ٹیکس ہی ختم کر دیا جاتا جو اب تک وصول کیا جا رہا ہے، حالانکہ اس ایک اقدام سے قیمت فوری طور پر کم ہو سکتی ہے۔عوام کو چینی کے پیسے واپس کرنے کی بات محض شوشہ ہی معلوم ہوتی ہے،اس زلف کے سر ہونے تک نہ جانے کتنے برس لگ جائیں۔ تحقیقاتی رپورٹ میں ریگولیٹنگ اتھارٹی کی غفلت کی جانب بھی توجہ دلائی گئی ہے، جو حکومت کا اپنا ادارہ ہے تو کیا اس ادارے میں خدمات انجام دینے والوں کے خلاف بھی کوئی کارروائی ہو گی؟ رپورٹ پبلک کرنے کا کریڈٹ اپنی جگہ، لیکن محض مرض کی تشخیص کر دینے اور موثر علاج کے بغیر بھی کوئی مریض کبھی تندرست ہوا ہے؟اس رپورٹ پر شوگر ملز ایسوسی ایشن کے ردعمل کا بھی انتظار ہے،اس کے ذمہ داران رپورٹ کے مندرجات تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ہو سکتا ہے معاملات عدالتوں تک پہنچیں،اور وہاں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرنے کی کوشش ہو،اِس وقت تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ حکومت کو شوگر ملز مالکان کے ساتھ بیٹھ کر الزامات کا نتارا کرنا چاہئے، توجہ اگر مستقبل پر مرکوز رکھی جائے گی تو بہتر نتائج برآمد ہو سکیں گے،بصورتِ دیگر الزامات کی دوطرفہ جگالی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکے گی۔