چینی سکینڈل رپورٹ، طلسم ہوشربا
چینی سکینڈل کی رپورٹ منظر عام پر آ گئی، اب ہر ملوث کردار حسب ِ روایت یہ دہائی دے رہا ہے کہ اُس کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے، خود جہانگیر ترین جن کا اس سارے سکینڈل میں کلیدی کردار ہے اس رپورٹ کو چوں چوں کا مربہ قرار دے رہے ہیں جس میں انہیں خوامخواہ بدنام کیا گیا ہے، پیپلزپارٹی کا پہلا ردعمل یہ ہے کہ رپورٹ حکومت کی بداعمالیوں سے توجہ ہٹانے کے لئے تیار کی گئی اور انتہائی گمراہ کن ہے، مونس الٰہی نے پھر اپنا پرانا موقف دہرایا ہے کہ وہ سرے سے کسی شوگر ملز کے مالک ہی نہیں، شہباز شریف کی فیملی نے بھی چینی سکینڈل کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے ہیں، تاہم حسب ِ معمول وہ بھی اسے انتقامی کارروائی قرار دیں گے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں کہ ایک مضبوط اور مربوط رپورٹ کو اسی طرح جھٹلایا جا رہا ہے،ماضی میں ایسا ہوتا آیا ہے،
لیکن حقائق زندہ رہتے ہیں اُنہیں ختم نہیں کیا جا سکتا۔ واجد ضیاء نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ حقائق تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، صرف ایک پہلو پر نہیں،بلکہ ہر پہلو پر اُن کی نظر ہوتی ہے۔پاناما سکینڈل کی انکوائری سے شہرت حاصل کرنے والے واجد ضیاء نے اب چینی سکینڈل کی جڑوں تک پہنچ کے وہ رپورٹ تیار کی ہے،جس پر اگر دیانتداری سے کارروائی کی گئی تو آئندہ عوام کی جیبوں پر ڈاکہ بھی نہیں ڈالا جائے گا اور کسانوں کا استحصال بھی ممکن نہیں رہے گا۔سونے پہ سہاگہ کابینہ کا یہ فیصلہ کہ اس رپورٹ کو عام کر دیا جائے۔اب یہ رپورٹ ہر ایک کو دستیاب ہے اور وہ اسے پڑھ کر بآسانی اندازہ لگا سکتا ہے کہ اِس ملک کو کس کس طرح سے لوٹا گیا اور حکومتی صفوں میں رہ کر قانون شکنی کی دلیرانہ وارداتیں کس طرح کی جاتی رہی ہیں۔
اس رپورٹ کی جزئیات میں جائیں تو جہاں ِ حیرت کھل جاتا ہے۔ صحیح معنو ں میں اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ وطن ِ عزیز میں مافیاز کس قدر طاقتور ہو چکے ہیں۔ایک طرف وہ کرپشن کرتے ہیں، تو دوسری طرف ایسے حکومتی فیصلے کرا لیتے ہیں کہ قانونی طریقے سے بھی لوٹ کا دروازہ کھول سکیں۔ اس رپورٹ نے سب سے سنگین پہلو یہ بیان کیا ہے کہ سیاست اور کاروبار کو ساتھ ساتھ چلایا جا رہا ہے۔دُنیا میں شاید ہی کہیں ایسا ہوتا ہو کہ جو حکومت میں فیصلہ کرنے کے ذمہ دار ہوں وہ ایسے کاروبار میں بھی شریک ہوں،جسے صرف ایک حکومتی فیصلے سے اربوں روپے کا فائدہ پہنچ سکتا ہو۔ صرف یہی نہیں کہ شوگر ملز مافیا پچھلے کئی برسوں سے اربوں روپے کی سبسڈی لیتا رہا ہے،بلکہ اُس نے قانون کو بے بس کر کے کسانوں کا بھی بُری طرح استحصال کیا، لوٹ مار کی کارٹل بنا کر گنے کی کم قیمت رکھی اور اُس میں بھی کٹوتی کی جاتی رہی۔
کوئی حکومتی ادارہ اِس لئے کسانوں کی مدد کو نہ آیا کہ سب حکومتوں میں بیٹھے ہوئے لوگ تو شوگر ملوں کے مالک ہیں اِس رپورٹ سے یہ حقیقت بھی آشکار ہوئی کہ ہر دور میں شوگر ملوں کے مالک اہم حکومتی عہدوں پر فائز رہے ہیں، آج بھی کابینہ میں ایسے لوگ موجود ہیں،جنہوں نے شوگر ملوں کے کاروبار میں پنجے گاڑھ رکھے ہیں۔ مسلم لیگ(ن) کی حکومت تھی، تب بھی یہ اسمبلی اور کابینہ میں موجود تھے، پیپلزپارٹی کی حکومت آئی تو آصف علی زرداری کی خود متعدد ملز تھیں اور اومنی گروپ اُن کی سرپرستی میں چل رہا تھا۔رپورٹ میں یہ ہوربا انکشاف بھی موجود ہے کہ سندھ حکومت نے ساری سبسڈی صرف ایک گروپ کو دی اور بلاخوف و خطر قانون کی دھجیاں اُڑائیں۔
یہ رپورٹ طلسم ہوشربا ہے جسے واجد ضیاء اور اُن کی ٹیم نے کھول دیا ہے۔یہ اس تلخ حیقت کو بے نقاب کرتی ہے کہ پاکستان قانون شکنوں کی جنت ہے،کیونکہ وہ بآسانی حکومت میں شامل ہو کر قانون کو بے اثر کر دیتے ہیں۔اس رپورٹ کو پڑھ کر یہ راز بھی طشت ازبام ہو جاتا ہے کہ پاکستانی سیاست دھن دولت کا کھیل بن کر کیوں رہ گئی ہے۔سیاست میں آ کر ناجائز کمائی کے ذریعے ارب پتی بننے والے کسی دوسرے کو آگے آنے کا موقع ہی نہیں دیتے۔وہ دولت کے بل بوتے پر ووٹ خرید لیتے ہیں اور دوبارہ اسمبلی میں آ کر پہلے سے زیادہ لوٹ مار کرتے ہیں،بالفرض وزیراعظم عمران کی بھی کوئی شوگر مل ہوتی تو شاید وہ چینی سکینڈل کی انکوائری کا حکم بھی نہ دیتے۔ جیسے پہلے کبھی نہیں دیا گیا۔اس بار یہ معجزہ ہوا ہی اِسی لئے ہے کہ ایک ایسا وزیراعظم اقتدار میں ہے جس کا کوئی ذاتی کاروبار نہیں، دوسری جرأت انہوں نے یہ دکھائی کہ اپنے قریبی لوگوں کی شوگر ملیں ہونے کے باوجود انہوں نے انکوائری کا حکم دیا اور انکوائری بھی ایک ایسے افسر کو سونپی جس کی شہرت اور دیانتداری مسلمہ ہے۔
اب وزیراعظم عمران خان کا ایک بڑا امتحان یہ ہے کہ اس رپورٹ کی روشنی میں کارروائی کو آگے کیسے بڑھاتے ہیں،انہوں نے واضح اعلان کیا ہے کہ چاہے کوئی اُن کے کتنا ہی قریب کیوں نہ ہو وہ کرپشن کو برداشت نہیں کریں گے،انہوں نے مافیا کے خلاف جنگ جاری رکھنے کا اعلان بھی کیا ہے اب یہ بہت بڑی بات ہے۔ ایک ایسے وزیراعظم کے لئے جس کے پاس دو تہائی اکثریت بھی نہیں، جو اتحادی ووٹوں کے سہارے حکومت چلا رہا ہے، جسے معلوم ہے کہ حکومت میں موجود لوگوں کے خلاف کارروائی کی گئی تو وہ ساتھ چھوڑ جائیں گے، جس سے حکومت بھی ڈانوا ڈول ہو سکتی ہے،مگر اس کے باوجود وہ پُرعزم ہیں کہ مافیا کے ساتھ اُن کی یہ جنگ جاری رہے گی۔
لیکن دوسری طرف اپوزیشن بھی اپنے دانت تیز کئے ہوئے ہے۔وہ اِس بات کو نہیں سراہ رہی کہ پہلی بار چینی سکینڈل کی تفصیلی انکوائری ہوئی اور پھر اس انکوائری رپورٹ کو عام بھی کر دیا گیا، وگرنہ ماضی میں تو رپورٹوں کو چھپانے کی روایت ہی نظر آتی ہے۔ اپوزیشن یہ الزام لگا رہی ہے کہ اس رپورٹ میں حکومت کی دو اہم شخصیات عمران خان اور عثمان بزدار کو بچانے کی کوشش کی گئی ہے۔ ای سی سی نے چینی برآمد کرنے کی اجازت وزیراعظم کے حکم سے دی اور پنجاب حکومت نے اربوں روپے کی سبسڈی دینے کا فیصلہ وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی سربراہی میں دیا،اِس لئے یہ دونوں بھی اس سکینڈل میں ملوث ہیں۔مسلم لیگ(ن) کی طرف سے تو وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے استعفوں کا مطالبہ بھی کر دیا گیا ہے۔ مسلم لیگی رہنما جن میں شاہد خاقان عباسی پیش پیش ہیں، وزیراعظم عمران خان کو چینی چور کہہ کر مخاطب کر رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا کوئی چور اپنے پیٹ سے پردہ اٹھاتا ہے۔اسد عمر یہ کہہ چکے ہیں کہ جب ای سی سی نے چینی برآمد کرنے کی منظوری دی تو کمیشن پر وزیراعظم کی طرف سے کوئی دباؤ نہیں تھا۔البتہ وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے بارے میں انکوائری یہ کہتی ہے کہ وہ طلب پر اپنے جواب سے مطمئن نہیں کر سکے اور انہوں نے ساری ذمہ داری متعلقہ محکموں کے سیکرٹری پر ڈال دی۔
وفاقی کابینہ کا یہ فیصلہ قابل ِ ستائش ہے کہ اُس نے نہ صرف اس رپورٹ کو عام کرنے کی منظوری دی،بلکہ اس رپورٹ کی روشنی میں فوجداری مقدمات درج کرانے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔یہ مقدمات اینٹی کرپشن اور ایف آئی اے میں درج کرائیں جائیں گے اور ان کے نتیجے میں جو ریکوری ہو گی وہ کسانوں میں تقسیم کی جائے گی،جن کا گنے کی خریداری کے دوران کھلا استحصال کیا گیا۔یہ رپورٹ سیاست میں چھپے مافیاز کو بے نقاب کرنے کی سمت پہلا قدم ہے، امید ہے مزید مافیاز کو بھی سامنے لایا جائے گا تاکہ عوام اُن کے چہرے پہچان سکیں۔