ڈنڈے کے یار
مجھے ایتھنز جانا تھا، دوحہ سے ایتھنز کے لئے فلائٹ کا انتظار کر رہے تھے۔ میں نے ایک امریکی خاتون کو اپنے 2 سالہ بچے کے ساتھ دیکھا، بچے نے کاغذ کا ایک ٹکڑا نیچے پھینک دیا۔ ماں بار بار بچے سے کہہ رہی تھی کہ کاغذ کا ٹکڑا اُٹھا کر کوڑا دان میں ڈالو۔ یہ سلسلہ تقریباً ایک گھنٹے تک چلا جب بچے نے وہ کاغذ کا ٹکڑا کوڑادان میں پھینک دیا۔ تب اس امریکی خاتون نے بچے کو پیار سے گلے لگا لیا۔ آخر ہم یہ سب کیوں نہیں کر سکتے، بیرون ملک ہم قانون شکنی کا سوچنے سے ڈرتے ہیں وہاں تو اسی ماحول میں ڈھل کر اس معاشرے کو گل و گلزار بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتے، اپنے دیس لوٹ کر ہم پرانے طور طریقوں کا لباس کیوں پہن لیتے ہیں، وہی پرانی عادات، اپنی صحت کا قطعاً خیال نہ کرنا، کھانا کھانے سے پہلے اور بعد میں ہاتھ نہ دھونا، رات گئے کھانے کھانا، کول ڈرنکس اور بیکری پراڈکٹس کا بھرپور استعمال، موبائل، ٹی وی دیکھتے رات 12 بجے کے بعد سونا، صبح دیر سے اٹھنا، ناشتہ نہ کرنا ہمارے محبوب ترین مشاغل ہیں۔ ہم ہاورڈ، آکسفورڈ، رائل کالج لندن سے پڑھ کر آتے ہیں اور بڑے فخر سے سرخ بتی کا اشارہ توڑنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔ موٹروے پر 120کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار کے بورڈ کا ہم پر چنداں اثر نہیں ہوتا۔ ہم 160 کی رفتار سے گاڑی کو اڑانا اور پھر کیمرے کو دور سے دیکھ کر فوراً اڑتی گاڑی کی رفتار کم کرنا خوب جانتے ہیں۔
یہ کہنا تھا ہمارے ایک ریٹائرڈ پروفیسر صاحب کا کہ آپ کی قوم خود ہی سدھرنا نہیں چاہتی۔ سارے کا سارا ملبہ حکومت وقت پر گرانا آخر کہاں کا انصاف ہے؟آپ کی قوم کو اتنی جلدی ہے کہ نہ پوچھئے صبر نام کی چیز سے کوئی بھی واقف نہیں۔ آپ کو دور جانے کی ضرورت نہیں، آپ ڈاکٹر ہیں۔ خود ہی بتایئے آپ کا مریض کتنی جلدی میں ہوتا ہے وہ چاہتا ہے کہ ڈاکٹر ہیلی کاپٹر سے آ کر معائنہ کرے اور اگر ہو سکے تو ایک عدد تعویذ بھی عنایت فرما دے تاکہ جادو کی طرح ہر بیماری کا علاج ہو جائے۔ مریض کو اگر دوا کے بارے میں سمجھانے کی ناکام کوشش کی جائے، اس کا ٹائم لیا جائے وہ پرچی آپ کے منہ پر مار کر چلتا بنے گا۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کسی بھی قوم کا نظم و ضبط دیکھنا ہو اس ملک کی ٹریفک کو دیکھ لیجئے اور ماشا ء اللہ ہماری ٹریفک کے کیا کہنے، ہر شخص کو ہی جلدی، مجال ہے کوئی کسی کو راستہ دے دے، احساس کر لے، اس میں کوئی شک نہیں، پوری دنیا میں ہماری شغل اعظم قوم کی طرح شاید ہی کوئی جلد باز، بے صبری قوم ہو۔
پروفیسر صاحب کہنے لگے آپ اکثر بات کرتے ہیں سب سے پہلے صحت، تعلیم اور صاف پانی کی فراہمی کہ 70 فیصد بیماریوں کی جڑ یہی تو ہے اس طرح آپ کے ہسپتالوں میں ایک ایک بیڈ پر لیٹے دو، دو مریض اور ادویات کا بے جا خرچ کم ہو جائے گا مطلب ڈاکٹر زیادہ اور مریض کم، یعنی ہیلتھ ایجوکیٹ کرنے سے آپ بیماری سے پہلے ہی اس کا سدباب کر دیں گے۔ آپ ماحولیاتی آلودگی کا رونا روتے ہیں کہ لاہور جیسے شہر کو آلودہ کرنے میں قصور کس کا ہے۔ ٹریفک کے اژدھام میں پھٹ پھٹ کرتی دھوئیں سے بھرپور گاڑیاں اور فیکٹریوں کا آلودہ دھواں آخر فرشتے تو نہیں نکالتے جناب…… آپ کے شہر کے معزز شہری ہی یہ کارنامہ سرانجام دیتے ہیں اور منٹ سے پہلے تمام خرابی کی جڑ حکومت کو قرار دے دیتے ہیں۔
پروفیسر صاحب سے خاکسار نے عرض کی بجا فرمایا، آپ کے خیالات سے اختلاف ممکن نہیں۔ اس ناچیز کو اس سے بھی انکار نہیں کہ جمہوریت ہی میں ملکی ترقی کا راز مضمر ہے اور ہر 5 سال بعد باقاعدہ انتخاب ہوتے رہیں تو ہم عوام کے حقیقی نمائندوں کا چناؤ کرلیں گے جن کے دل و دماغ میں عوام کا ہی درد ہو گا، ایمان داری کی عمدہ مثال ان عوامی نمائندوں کی اپنے پیٹ سے کوئی غرض نہیں ہو گی ان کا اوڑھنا بچھونا عوام ہوں گے، وہ ملکی اداروں و نظام کو ٹریک پر لائیں گے، وہ اخلاقی گراوٹ کی شکار اس قوم کی تربیت کرنے کے ساتھ ان کی صحت و تعلیم، روٹی، کپڑا اور مکان کے والی وارث بنیں گے۔ بالکل ٹھیک، میرا چھوٹا ساسوال ہے کہ آخر کتنی دہائیوں کے الیکشن کے بعد نئی صبح کا یہ سورج طلوع ہو گا؟ ابھی تک تو ہر طرف سیسیلین مافیا، بلیک میلرز، بنارسی ٹھگوں کا راج، جدھر دیکھو پڑھے لکھے جاہل دندناتے پھر رہے یہاں تو چند خاندانوں کی کرپشن کا نام جمہوریت ہے اور کرپشن کو ہی یہ لوگ ”جمہوریت بہترین انتقام“ کے نام سے پکارتے ہیں اور پھر اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ ایسے سوداگروں کا جو ملک کی ہڈیوں کا گودا تک نوچ کر کھا گئے ان کا دفاع بڑی ڈھٹائی سے کرتے ہیں۔ ان کے بارے لکھتے شرم آتی ہے نیت کے کھوٹے یہ لوگ بیرون ملک تو ناک کی عین سیدھ میں سیدھے ہو جاتے ہیں، مگر یہاں آ کر نجانے کیوں ”گھجنی“ بن کر ہر چیز بھول جاتے ہیں۔ غلط کو غلط، کرپٹ کو کرپٹ کہتے ان کے پر کیوں جلتے ہیں۔ آخر Honesty is the best policy. کو اپناتے ان کی جان کیوں نکلتی ہے۔ انتخابات میں ایک ٹکٹ کروڑوں میں فروخت کرنا اور پھر الیکشن جیت کر اربوں وصول کرنے کا دھندہ اور الیکٹ ایبلز کی سیاست، لوٹا کریسی کا جن بوتل میں کبھی بند بھی ہو گا کہ نہیں، کیا جھوٹ، فریب، دھوکہ دہی کے آسیب سے ہماری جان بھی چھوٹ پائے گی؟ آخر کیا وجہ ہے؟ ہم سے بعد میں آزاد ہونے والے ممالک ترقی کے زینے عبور کرتے کہاں سے کہاں پہنچ گئے اور ہم پستی، ذلت و رسوائی کے گڑھے سے نہیں نکل پا رہے،حالانکہ اپنے ہاں بھی ایک سے ایک بڑھ کر ذہین اور قابل دماغ موجود پھر بھی ناکامی و نامرادی ہمارا مقدر بن چکی۔
میری ناقص رائے میں ہم تو ہیں ہی ”ڈنڈے کے یار“ پیار اور شرافت کی زبان ہم سمجھنے سے قاصر۔ اگر ہم آج ہی بے رحم و بلا تفریق احتساب، آئین و قانون کی بالادستی اور برابری انصاف کا صدیوں پرانا سنہری اصول اپنا لیں، کامیابی و کامرانی ہمارے قدم چومے گی۔ خدا کرے وہ دن جلد ہمیں دیکھنے کو ملے، آمین۔