بے خودی
اپنی ہی ہے بے خودی سے اب تو ڈرنے لگی ہوں
اپنی ہی بے خودی سے اب تو ڈرنے لگی ہوں
اپنے ہی کمرے کی کھڑکی کو بار بار بند کرنے لگی ہوں
اس کو دیکھ کر بار بار اسی کو دیکھوں
اپنی آنکھوں کی بے خودی سے اب تو ڈرنے لگی ہوں
جانے وہ کس لمحے کیا کہہ دیئے یہ سوچ کر، گھبرا کر
اپنے دل پہ ہاتھ رکھے آنچل سمیٹنے لگی ہوں
پھولوں کے کتنے ہی رنگ ہوئے ہیں اس سال!
پہلے تو نہ تھے یہ اب تو سوچنے لگی ہوں
آئینہ دیکھتے دیکھتے اپنے ہاتھوں میں
ان چوزوں کی شرارت سے میں تو اب ڈرنے لگی ہوں
کسی خوش رنگ جھیل کے کنارے پانی میں
اس کا عکس تلاش کرنے لگی ہوں
پانی میں اپنی انگلیوں کی بے خودی سے اب تو ڈرنے لگی ہوں
آمنہ امن