38سال بعد بھی وحید مراد زندہ ہے!

38سال بعد بھی وحید مراد زندہ ہے!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاکستان فلم انڈسٹری میں اداکار وحید مراد مرحوم2اکتوبر1938ء میں کراچی میں پیدا ہوئے اور 23نومبر1983ء کو لاکھوں پرستاروں کو روتا چھوڑ کر دنیا سے چلے گئے۔
”تھی وہ اک شخص کے تصورسے“
اب وہ رعنائی خیال کہاں“
وحید مراد اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم کراچی میں پائی۔ وہیں پلے بڑھے اور ایم اے انگریزی تک تعلیم  حاصل کرکے اپنے والد نثارمراد کے ہمراہ ان کے فلم تقسیم کاری کے کاروبار سے وابستہ ہوگئے۔ خدا نے اس فنکار کو پیدائشی طور پر بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ گزرتے وقت کے ساتھ اس کی پوشیدہ صلاحیتیں دنیا پر آشکار ہوتی چلی گئیں۔ اس کے اندر ایک مکمل فلمی ہیرو تھا جو موقع ملتے ہی منظر عام پر آگیا۔ وحید مراد بزنس میں مصروف تھے اور تعلیم مکمل ہوچکی تھی کہ فلمساز وہدایت کار ایس ایم یوسف کی فلم”اولاد“ کا آغاز ہوا، اس فلم کے لئے پہلی مرتبہ وحید مراد کو بطور اداکار کاسٹ کیا گیا۔1961ء کا یہ وہ دور تھا جب اداکار سنتوش کمار، درپن، سدھیر، حبیب اور دیگر بہت سے ہیروز کی شہرت کا ستارہ بلندیوں پر تھا۔ وحید مراد کی فلم ”اولاد“ سے ان کے فلمی کیرئیر کا آغاز بطور اداکار ہوا۔ انہی دنوں وحید مراد نے بطور فلمساز اپنی فلم ”انسان بدلتا ہے“ کا آغاز اداکار درپن کو لے کر کیا مگر درپن اپنی شہرت اور دولت کے زعم میں فلمسازوں کیلئے عذاب بنے ہوئے تھے۔ درپن ایک موڈی اور لاابانی ہیرو تھے۔ چنانچہ وحید مراد کو بطور ہیرو فلم”انسان بدلتا ہے“ میں بھی ذمہ داری سنبھالنا پڑی۔ یوں دنیا کے سانے سانولے رنگ وروپ اور تیکھے نین نقوش کا نوجوان ہیرو بن کر ابھرا۔ پھر جب ان کے ادارے فلم آرٹس کی فلم، ہیرا اور پتھر اور جب ”ارمان“ اداکارہ زیبا کے ہمراہ منظر عام پر آئی تھی تو ارمان کی زبردست کامیابی نے نہ صرف وحید مراد بلکہ ہدایت کار پرویز ملک، کہانی کار مسرور انور اور موسیقار سہیل رعنا، گلوکار احمد رشدی مالا سمیت تمام لوگوں کو عروج پر پہنچا دیا۔ درپن جو فلموں میں رومانی ہیرو کی عصمت پر فائز تھے۔ اداکار وحید مراد نے بطور رومانٹگ ہیرو اپنے دور کے تمام ہم عصر فنکاروں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ وہ ہیرو شپ کے حوالے سے مستند اور لاثانی فنکار تسلیم کرلئے گئے۔ یوں پھر ان پر کامیابی، شہرت اوردولت کے دروازے کھل گئے۔ 
ہدایت کار پرویزملک، مصنف وشاعر مسرور انور، موسیقار سہیل رعنا اور وحید مراد کی دوستی نے کامیاب فلموں کا انبار لگادیا۔ ارمان، احسان دوراپار سمندر اشارہ، نصیب اپنا اپنا، زلزلہ، مستانہ ماہی، جال، ملاقات، سالگرہ، شمع، شبانہ، عندلیب، زبیدہ، دولت اور دنیا،مستانی محبوبہ‘ کنیز، دیور بھابی، انجمن، تمہی ہو محبوب میرے، گھیراؤ، ان داتا، عورت راج، ثریا بھوپانی، نذرانہ، راستے کا پتھر، جب جب پھول کھلے، افسانہ، خواب اور زندگی، دل میرا دھڑکن تیری، خریدار، راجہ کی آئے گی بارات، مانگ میری بھردو، انسانیت، خاموش نگاہیں، تم سلامت رہو، بدنام، بہن بھائی، تم سلامت رہو، شیشے کا گھر، انہونی، خلش، عید مبارک، بہارو پھول برساؤ، ناگ اورناگن میرا مقدر، ہیرو، آہٹ سمیت 125فلموں میں کام کیا جبکہ بطور پروڈیوسر11فلمیں خود بنائیں اور ایک فلم اشارہ کے ڈائریکٹر بھی رہے۔
وحید مراد کی شہرت اور محبت کے حوالے سے بے شمار واقعات موجود ہیں۔ وحید نے اپنے دور کی ہر ہیروئن کے ہمراہ بھرپور کام کیا۔ ان میں زیبا بیگم، دیبا بیگم، بابرہ شریف، آسیہ، رانی، حسنہ، روزینہ، شبنم، شمیم آرا، ممتاز، عالیہ، انجمن، کوتیا، سنگیتا، شائستہ قیصر، نیلو، نجمہ، دردانہ رحمان سمیت دیگر بہت سی لڑکیاں شامل تھیں۔ اپنے دور کے ہم عصر اداکاروں میں وحید مراد نے اداکار محمد علی، ندیم، شاہد، غلام محی الدین، حبیب، آغا طالش، علاؤ الدین، نیر سلطانہ، تمنا بیگم، سلطان راہی، سدھیر، سنتوش کمار، صبیحہ خانم، تمنا بیگم،  سلطان راہی، سدھیر، سنتوش کمار، صبیحہ خانم، مسعود اختر، لہری، نرالا، رنگیلا، منور ظریف، ریحان، بہار، نغمہ بیگم، اسلم پرویز، کمال کے علاوہ دیگر بہت سے فنکاروں کے ہمراہ کام کیا۔ ہدایت کاروں میں پرویز ملک، شباب کیرانوی، ظفر شباب، نذر شباب، اقبال اختر، جمشید نقوی، ایس سلیمان، اقبال یوسف، حسن طارق، خلیفہ سعید، ایم اے رشید اوردیگر شامل تھے۔ وحید مراد کی جوڑی اداکارہ زیبا، شبنم، رانی اوردیبا کے ہمراہ بہت سی فلموں میں ہٹ رہی۔ ان کا ہیراسٹائل منفرد تھا اور اس دور کے نوجوان کی اکثریت بال بنانے، لباس پہننے اور چال ڈھال میں وحید مراد کی نقل کرنا اپنا فرض سمجھتے تھے۔ کالج کی لڑکیوں کی کتابوں اور پرس میں وحید مراد کی تصاویر کثرت سے موجود ہوتی تھیں۔
وحید مراد کی شادی سلمی مراد سے 17ستمبر1966ء میں دھوم دھام سے ہوئی تھی۔ سلمی مراد سے عادل مراد(بیٹا) اور عالیہ مراد (بڑی بیٹی) پیدا ہوئے۔  وحید مراد نے اداکارہ زیبا کے ہمراہ9فلمیں رانی کے ہمراہ 18فلمیں اور شبنم کے ہمراہ16فلموں میں کام کیا۔ وہ ہدایتکار نذر اسلام کی ایک اردو فلم”شیشے کا گھر“ میں بطور ولن بھی آئے جسے ان کے پرستاروں نے ولن کے کردار میں وحید مراد کو مسترد کردیاتھا اور فلم بری طرح فلاپ ہوگئی تھی۔ وحید مراد نے اداکارہ عالیہ کے ہمراہ پنجابی فلم”مستانہ ماہی“ میں بطور ہیرو کام کیا۔ ان کی یہ فلم سپرہٹ ثابت ہوئی۔ اداکارہ وحید مراد کو کرکٹ سے بے پناہ دلچسپی تھی۔ ان کی اداکار ندیم اورمحمد علی سے بے پناہ محبت اور دوستی تھی ندیم نے تو وحید مراد کی شادی پر گلوکاری کا بھی مظاہر کیاتھا۔ وحید مراد عام زندگی میں بہت کم گو اور محدود طبیعت رکھنے والے انسان تھے۔ اس لئے ان پر مغرور ہونے کا بھی الزام لگتاتھا مگر حقیقت میں وہ انتہائی رحم دل اور فلاحی کاموں کے حوالے سے بہت کام کرتے تھے۔ وحید مراد کے ریڈیو پاکستان کراچی، لاہور سے 43انٹرویو نشر ہوئے۔ پاکستان ٹیلی ویژن پر5مرتبہ آئے جن میں طارق عزیز کا پروگرام نیلام گھر، گیت مالا اور سلور جوبلی پروگرام شامل تھے۔ وحید مراد فلمی کیرئیر کے 23برس فلم انڈسٹری کو دئیے اور بہت خوب دئیے۔ ان کے اسٹائل،ڈائیلاگ بولنے کے انداز کی تربیت آج بھی بھارت میں تربیتی اداروں میں آنے والے نوجوان ہیروز کو سکھائی جاتی ہے۔ باپ کے کردار میں محمد علی نے وحید مراد کے ہمراہ فلم ”حقیقت“ آخری فلم آواز تھی جبکہ ایک فلم ”زلزلہ“ میں بھی وحید مراد کے ہمراہ محمد علی نے کام کیا۔ وحید مراد ان دنوں فلم انڈسٹری میں اپنے خلاف ہونے والی مختلف سازشوں اورپھر ساتھ ہی گھریلو پریشانیوں میں بھی پھنسے ہوئے تھے۔ وہ ڈپریشن کے مریض بن کر چرچڑے اور بدمزاج ہوگئے تھے۔ وہ اپنی فلم”ہیرو“ کو بھی مکمل کرنے کے بجائے مزید ڈپریشن میں چلے گئے۔ وہ ہردم اپنے گزرے ہوئے شاندار وقت کو یاد کرتے رہتے جبکہ وہ تنہائی کا شکار ہوکر گلبرگ کی رہائش گاہ میں کمرے میں قید ہوکر رہ گئے تھے۔ اسی دوران سلمی مراد اپنے بیمار شوہر کو چھوڑ کر بیٹی عالیہ اور مراد  ہمراہ لے کر امریکہ سیروسیاحت کے لئے نکل گئی اس وجہ سے وحید مراد کا کرب مزید بڑھ گیا۔ وہ تنہائی میں اکثر زاروقطار روتے رہتے تھے۔ وحید مراد جب فوت ہوئے تو ان کی بیٹی اور بیوی کو شاید اطلاع بھی نہ ہوسکی تھی۔ آخر کار وہ اپنے لاکھوں مداحوں کو تنہا چھوڑ کر 23 نومبر 1983ء کو دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگئے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت میں جگہ فرمائے۔٭٭٭

چاکلیٹی ہیرو کوکبھی فراموش نہیں کیا جا سکے گا

مزید :

ایڈیشن 1 -