ڈاکٹر شیریں مزاری کی گرفتاری اور رہائی!
تحریک انصاف کی رہنما ڈاکٹر شیریں مزاری کو وزیراعلیٰ پنجاب اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر رہا کر دیا گیا،اس سے پہلے اُنہیں انٹی کرپشن پنجاب نے اسلام آباد پولیس کے ہمراہ اُس وقت ڈرامائی انداز میں گرفتار کیا تھا جب وہ اپنے گھر سے گاڑی پر کہیں جا رہی تھیں۔اُن کی بیٹی ایمان مزاری نے گرفتاری کے بعد الزام لگایا تھا کہ مرد پولیس اہلکاروں نے اُن کی والدہ کو گرفتار کیا، تشدد کا نشانہ بنایا اور گھسیٹتے ہوئے اپنے ساتھ لے گئے۔ تحریک انصاف کے رہنماؤں نے بھی اس الزام کی تائید کی تھی لیکن جب اس گرفتاری کی فوٹیج سامنے آئی تو سارے الزام غلط ثابت ہو گئے کیونکہ ڈاکٹر شیریں مزاری کو لیڈی پولیس اہلکاروں نے حراست میں لیا تھا اور کوئی بدتمیزی نہیں کی تھی،گرفتاری کے بعد ڈاکٹر شیریں مزاری کو اسلام آباد کے تھانہ کہسار لے جایا گیا اور وہاں سے اُنہیں نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا،اُن کی گرفتاری کی خبر جونہی تحریک انصاف کے رہنماؤں کو ملی انہوں نے کارکنوں کو تھانہ کہسار پہنچنے کو کہا۔اسی اثنا میں خبر آئی کہ انٹی کرپشن پولیس انہیں لے کر ڈیرہ غازی خان روانہ ہو گئی ہے کیونکہ جس مقدمے میں ڈاکٹر شیریں مزاری کو گرفتار کیا گیا وہ ضلع راجن پور میں درج ہے، اسی دوران تحریک انصاف نے اُن کی گرفتاری کے خلاف پورے ملک میں احتجاج کی کال دے دی،کہا یہ گیا کہ حکومت نے تحریک انصاف کے لانگ مارچ کو روکنے کے لیے گرفتاریوں کا آغاز کر دیا ہے،رفتہ رفتہ اس واقعہ کی تفصیلات سامنے آنے لگیں تو بات سامنے آئی کہ ڈاکٹر شیریں مزاری کو 800 کنال اراضی کی بوگس الاٹمنٹ کے مقدمے میں گرفتار کیا گیا ہے۔ یہ مقدمہ50 سال پرانا ہے اور1972ء کے انتقال ریکارڈ میں بیچنے اور خریدنے والوں کے دستخط موجود نہیں،اس پرانے انتقال کی بنیاد پر11مارچ2022ء کو ڈاکٹر شیریں مزاری کے خلاف ایک نئی ایف آئی آر درج کی گئی، جو اسسٹنٹ کمشنر راجن پور نے تھانہ انٹی کرپشن میں درج کرائی۔ اس سے پہلے اسسٹنٹ کمشنر کو محکمہ انٹی کرپشن کی طرف سے معاملے کی انکوائری کا حکم دیا گیا تھا، 18اپریل کو اسسٹنٹ کمشنر نے اپنی رپورٹ تیار کر کے محکمہ انٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کو بھجوائی جس کی بنیاد پر 800 کنال بوگس انتقال کے الزام میں ذمہ داران کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا گیا۔یہ بات تو ثابت ہے کہ یہ 50سال پرانا کیس ہے، جو مختلف ادوار سے گزرتا ہوا ابھی تک کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ سکا،اتنے پرانے کیس میں ایک سیاسی رہنما اور وہ بھی خاتون جن کی عمر 70سال کے قریب ہے کی اس انداز سے گرفتاری جیسے وہ کوئی دہشت گرد ہو، ایک نامناسب عمل تھا، جس پر ہر طرف تشویش کی لہر دوڑ گئی،اس گرفتاری کا فیصلہ کس نے کیا،کس نے منظوری دی۔ اتنی ہائی پروفائل شخصیت کی گرفتاری کے لیے یہ طریقہ کیوں اختیار کیا گیا،اس کی تفتیش ہونی چاہیے۔ مناسب تو یہی تھا کہ اگر کوئی ایسا کیس موجود بھی تھا اور اس کے حوالے سے کوئی نئی شکایت درج ہو بھی گئی تھی تو ڈاکٹر شیریں مزاری کو اُس کی وضاحت کے لیے نوٹس بھیجا جاتا،اُنہیں ازخود شامل تفتیش ہونے کے لیے حسب ِ قانون سمن بھیج کر بلایا جاتا۔ ڈاکٹر شیریں مزاری کی گرفتاری کے فوراً بعد اُن کی بیٹی ایمان مزاری نے یہی سوال اٹھایا تھا کہ گرفتار کرنے سے پہلے اہل خانہ کو الزام سے آگاہ کیا جاتا ہے،وارنٹ گرفتاری دکھائے جاتے ہیں لیکن جس طرح اُن کی والدہ کو سڑک سے گرفتار کیا گیا اُس سے تو یہی لگا ہے کہ انہیں اغواء کیا گیا ہے۔ایمان مزاری نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تو عدالت نے رات ساڑھے گیارہ بجے ڈاکٹر شیریں مزاری کو پیش کرنے کا حکم جاری کر دیا۔ اُس سے پہلے پنجاب کے وزیراعلیٰ حمزہ شہباز نے اُن کی رہائی کا حکم جاری کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ہاں خواتین کا احترام موجود ہے اور اس قسم کی کارروائی نامناسب ہے، رات ساڑھے گیارہ بجے ڈاکٹر شیریں مزاری کو اسلام آباد ہائی کورٹ پیش کیا گیا، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ابتدائی سماعت کے بعد اُن کی رہائی کا حکم جاری کیا اور ساتھ ہی اس واقعہ کی انکوائری کے لیے اعلیٰ سطحی کمیٹی بنانے کا حکم بھی دیا۔ اچھا ہوا کہ جو واقعہ محکمہ انٹی کرپشن کی بے تدبیری کے باعث ایک بڑا مسئلہ بن گیا تھا، وہ رات گئے نمٹ گیا اور ملک میں بڑی بدمزگی پیدا ہونے کے جو آثار ہو رہے تھے وہ دم توڑ گئے تاہم اس سارے معاملے کو ایک دوسری نظر سے بھی دیکھنے کی ضرورت ہے،محکمہ انٹی کرپشن سے جس انداز سے گرفتاری کی اُسے نامناسب قرار دیا جا سکتا ہے، تاہم جہاں تک مقدمے کا تعلق ہے تو وہ اپنی جگہ موجود ہے۔ یہ تاثر ختم ہونا چاہیے کہ کسی طاقتور کے خلاف کوئی قانونی مقدمہ درج ہو تو اُس پر کارروائی نہیں ہو سکتی، کارروائی کرنے کی کوشش کی جائے تو اُسے طاقت کے زور پر رکوانے کی راہ اختیار کی جاتی ہے۔محکمہ انٹی کرپشن کا کہنا ہے کہ انہوں نے ڈاکٹر شیریں مزاری کو اس کیس میں بار بار طلب کیا مگر انہوں نے تعاون نہیں کیا جس کے بعد یہ کارروائی کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ طاقتور سیاسی لوگوں کو ایک مثال بننا چاہیے کہ وہ قانون کا احترام کرتے ہیں اور اُس کے تقاضوں کو پورا کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اکثر کہتے ہیں کہ ملک میں امیر کے لیے ایک اور غریب کے لیے دوسرا قانون موجود ہے تاہم یہ حقیقت ہے کہ دو امیروں کے لیے ایک ہی قانون موجود ہے چاہے اُن کا تعلق حکومتی جماعت سے ہو یا اپوزیشن سے،وہ حالیہ دنوں میں اکثر پوچھتے تھے کہ رات بارہ بجے عدالتیں کیوں کھولی گئیں،اب انہیں ڈاکٹر شیریں مزاری کیس میں اس کا جواب مل گیا ہو گا کہ عدالتیں انصاف کی فراہمی کے لیے کسی بھی وقت کھل سکتی ہیں تحریک انصاف نے ڈاکٹر شیریں مزاری کی گرفتاری کے فوراً بعد اسے سیاسی رنگ دے کر احتجاج کی کال دے دی،اسے تحریک انصاف کے مجوزہ لانگ مارچ کو روکنے کے لیے کوششوں کا آغاز قرار دیا۔ڈاکٹر شیریں مزاری اس حوالے سے کون سا سرگرم کردار ادا کر رہی تھیں پھر یہ بات بھی منطق سے بعید نظر آتی ہے کہ حکومت ایک خاتون کی گرفتاری کا الزام اپنے سر لے،جس سے حالات کی کشیدگی بڑھ تو سکتی ہے، کم نہیں ہو سکتی، اِس وقت ملکی حالات ہر درجہ سیاسی پولرائزیشن کا شکار ہیں، عدم برداشت کا کلچر اپنے عروج پر ہے۔ ذرا ذرا سی بات پر چنگاری کو شعلہ بنانے سے گریز کرنا چاہیے۔ایک بار پھر ثابت ہو گیا ہے کہ عدالتیں پوری طرح اپنا کام کر رہی ہیں اور ضروری نہیں کہ ہر معاملے میں احتجاج کی کال دے دی جائے، داد رسی کے لیے عدالتوں سے رجوع کیا جانا چاہیے تاکہ حالات اُس نہج پر نہ پہنچیں جہاں سے واپسی کا راستہ مشکل ہو جائے۔پنجاب کے وزیراعلیٰ حمزہ شہباز نے ڈاکٹر شیریں مزاری کی رہائی کا فوری حکم دے کر ایک طرح سے یہ واضح کیا ہے کہ اُن کی گرفتاری میں پنجاب حکومت کا کوئی کردار نہیں تھا اور یہ کارروائی ایک محکمے نے بے تدبیری کے ساتھ کی، جس کا ردعمل شدید ہوا، کوشش کی جائے کہ مستقبل میں ایسے واقعات نہ ہوں اور جو قدم بھی اٹھانا مقصود ہووہ اُس سے پہلے تمام قانونی تقاضے پورے کئے جائیں۔تحریک انصاف کو بھی چاہیئے کہ وہ ہر مسئلے کا حل سڑکوں پر تلاش کرنے کی بجائے اداروں پر بھروسہ رکھے تاکہ مملکت کا نظام چلتا رہے۔