”غلام نہیں آزاد ہیں ہم“

تحریک انصاف نے اپنے ساڑھے تین سالہ دور میں 22ہزار ارب قرضہ لیا،وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف نے گزشتہ دنوں کراچی میں کاروباری شخصیات سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف کی قیادت سے پوچھا جائے کہ اتنی بڑی رقم انہوں نے خرچ کہاں کی،ملک تو اندرونی طور پر کنگال ہو چکا ہے، 2018ء میں جو ملک ترقی کی جانب گامزن تھا، لوڈشیڈنگ ختم ہو چکی تھی، جس کا اعتراف تحریک انصاف کی حکومت نے بھی متعدد مرتبہ کیا تھا، تحریک انصاف کے ساڑھے تین سالہ دور میں کسی ایک شعبے میں بھی بہتری کے آثار دکھائی نہیں دیئے اور آج صورت حال یہ ہے کہ ملک دیوالیہ ہونے کو ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت سے پہلے ملک میں جتنی بھی حکومتیں آئیں،بقول تحریک انصاف قائدین انہوں نے ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا، روزانہ 1200 ارب روپے کی کرپشن بھی ہو رہی تھی، اس کے باوجود بھی ملک مختلف شعبوں میں ترقی کی جانب گامزن تھا، 2013ء سے 2018ء تک اشیاء صرف کی قیمتوں میں بھی استحکام تھا، مہنگائی بھی نہ ہونے کے برابر تھی، عام آدمی سکون کی زندگی بسر کر رہا تھا، پانامہ لیکس آنے سے پہلے تک مسلم لیگ (ن) کی قیادت پر مقدمات ضرور تھے لیکن ان پر کرپشن کے وہ الزامات نہیں تھے جن کا پانامہ لیکس آنے کے بعد اس تواتر سے پراپیگنڈا کیا گیا کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو چور، ڈاکو اور لٹیروں کے القابات سے نوازا جانے لگا، پانامہ لیکس میں میاں نواز شریف کو سزا نہیں ہوئی۔ یہ بات بھی طے ہے کہ عمران خان اگر حقیقت میں میاں محمد نواز شریف کو چور یا ڈاکو سمجھتے تو انہیں جیل سے نکال کر پروٹوکول کے ساتھ کبھی لندن نہ بھیجتے۔ یاد رہے کہ تحریک انصاف کے 120 دن کے دھرنے کے دوران بھی عمران خان نے کسی ایک دن بھی شریف فیملی پر کرپشن کے حوالے سے کوئی معمولی الزام بھی عائد نہیں تھا۔ 12 اکتوبر 1999ء کو جب نواز شریف کی حکومت ختم کی گئی، جنرل پرویز مشرف جو نواز شریف کے بدترین دشمن تھے، انہوں نے بھی شریف فیملی پر کرپشن کے حوالے سے تحقیقات ضرور کیں، لیکن کوئی الزام عائد نہیں کیا، خود عمران خان 11-2010ء تک اپنی سیاسی جماعت ہونے کے باوجود بھی مسلم لیگ کی قیادت کے خلاف نہیں تھے۔ 30 اکتوبر 2011ء کے لاہور میں ہونے والے جلسے کے بعد عمران خان یکایک مسلم لیگ(ن)کی قیادت کے خلاف ہوئے اور رفتہ رفتہ وہ ہو گیا کہ جس کا گمان بھی نہیں تھا۔
2018ء کے الیکشن میں تحریک انصاف کو جس طرح اقتدار ملا، عمران خان سمیت تحریک انصاف کے قائدین اور ان کے کارکن بھی اس سے بخوبی واقف ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت نے تو کوئی کرپشن نہیں کی، بجلی، پٹرول، گھی، ادویات، آٹا، چینی سمیت مہنگائی کے جس طوفان نے عوام کی زندگی گزشتہ ساڑھے تین سال میں اجیرن کر دی، اس سے تحریک انصاف کے قائد بخوبی واقف ہیں، وہ ببانگ دہل یہ بیانات دیتے رہے کہ میرے پاس کوئی الہ دین کا چراغ نہیں کہ راتوں رات حالات ٹھیک کر دوں،اب بھی تحریک انصاف کی قیادت ملکی حالات بہتر کرنے کے بجائے اسے تباہی کی جانب دھکیل رہی ہے، اگر عمران خان یہ سمجھتے تھے کہ فوری انتخابات ہی ملکی مسائل کا اصل حل ہیں تو انہیں چاہئے تھا کہ تحریک عدم اعتماد آنے سے قبل اسمبلی تحلیل کر کے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر دیتے، لیکن اب ”پچھتائے کیا ہوت جب چڑیا چگ گئی کھیت“ عمران خان صاحب اب حکومت کا مقابلہ پارلیمنٹ میں کریں، جذبات میں آ کر میدان خالی چھوڑ کر آپ سیاسی غلطی کر چکے ہیں، ملکی حالات کا تقاضا ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں ملک کی معاشی ترقی کے لئے مل کر کام کریں، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی بجائے ملک کی بہتری کے لئے متحد ہو کر کردار ادا کریں، اگر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی روش چل پڑی تو پھر ملک میں چور، ڈاکو، لٹیروں کے سوا کوئی دکھائی نہیں دے گا،اس سے پہلے کہ قوم ایک دوسرے کا گریبان پکڑے،
تمام سیاسی جماعتوں کو متحد ہو کر ملک کی ترقی، خوشحالی اور استحکام کے لئے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، اس مقصد کے حصول کے لئے پانچ، سات یا دس سال پر مشتمل ”قومی حکومت“ کے حوالے سے لائحہ عمل تیار کیا جائے،اس کا کریڈٹ کسی ایک سیاسی جماعت کو نہیں تمام سیاسی جماعتوں کو جائے گا۔ نیز یہ کہ تحریک انصاف کے کارکنوں کو اپنی قیادت کا احتساب کرتے ہوئے ان سے یہ ضرور پوچھنا چاہئے کہ انہوں نے اپنے دور میں یہ جو 22ارب قرضہ لیا، وہ خرچ کہاں کیا ہے، یہ بات ذہن نشین رہے کہ جب تک اپنی قیادت کا احتساب نہیں کریں گے، اس وقت تک ملکی حالات بتدریج تباہی کی جانب ہی گامزن رہیں گے،یہ بات تو بہرحال طے ہے کہ تحریک انصاف کے کارکن دوسری سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کی نسبت خود کو زیادہ محبت وطن اور باشعور سمجھتے ہیں، اسی لئے وہ خود کو غلام نہیں آزاد کہتے ہیں، تحریک انصاف کے کارکن جلسوں میں اپنی قیادت سے یہ سوال بھی کریں کہ آپ نے تو کوئی کرپشن کی اور نہ ہی کوئی غیر ملکی فنڈنگ ہوئی تو پھر یہ روزانہ جلسوں پر جو اربوں خرچ ہو رہے ہیں، یہ کہاں سے آ رہے ہیں، ملک کو کرپشن کی دلدل اور تباہی سے بچانے کے لئے کسی کو تو بارش کا پہلا قطرہ بننا پڑے گا، تحریک عدم اعتماد کے لئے بقول عمران خان کو غیر ملکی فنڈنگ ہوئی، اب تک تحریک انصاف ہی ملک کی واحد سیاسی جماعت ہے، جس کے کارکنوں کی نظر میں اس کی قیادت دودھ میں نہائی ہوئی ہے۔ اس لئے اس کے کارکن یا تو اپنی قیادت کا احتساب کریں اگر ان میں یہ جرأت اور حوصلہ نہیں ہے تو پھر تحریک انصاف کو چھوڑ دیں یا پھر اپنی قیادت پر دباؤ ڈالیں کہ ملک کی بقا اور استحکام کے لئے تمام سیاسی جماعتیں متحد ہو کر فعال کردار ادا کریں۔