پاکستانی عوام اپنی توقعات بڑھا کر دھوکے کھاتے ہیں

ہمارے ملک میں عوام کی معلومات تک رسائی نہیں جس کی وجہ سے وہ ملکی مشکلات اور مسائل کا درست ادراک نہیں رکھتے ہیں۔ دوسری طرف پاکستان میں جرائت مند اور مشکل فیصلے کرنے والی کوئی قیادت میسر نہیں ہے۔ جو عوام کے بنیادی حق معلومات تک رسائی کو ممکن بنائے اور عوام کو سبز باغ دکھانے کی بجائے اعتماد میں لیکر مشکل فیصلے کر سکے۔ پاکستان کے تمام سیاسی شعبدہ باز عوام کی نبض دیکھ کر بیانیہ بناتے ہیں اور عوام کو ایسے خواب دکھائے جاتے ہیں جن کا زمینی حقائق سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ جب وہ خواب جلد پورے نہیں ہوتے تو عوام اپنی ہی منتخب کردہ حکومت سے نالاں ہو کر کسی اور طرف دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ بھی سیاسی استحکام نہیں چاہتی اسی لیے کسی بھی سول حکومت کو کھل کر کام کرنے کا موقع نہیں ملتا۔
لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ حکمران اور تمام سیاستدان عوام سے سچ بولیں اور عوام کو مشکلات کے لیے تیار کریں تاکہ مستقبل کی بہتر منصوبہ بندی کی جا سکے۔ ہماری آنے والی نسلوں کا ہمارے اوپر یہ حق ہے کہ ہم اپنے آج کو ان کے کل کے لیے قربان کریں۔ اس وقت پاکستان کے اندر جو سیاسی ابتری کا ماحول ہے۔ اس میں ایک طرف عمران خان صاحب ایک بیانیہ لیے شہر شہر جلسے کر رہے ہیں اور لوگ دیوانہ وار ان کے بیانیے کی حمایت میں نکل رہے ہیں تو دوسری طرف پی ڈی ایم کی جماعتیں ہیں جو کسی بڑے کی انا کی تسکین کے لیے اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار بیٹھی ہیں اور اب سر اور پاؤں پکڑ کر سوچ رہے ہیں کہ اس مشکل سے کیسے نکلا جائے؟ پاکستان کے عوام ان سے بھی توقعات وابستہ کیے ہوئے ہیں جن کا پورا ہونا ممکن نظر نہیں آ رہا اور جن لوگوں کو عمران خان صاحب نے ایک نئی امید دلائی ہے۔ پوری وہ بھی نہیں ہوگی۔ یہ خاکسار 2018 میں بھی یہ بات کرتا تھا کہ جو کچھ عمران خان صاحب وعدے کر رہے ہیں ان کا پورا ہونا ناممکن ہے اور آج بھی یہی عرض کرتا ہوں۔ کہ عمران خان دوبارہ برسر اقتدار آ کر نہ تو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے اثر سے نکل کر مکمل جمہوریت بحال کر سکیں گے نہ غیر ملکی سامراج کا مقابلہ کر سکیں گے، کیونکہ مستقبل قریب میں امریکہ، یورپ اور ان کے زیر اثر مالیاتی اداروں کے چنگل سے نکلنے کے کوئی آثار نہیں ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ہم ایسی کوشش بھی نہ کریں۔ زیادہ تر عوام کی اکثریت عمران خان صاحب کی حمایت کرتی ہے۔ اور اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ میسر سیاسی قیادت میں عمران خان کو بہتر آپشن سمجھتے ہیں۔ وہ دوسروں سے کم بدعنوان ہیں۔ اور پاکستان کے نظام کو بہتر کرنے کے خواہشمند بھی نظر آتے ہیں جبکہ ان کے حریف شروع دن سے ہی اپنے مفادات کے اسیر ہیں اور ان کو کئی بار آزمایا جا چکا ہے۔ ان میں سے کئی ایسے ہیں جو کچھ کرنے کی اہلیت بھی رکھتے ہیں لیکن وہ اسٹیبلشمنٹ کی ڈانٹ کھا کھا کر مایوس ہو چکے ہیں اور اب صرف ڈنگ لگانے کے لیے آتے ہیں۔
میرا سیاسی مشاہدہ یہ کہتا ہے کہ اگر آئندہ انتخابات منصفانہ ہوئے تو پی ٹی آئی سادہ اکثریت سے کامیاب ہو جائے گی، لیکن اس کامیابی کو پاکستان کی کامیابی میں تبدیل کرنے کے لیے کھرا سچ بولنا ہوگا اور جان توڑ محنت کر کے اگلے 5 برس میں ملکی معیشت کو ٹریک پر لانا ہوگا۔ پھر بھی قرضوں کے بوجھ سے نہیں نکلا جا سکے گا اس کے لیے 20 یا 25 سالہ منصوبہ بندی کے ساتھ پالیسیوں کا تسلسل قائم رکھنا ہوگا۔ سیاسی عدم استحکام سے نکلنا پڑے گا۔ سیاستدانوں اور بیوروکریسی کا کڑا احتساب کرنا ہوگا۔ عدالتی نظام کو یکسر بدلنا ہوگا۔ لیکن ہزار ملین کا سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان یا ان کی جماعت یہ سب کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں؟
ہم سوچے سمجھے بغیر اپنی قیادت سے توقعات باندھ کر کئی بار دھوکا کھا چکے ہیں۔ ہم ریاستی سطح سے جھوٹ سن سن کر مایوس ہو چکے ہیں۔ سقوط ڈھاکہ سے پہلے ہمیں بھارت فتح کرنے کے خواب دکھائے گئے۔ پھر باقی ماندہ پاکستان میں روٹی کپڑا مکان کی امیدیں لگائی گئیں۔ پھر پاکستان میں اسلامی نظام کے خواب دیکھے گئے۔ پھر 90 کی دہائی میں امیرالمومنین کی جھلک دکھائی گئی، قرض اتارو ملک سنوارو کا راگ سنا، پھر سب سے پہلے پاکستان کا نغمہ گنگنایا گیا، آخر ملک کو سیکنڈنیویا کا نظام دکھا کر بعد میں ریاست مدینہ کا ڈول ڈالا گیا اور اب مہنگائی ختم کرو کی مہم بھی ہمارے سامنے ہے۔ اب ہمیں ہی بدلنا ہوگا۔ ہم کوئی خواب نہیں دیکھنا چاہتے، ہم سچ سننا چاہتے ہیں۔ ہم نیوٹرل کی گردان نہیں بلکہ نیوٹرل کا درست کردار سامنے لانا چاہتے ہیں۔ یہ نیوٹرل صدی کا بڑا جھوٹ ہے جس کو تسلسل سے بولا جا رہا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ایک دوسرے پر ملبہ ڈالنے کی بجائے سیاسی قیادت آپس میں سر جوڑے اور ملک کی معاشی صورتحال عوام کے سامنے رکھے اور عوام کو مشکلات کے لیے تیار کرے لیکن یہ اسی صورت ممکن ہوگا جب اشرافیہ اپنی اناؤں سے نکل کر ملکی مفاد کے زیر اثر فیصلے کرے گی اور خود سب سے زیادہ قربانی دے گی۔ کچھ لوٹی ہوئی دولت واپس ملک میں لائیں اور آئندہ کرپشن سے توبہ کریں۔ اگر اشرافیہ نے اپنی روش نہ بدلی تو پھر عوام کے بدلتے تیور دیکھ لیں اور عوامی غضب کا اندازہ کر لیں۔
جاگ گئے تو آہیں بھریں گے
حسن والوں (اشرافیہ) کو رسوا کریں گے
سیاست کے مارے جو سو گئے ہیں ان کو بیدار کرنا منع ہے۔