شیریں مزاری، ملتان کاجلسہ اور بنی گالا کی بنی ہوئی گالی

شیریں مزاری، ملتان کاجلسہ اور بنی گالا کی بنی ہوئی گالی
شیریں مزاری، ملتان کاجلسہ اور بنی گالا کی بنی ہوئی گالی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


سابق وزیراعظم عمران خان جمعہ کی شب ملتان کے جلسے کے بعد اسلام آباد کی بجائے اچانک پشاور کیوں چلے گئے؟ اسی رات دوبجے بنی گالا میں پولیس نے سرچ آپریشن کیوں کیا؟ اور اگلے ہی روز یعنی ہفتے کو سابق وفاقی وزیر شیریں مزاری کو پچاس سال پرانے کیس میں اچانک گرفتار کیوں کر لیا گیا؟ اور پھر رات گئے ان کی رہائی کیسے عمل میں آئی؟  کیا یہ سب کچھ طے شدہ منصوبے کے تحت ہوا اور کیا عمران خان کو یہ معلوم تھا کہ یہ سب کچھ ہونے والا ہے اور اسی لیے وہ ملتان میں لانگ مارچ کی کال دینے سے گریز کرگئے؟ ایک اور سوال یہ بھی زیر بحث ہے کہ کیا شیریں مزاری کی گرفتاری ٹیسٹ کیس تھا؟ اور کیا انہیں واقعی حمزہ شہباز  نے گرفتار کیا تھا۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ ان کی گرفتاری کی ذمہ داری خود قبول کر کے حمزہ اگر ان کی رہائی کے احکامات جاری نہ کرتے تو پھر آنے والے دنوں میں ہم شفقت محمود،شیخ رشید، فواد چوہدری کی گرفتاریاں بھی دیکھتے؟ یہ وہ بنیادی سوالات ہیں جن کاجواب تلاش کرنا سردست ہم میں سے کسی کے بس کی بات نہیں اور ان سوالات کاجواب تلاش کرنے کی ضرورت بھی نہیں کہ یہاں جو کچھ بھی ہورہاہے وہ کسی تجزیئے کا تابع نہیں۔آج مجھے بات صرف ملتان کے جلسے کی کرنا ہے۔


ملتان کاجلسہ دراصل عمران خان کے ان جلسوں کی سیریز کا آخری حصہ تھا جن کے ذریعے وہ اسلام آباد دھرنے اور حکومت کے خلاف فیصلہ کن جدوجہد کے لیے رائے عامہ ہموار کررہے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انہیں اس وقت عوام کی غیر معمولی حمایت حاصل ہے اورلوگ دیوانہ وار ان کے جلسوں میں شریک بھی ہورہے ہیں۔ ملتان کے جلسے میں لگائی جانے والی کرسیوں کی تعداد اگرچہ 14 ہزار بتائی جارہی ہے لیکن لوگ اسے لاکھوں کا جلسہ کہہ رہے ہیں۔ گنتی کے جھگڑے سے قطع نظر یہ ایک بڑا جلسہ تھا۔ عمران خان کے مخالفین تو ان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کی کچھ اور وجوہات بھی بیان کرتے ہیں۔ عوام کی ذہنی سطح اور سیاسی شعور کے حوالے سے بھی سوالات اٹھائے جاتے ہیں اور جیسے عوام ویسا لیڈر والی پھبتی بھی کسی جاتی ہے لیکن یہ بھی اضافی بات ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ صورت حال تشویشناک بھی ہے اور کافی حد تک شرمناک بھی۔


اصل معاملہ یہ ہے کہ ہماری سیاست کا دارو مدارا ب دروغ ودشنام تک محدود ہوتا جارہاہے۔ ویسے تو سیاست میں دروغ گوئی کی بے شمار مثالیں ماضی میں بھی تلاش کی جاسکتی ہیں اور سیاست کو جھوٹ کاکھیل بھی کہاجاتاہے لیکن جھوٹ کو جو فروغ فی زمانہ حاصل ہے اس میں ڈھٹائی کا عنصربھی شامل ہوچکا ہے کہ پہلے تو جھوٹ بولنے والے ندامت بھی محسوس کرتے تھے لیکن اب ایسے تکلف کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی جاتی۔کہا جاتا تھا کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے اور جب کسی کا جھوٹ پکڑا جاتا تھا تو وہ کج بحثی کی بجائے خاموشی اختیار کرنے میں ہی عافیت محسوس کرتاتھا۔ اب معاملات یکسر مختلف ہو گئے ہیں۔سامنے کی باتوں کوبھی جھٹلادیاجاتا ہے۔ کوے کو اتنی بار سفید کہا جاتا ہے کہ وہ سننے والے کو ہی نہیں دیکھنے والے کوبھی سفید ہی نظر آنے لگتا ہے۔
مثال کے طورپرصرف شیریں مزاری کی گرفتاری کے حوالے سے چند جھوٹ ملاحظہ فرمائیں۔


سب جانتے ہیں کہ انہیں پنجاب حکومت کے اینٹی کرپشن ونگ کی جانب سے گرفتار کیاگیا۔ڈپٹی کمشنرراجن پور کی درخواست پر ان کے خلاف عثمان بزدارکے دور حکومت میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ گرفتاری میں اسلام آباد پولیس کے عملے نے بھی معاونت کی لیکن حکومتی عہدیدار یہ کہتے ہیں کہ ہمارا اس گرفتاری سے کوئی تعلق نہیں۔ اسی طرح گرفتاری کے فوراًبعد شیریں مزاری کی صاحبزادی ایمان مزاری نے الزام عائد کیا کہ ان کی والدہ کو پولیس کے مرد اہلکاروں نے گرفتار کیا اور انہیں گھسیٹتے ہوئے لے گئے۔فواد چوہدری اورشیخ رشید نے کہاکہ شیریں مزاری کے کپڑے بھی پھاڑ دیئے گئے لیکن پولیس نے کچھ ہی دیر بعد گرفتاری کی ویڈیو میڈیا کوجاری کی تو معلوم ہوا کہ یہ سب الزامات جھوٹ کے سوا کچھ بھی نہ تھے۔ لیکن مجال ہے کہ جو کسی جھوٹے کو کوئی شرم آئی ہو۔
دشنام پر بات کرنے سے پہلے ملتان کے جلسے پر کچھ اور بات ہو جائے۔اس جلسے میں شرکت کے لیے عمران خان سابق ضلع ناظم ملتان اور معروف صنعت کار فیصل مختار کے خصوصی طیارے سے ملتان پہنچے اور اپنی آمد کے فوری بعد ان کے قریبی عزیز اور صنعت کار میاں حسین کے بیٹے میاں فضل حسین کی رہائش گاہ پر گئے یہ خاندان ٹیکسٹائل کی صنعت کے ساتھ طویل وابستگی رکھتا ہے اور اپنی خاص مذہبی شناخت کے حوالے سے بھی پہچانا جاتا ہے۔ ان کی مذہبی شناخت کیا ہے ہم اس بحث میں پڑتے ہی نہیں لیکن یہ بات بہرحال اہمیت کی حامل ہے کہ فیصل مختار کی رہائش گاہ پرعمران خان کے ساتھ اہم سیاسی شخصیات نے بھی ملاقاتیں کیں۔ان میں کچھ وہ لوگ تھے جو پہلے ہی پی ٹی آئی کے ساتھ ہیں اور کچھ ایسے لوگ بھی جو اب وفاداریاں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔

لطف یہ ہے کہ وفاداریاں تبدیل کرنے کی خواہش کا اظہار عین اس روز کیاگیا جب الیکشن کمیشن نے منحرف اراکین کے خلاف فیصلہ دیا تھا اور پھر خود کئی مرتبہ وفاداریاں تبدیل کرنے والے سابق وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمودقریشی نے ملتان کے  جلسے میں لوٹوں کے خلاف نعرے لگواکر ماحول کو گرما دیا۔ جلسہ عام میں عمران خان کی گفتگو اب بے معنی ہوتی جارہی ہے ان کے پاس روایتی الزامات اور دشنام کے سوا اب کچھ بھی نہیں۔ اور لوگ ان کی یہ گفتگو اور چور ڈاکو کی کہانی اتنی بارسن چکے ہیں کہ اب ان کی کہانیاں محض تفنن طبع کاذریعہ بن کررہ گئی ہیں۔ اس جلسے کی سب سے بڑی اہمیت یہ تھی کہ اس میں انہیں اسلام آباد لانگ مارچ کی کال دیناتھی لیکن بعض مبصرین پہلے ہی کہہ رہے تھے کہ وہ کال دینے کا ابھی حوصلہ نہیں کریں گے۔یہ جلسے صرف عوامی طاقت کے ذریعے حکومت اور اداروں کو خوف زدہ کرنے کی کوشش ہے اوروہی ہوا کہ عمران خان لانگ مارچ کی تاریخ سے پہلوتہی کرگئے اور عوام کو یہ مڑدہ سنانے پر اکتفا کیا کہ میں پرسوں کال دوں گا جو 25 سے 29مئی کے درمیان ہوگی لیکن اسی دوران انہوں نے حدیث نبوی سنانے سے پہلے مریم نواز صاحبہ کے بارے میں جو طرز عمل اختیار کیا اور جس انداز میں ایک خاتون کو نشانے پر لیا اس نے جلسے کا تاثرہی تبدیل کردیا۔جلسے کی شہ سرخی تبدیل ہوگئی۔اصل خبر کہیں پیچھے اوردشنام کاپہلو نمایاں ہوگیا۔مخالفین کو یہ کہنے کاموقع مل گیا کہ بنی گالا کی بنی ہوئی گالی کے اثرات بہت دیرپا ہوتے ہیں۔

مزید :

رائے -کالم -