عینک لگانے والوں کی ٹیم نے سگار پینے والوں کو 9 وکٹوں سے شکست دی انکی کمپنی کے کنوارے ملازمین اپنے افسروں اور انکی بیویوں سے شوقیہ میچ کھیل رہے ہیں(مشتاق احمد یوسفی کی مزاح سے بھرپور تحریر)

عینک لگانے والوں کی ٹیم نے سگار پینے والوں کو 9 وکٹوں سے شکست دی انکی کمپنی ...
 عینک لگانے والوں کی ٹیم نے سگار پینے والوں کو 9 وکٹوں سے شکست دی انکی کمپنی کے کنوارے ملازمین اپنے افسروں اور انکی بیویوں سے شوقیہ میچ کھیل رہے ہیں(مشتاق احمد یوسفی کی مزاح سے بھرپور تحریر)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

قسط:5

جاہلوں کا ذکرنہیں، بڑے بڑوں کوہم نے اس خوش فہمی میں مبتلا دیکھا کہ زیادہ نہ کم پورے بائیس کھلاڑی کرکٹ کھیلتے ہیں۔ ہم قواعد و ضوابط سے واقف نہیں لیکن جو کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا، اسی کی قسم کھاکر عرض کرتے ہیں کہ در حقیقت کرکٹ صرف ایک ہی شخص کھیلتا ہے۔ مگر اس کھیل میں یہ وصف ہے کہ بقیہ اکیس حضرات سارے سارے دن اس مغالطے میں مگن رہتے ہیں کہ وہ بھی کھیل رہے ہیں۔ حالانکہ ہوتا یہ ہے کہ یہ حضرات شام تک سارس کی طرح کھڑے کھڑے تھک جاتے ہیں اور گھر پہنچ کر اس تکان کو تندرستی سمجھ کر پڑ رہتے ہیں۔ 
مرزا کہتے ہیں (ناممکن ہے کرکٹ کا ذکر ہواور بار بارمرزا کی دہائی نہ دینی پڑے) کہ کھیل، علی الخصوص کرکٹ، سے طبیعت میں ہار جیت سے بے نیازی کا جذبہ پید ا ہوتا ہے۔ اب انہیں کون سمجھائے کہ جیتنے کیلئے واقعی کاوش و مزادلت درکار ہے۔ لیکن ہارنے کیلئے مشق و مہارت کی چنداں ضرورت نہیں کہ یہ مشکل مخالف ٹیم بالعموم خود آسان کر دیتی ہے۔ 
اچھے اسکولوں میں شروع ہی سے تربیت دی جاتی ہے کہ جس طرح مرغابی پر پانی کی بوند نہیں ٹھیرتی، اسی طرح اچھے کھلاڑی پر ناکامی کا کوئی اثر نہیں ہونا چاہئے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ بعض کمزور طبیعتیں اس نصیحت کا اس قدر اثر لیتی ہیں کہ ہر قسم کے نتائج سے بے پروا ہو جاتی ہیں۔ 
لیکن اگر ہم کھلے خزانے یہ اعتراف کر لیں کہ ہمیں جیت سے رنج اور ہار سے خوشی نہیں ہوتی تو کون سی عیب کی بات ہے؟ انگلستان کا بادشاہ ولیم فاتح اس سلسلہ میں کمال کی بے ساختگی و صاف دلی کی ایک مردہ مثال قائم کر گیا ہے جو آج بھی بعضوں کے نزدیک لائق توجہ وتقلید ہے۔ ہوا یہ کہ ایک دفعہ جب وہ شطرنج کی بازی ہار گیا تو آؤ دیکھا نہ تاؤ جھٹ چوبی بساط جیتنے والے کے سر پر دے ماری، جس سے اس گستاخ کی موت واقع ہو گئی۔ مورخین اس باب میں خاموش ہیں، مگر قیاس کہتا ہے کہ درباریوں نے یوں بات بنائی ہوگی، ”سرکار! یہ تو بہت ہی کم ظرف نکلا۔ جیت کی ذرا تاب نہ لا سکا۔ شادی مرگ ہو گیا۔“ 
یہی قصہ ایک دن نمک مرچ لگا کرہم نے مرزا کوسنایا۔ بگڑ گئے، کہنے لگے، ”آپ بڑافلسفہ چھانٹتے ہیں مگر یہ ایک فلسفی ہی کا قول ہے کہ کوئی قوم سیاسی عظمت کی حامل نہیں ہو سکتی جب تک کہ اس نے کسی نہ کسی عہد میں اپنے کھیل کا لوہا نہ منوایا ہو۔“ 
ہم نے چھیڑا، ”مگر قومیں پٹ پٹ کرہی ہیکڑ ہوتی ہیں۔“ 
قوموں کو جہاں کا تہاں چھوڑ کر ذاتیات پر اتر آئے، ”جس شخص نے عمر بھراپنے دامن صحت کو ہرقسم کی کسرت اور کھیل سے بچائے رکھا، وہ غریب کھیل کی اسپرٹ کو کیا جانے، 
بچپن میں بھی تم کھیل جوکھیلے تو صنم کا 
میں جانتا ہوں، تم جیسے تھڑو لے محض ہار کے ڈر سے نہیں کھیلتے۔ ایسا ہی ہے تو پرسوں صبح بغدادی جمخانہ آجاؤ، پھر تمہیں دکھائیں کرکٹ کیا ہوتا ہے۔“ 
اس کے بعد انہوں نے بتایا کہ مذکورالصدرمقام پرہر ہفتے دوستانہ میچ ہوتے رہتے ہیں (دوستانہ میچ سے مراد ایسا میچ ہے جس میں لوگ ہار کربھی قائل نہیں ہوتے) ابھی گزشتہ سنیچر کو عینک لگانے والوں کی ٹیم نے سگار پینے والوں کو پورے9 وکٹوں سے شکست دی تھی اور پرسوں ان کی کمپنی کے کنوارے ملازمین اپنے افسروں اور ان کی بیویوں سے شوقیہ میچ کھیل رہے ہیں۔ ہم نے کچھ ہچر مچر کی تو آنکھ مار کے کہنے لگے، ”بےپردگی کاخاص انتظام ہوگا، ضرور آنا۔“ 
ہم ناشتہ کرتے ہی بغدادی جمخانہ پہنچ گئے۔ پروگرام کے مطابق کھیل ٹھیک دس بجے شروع ہونا چاہئے تھا مگر امپائر کا سفید کوٹ استری ہوکر دیر سے آیا۔ اس لئے چھپے ہوئے پروگرام کے بجائے ساڑھے گیارہ بجے تک کھلاڑی مونگ پھلی کھاتے رہے۔ 
پندرہ منٹ کی ردو کد کے بعد طے پایا کہ جوٹیم”ٹاس“ ہارے وہی بیٹنگ کرے۔ پھر کلدارروپیہ کھنکا، تالیاں بجیں۔ معطر رومال ہوا میں لہرائے اور مرزا کسے بندھے بیٹنگ کرنے نکلے۔ 
ہم نے دعادی، ”خدا کرے تم واپس نہ آؤ۔“ 
مرزا نے ہمارا شکریہ ادا کیا اورچلتے چلتے پھر تاکید کی، ”کرکٹ مت دیکھو۔کرکٹ کی اسپرٹ دیکھو۔“ 

(جاری ہے )

 کتاب " چراغ تلے " سے اقتباس