توانائی بحران کے خاتمے کی جانب ایک اور قدم
کسی بھی ملک کی ترقی کا انحصار اس کی معاشی ترقی پر ہوتا ہے اور معاشی ترقی کے لئے ملک سے توانائی کی قلت کا بحران دور کرنا ضروری ہے۔ ماضی میں یہ مسئلہ تکنیکی سے زیادہ سیاسی بنا دیا گیا تھا۔
بالخصوص سابق دور حکومت میں پیپلزپارٹی نے اس بارے میں عوام کو بہت زیادہ مایوس کیا۔ اس کے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف لوڈشیڈنگ کے خاتمے کی مختلف تاریخیں دیتے رہے اور ہر بار یہ تاریخ غلط ثابت ہوتی۔
لوڈشیڈنگ کی کمی کی وجہ سے صنعتیں بری طرح متاثر ہو رہی تھیں۔ کاروبار ٹھپ ہو چکے تھے اور سرمایہ کار وقت پر مال تیار نہ کرنے کی وجہ سے دیوالیہ ہو رہے تھے۔ لوڈشیڈنگ کے خلاف مظاہرے عروج پر تھے اور ہر دوسرے روز کسی نہ کسی شہر میں واپڈا دفاتر پر حملے معمول بن چکے تھے۔
سابق صدر آصف علی زرداری جو ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بنے بیٹھے تھے، انہوں نے اس مسئلے کی سنگینی کا ادراک کیا، نہ ہی اس عوامی مسئلے کو حل کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کی۔
بجلی کی پیداوار کے جو چند ایک منصوبے انہوں نے شروع کئے، وہ بھی بری طرح ناکام ہوئے، کیونکہ ان میں کرپشن کا عنصر سرایت کر گیا، جس کے نتیجے میں بجلی کا بحران مزید سنگین ہوتا چلا گیا۔
موجودہ حکومت کے لئے سب سے بڑا چیلنج بجلی کی لوڈشیڈنگ کا خاتمہ تھا۔ اس وقت موجودہ حکومت کا پانچواں سال چل رہا ہے اور اس سال گزشتہ برسوں کی نسبت انتہائی کم لوڈشیڈنگ ہوئی ہے۔ یہ انہی اقدامات کا نتیجہ ہے جو حکومت نے اٹھائے اور جن کی بدولت آج لوڈشیڈنگ نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔
گزشتہ دنوں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے پورٹ قاسم پر پچاس کروڑ کی لاگت سے ایل این جی ٹرمینل کا افتتاح کیا۔ ایل این جی چونکہ سب سے سستا ایندھن ہے اور حکومت کی یہ ترجیح دکھائی دیتی ہے کہ مختلف اور سستے ذرائع سے بجلی حاصل کی جائے۔
یہ منصوبہ توانائی کے بحران کے خاتمے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ بجلی کی قلت کے باعث صنعتیں اور صارفین متاثر ہو رہے تھے اور کھاد فیکٹریوں اور گھریلو صارفین کو گیس کی کمی کا سامنا تھا۔ دوسرے ایل این جی ٹرمینل کی تنصیب سے وافر گیس مہیا ہو گی۔ وزیراعظم نے بتایا کہ ملک میں گیس سے بجلی پیدا کرنے والے مزید بجلی گھر بھی لگ رہے ہیں۔
گیس پلانٹس ، سی این جی اور صنعتی ضرورتوں کے باعث گیس کی طلب بڑھ رہی ہے اور ایک اندازے کے مطابق آئندہ تین سال میں ایل این جی کی طلب تیس ملین ٹن سے تجاوز کر جائے گی۔مزید ایل این جی ٹرمینلز لگنے سے توانائی کے مسائل کے خاتمے میں مدد ملے گی۔
یہ خوش آئند امر ہے کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے توانائی بحران پر قابو پانے کے لئے گیس کو نظام میں شامل کرنے کی منصوبہ بندی کی ۔ جس ٹرمینل کا وزیراعظم نے گزشتہ دنوں افتتاح کیا، وہ پاکستان گیس پورٹ کنسورشیم کے تعاون سے لگایا گیااور اقبال زیڈ احمد نے بڑی محنت اور جانفشانی سے ٹرمینل کا منصوبہ مکمل کیا۔ اس کنسورشیم میں چین، جاپان اور یورپ کی کمپنیاں شامل ہیں۔
ایل این جی سب سے سستا ایندھن ہے۔ پاکستان میں بجلی کے بحران کی ایک وجہ بجلی چوری بھی ہے۔ لوگ سستی بجلی چاہتے ہیں اور مہنگائی کی وجہ سے افورڈ نہیں کر پاتے۔اس مقصد کے لئے حکومت نے نہ صرف بجلی کی پیداوار بڑھانے کا فیصلہ کیا، بلکہ سستی بجلی فراہم کرنے کا منصوبہ بنایا تاکہ عوام پر کسی قسم کا اضافی بوجھ نہ پڑے۔
حکومت نے عندیہ دیا ہے کہ گیس سے چلنے والے تین بجلی گھر جلد کام شروع کردیں گے۔ کہتے ہیں قطرہ قطرہ دریا بنتا ہے۔ اس طرح کے درجنوں پراجیکٹ آئے روز مکمل ہو رہے ہیں، جس کے بعد امید یہی کی جا سکتی ہے کہ لوڈشیڈنگ اور توانائی کے پیچیدہ مسائل پر قابو پایا جا سکے گا۔توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لئے عوام کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ بجلی پیدا کرنا حکومت کا کام ہے، لیکن بجلی بچانا اور بجلی کے بلوں کی ادائیگی عوام کی اولین ذمہ داری ہے۔
دیکھا یہ گیا ہے کہ گھروں میں بے تحاشا بجلی ضائع ہوتی ہے۔ شادیوں وغیرہ کے موقع پر اس قدر بجلی کا ضیاع ہوتا ہے، جسے اگر بچایا جائے تو بحران کی سنگینی کم ہو سکتی ہے۔دراصل عوام کو اپنے رویوں اور طرز زندگی کو بھی بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
ساری ذمہ داری حکومت پرنہیں ڈالی جا سکتی۔ بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاں لوگ کنڈے ڈال کر بجلی چوری کرتے ہیں، یوں نہ صرف ایک سنگین جرم کے مرتکب ہوتے ہیں، بلکہ قومی خزانے کو بھی نقصان پہنچا رہے ہوتے ہیں۔اس طرح تو جتنی مرضی بجلی پیدا کر لی جائے وہ ناکافی ہی رہے گی۔
ترقی یافتہ ملکوں میں بجلی کے استعمال کے بارے میں بہت زیادہ احتیاط کی جاتی ہے۔ کمروں میں فالتو بلب نہیں جلائے جاتے۔ اسی طرح عام بلبوں کے مقابلے میں ایل ای ڈی یا انرجی سیور استعمال کئے جاتے ہیں ۔
بظاہر یہ چھوٹے چھوٹے کام ہیں، لیکن جب کروڑوں لوگ بحیثیت مجموعی یہ کام سر انجام دیں گے تو سینکڑوں میگا واٹ بجلی کی بچت ہو سکے گی۔فی الوقت وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے جس گیس ٹرمینل کا افتتاح کیا ہے، وہ عنقریب آپریشنل ہو جائے گا اور سسٹم کو سستی بجلی مہیا کرے گا۔
اسی طرح کے کئی پراجیکٹس مکمل ہو چکے ہیں اور چند ایک پائپ لائن میں ہیں۔ حکومت اگر توانائی بحران پر قابو پانے کے لئے اسی طرح سنجیدگی سے اقدامات کرتی رہی تو اس میں کوئی شک نہیں کہ آئندہ انتخابات سے قبل، جس طرح کہ حکومت نے وعدہ کیا ہوا ہے، یہ ملک ہمیشہ کے لئے اندھیروں سے پاک ہو جائے گا۔ کسی بھی بحران سے نمٹنے کے لئے نیت کا درست ہونا اور عمل کی سمت کا تعین ضروری ہے۔
اگر آپ کی نیت درست ہو اور آپ جو عمل کر رہے ہیں اس کی سمت ٹھیک ہو تو پھر وہ کام پایہ تکمیل تک پہنچ جاتا ہے۔ حکومت کی نیت بھی ٹھیک نظر آتی ہے اور سمت بھی ٹھیک ہے۔ چند ماہ بعد جب لوڈشیڈنگ مکمل ختم ہو جائے گی تو اس ملک کی خوشحالی کا ایک نیا دور شروع ہو گا، جس کے بعد اس ملک کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہونے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔