نواز شریف کے خلاف اپوزیشن کی ناکام مہم جوئی
قومی اسمبلی نے بھاری اکثریت سے پیپلزپارٹی کا پیش کردہ متحدہ اپوزیشن کا بِل مسترد کر دیا، جس میں2017ء کے انتخابی قانون میں ترمیم پیش کی گئی تھی کہ نااہل شخص کسی سیاسی جماعت کا صدر منتخب نہیں ہو سکتا،ترمیمی بِل کے حق میں98 اور مخالفت میں163 ووٹ پڑے،الیکشن ایکٹ کے آرٹیکل203 میں ترمیم پیش کرتے ہوئے نوید قمر نے کہا کہ جو شخص اسمبلی کا رکن بننے کا اہل نہ ہو وہ پارٹی کا سربراہ نہیں ہو سکتا، یہ بِل سینیٹ میں پہلے ہی منظور ہو چکا تھااِس لئے بہت سے حلقوں کا خیال تھا کہ اگر قومی اسمبلی میں بھی یہ بِل منظور ہو گیا تو نواز شریف مسلم لیگ(ن) کی صدارت سے ایک بار پھر محروم ہو جائیں گے، جس طرح وہ 28 جولائی کو سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد ہو گئے تھے، مسلم لیگ(ن) کی جنرل کونسل نے اُنہیں اپنی پارٹی کا دوبارہ صدر انتخابی قانون میں آرٹیکل 203 کی منظوری کے بعد ہی منتخب کیا تھا۔
جب سے نواز شریف قومی اسمبلی کی رکنیت سے نااہل ہونے کے بعد وزارتِ عظمیٰ کے منصب سے الگ ہوئے ہیں،بعض معاملات کو دیدہ و دانستہ گڈ مڈ کیا جا رہا ہے، نواز شریف کے خلاف پاناما لیکس اور لندن فلیٹس کی ملکیت وغیرہ کے مقدمات چل رہے تھے،لیکن اُن کی نااہلی ایک اقامے کی بنیاد پر ہوئی ہے۔ فاضل عدالت نے اُن کی نااہلی ایک تنخواہ کو ڈکلیئر نہ کرنے کی بنیاد پر کی جو اگرچہ انہوں نے وصول تو نہیں کی،لیکن وہ اسے وصول کرنے کے مجاز تھے، اس تنخواہ کو اُن کا اثاثہ قرار دیا گیا، عدالت نے آج تک اُنہیں کرپشن کے کسی مقدمے میں نااہل قرار نہیں دیا،کرپشن کے جو مقدمات ہیں وہ نیب عدالت میں چل رہے ہیں،جن کا فیصلہ ابھی آنا باقی ہے، جے آئی ٹی وغیرہ نے جو تحقیقات کی ہیں اُن پر ابھی کسی عدالت نے تصدیق کی مہر ثبت نہیں کی،لیکن ایک طے شدہ منصوبے کے تحت یہ پروپیگنڈے کیا جا رہا ہے کہ نواز شریف کرپشن کے الزام میں ماخوذ ہو چکے ہیں،جبکہ زمینی حقیقت یہ ہے کہ یہ تمام مقدمات ابھی زیر سماعت ہیں، اِن میں سے کسی ایک کا فیصلہ بھی عدالت نے نہیں کیا،لُطف کی بات یہ ہے کہ لاہور ہائی کورٹ نے حدیبیہ کیس کا فیصلہ نواز شریف فیملی کے حق میں کر دیا تھا، جس کے خلاف نیب نے کوئی اپیل نہیں کی تھی، اب یہ کیس بھی دوبارہ کھولنے کی درخواست زیر سماعت ہے۔ وزیر قانون نے قومی اسمبلی میں پیپلزپارٹی کے پیش کردہ ترمیمی بل کی مخالفت میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ جس قانون میں ترمیم مطلوب ہے یہ ذوالفقار علی بھٹو نے1975ء میں متعارف کرایا تھا،لیکن پرویزمشرف نے نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کو پارٹی کی سربراہی سے دور رکھنے کے لئے اِس قانون کو ختم کر دیا، وزیر قانون کے مطابق انتخابی اصلاحات کا قانون 17نومبر2014ء کو قومی اسمبلی کی ذیلی کمیٹی میں پیش کیا گیا تھا اس وقت تک پاناما پیپرز نہیں آئے تھے، جو ڈیڑھ سال بعد اپریل2016ء میں سامنے آئے۔انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کا یہ کہنا درست نہیں کہ صرف ایک شخص کے لئے بِل لایا گیا، انتخابی اصلاحات کا بِل کم و بیش تین سال تک کمیٹی کے زیر غور رہا اور اس پر اتفاق رائے ہوا تھا۔
مخالف جماعتوں اور خصوصاً بعض نمایاں سیاسی رہنماؤں کی جانب سے مسلسل یہ پروپیگنڈہ کیا جا رہا تھا کہ ساٹھ ستر ارکان اجلاس میں نہیں آئیں گے یہ امیدیں بھی باندھی جا رہی تھیں، چونکہ مسلم لیگ(ن) تقسیم ہو چکی اور اس کے ارکان پارٹی چھوڑنے کی تیاری کر رہے ہیں اِس لئے اپوزیشن کا ترمیمی بِل منظور ہو جائے گا،لیکن یہ ساری امیدیں نقش بر آب ثابت ہوئیں۔جس انداز میں پیپلزپارٹی نے ترمیمی بِل پیش کیا اس سے یہ حقیقت بھی الم نشرح ہو گئی ہے کہ یہ پارٹی اپنے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی پالیسیوں سے ہٹ گئی ہے اگر ایسا نہ ہوتا، تو پیپلزپارٹی اس قانون میں ترمیم کا بِل پیش نہ کرتی جو خود اُس کے بانی نے متعارف کرایا تھا، نواز شریف کے وزارتِ عظمیٰ کے ہٹنے کے بعد مسلم لیگ(ن) نے جب انتخابی اصلاحات کے اُس مسودے کو منظور کرایا، جس کو تمام پارلیمانی پارٹیوں کے نمائندوں پر مشتمل کمیٹی کے طول طویل اجلاسوں میں غور کے بعد حتمی شکل دی گئی تھی تواس میں ایسی شق بھی تھی، جو بھٹو کے بنائے ہوئے قانون سے مطابقت رکھتی تھی۔ پرویز مشرف نے اس قانون کو بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کا راستہ روکنے کے لئے ہی بدلا تھا، کیونکہ وہ یہ یقین رکھتے تھے کہ اب پاکستان میں ان دونوں رہنماؤں کی سیاست ختم ہو چکی ہے انہوں نے لاتعداد مرتبہ اس کا اعادہ کیا کہ پاکستان کی سیاست میں دونوں رہنماؤں کا کوئی کردار نہیں، لیکن حالات نے نہ صرف اُنہیں غلط ثابت کر دیا، بلکہ اُنہیں بے نظیر بھٹو کے ساتھ بھی این آر او کرنا پڑا اور انہوں نے اپنی آنکھوں سے اُن کی پارٹی کو دوبارہ برسر اقتدار آتے اور اُنہیں منصبِ صدارت سے ہٹانے کی راہ ہموار کرتے ہوئے دیکھا، نواز شریف بھی اُن کے ارادوں کو ناکام بنا کر تیسری بار وزیراعظم بن گئے، جب انہوں نے نااہل شخص کو سیاسی منصب سے دور رکھنے کی ترمیم کی تھی تو اُن کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا کہ دونوں رہنما اُن کے ارادوں کو ناکام بنا کر سیاست میں اپنا مقام بنا لیں گے۔
پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کو آج وہی کاٹنا پڑ رہا ہے جو انہوں نے خود بویا تھا، جب 2017ء کا قانون سینیٹ میں منظوری کے لئے پیش کیا گیا تھا تو اسے صرف ایک ووٹ کی اکثریت حاصل ہوئی تھی، تحریک انصاف، پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے ارکان اگر پُراسرار طور پر سینیٹ سے غیر حاضر نہ رہتے تو حکومت سینیٹ سے یہ بل پاس نہیں کرا سکتی تھی،لیکن جب بل پاس ہو گیا تو اپوزیشن جماعتوں کو ہوش آیا،چنانچہ اپنے ہی پاس کردہ بل کے خلاف چند روز بعد سینیٹ نے ایک قرارداد منظور کر لی۔ یہ بھی شاید اپنی جگہ ایک عجوبہ تھا کہ ایوانِ بالا نے ایک بل منظور کیا اور پھر خود ہی اس کے خلاف قرارداد منظور کر لی،اس کے بعد پیپلزپارٹی نے اپنی غلطی کی تلافی کے لئے یہ حل نکالا کہ آرٹیکل 203 میں ترمیم کے لئے نیا بِل لے آئی۔ یہ بل سینیٹ سے تو منظور کرا لیا گیا،لیکن قومی اسمبلی میں منظوری کے لئے جو حکمتِ عملی اختیار کی گئی اس کا تمام تر انحصار اس بات پر تھا مسلم لیگ(ن) کے ارکان یا تو اجلاس میں نہ آئیں اور اگر آئیں تو ووٹنگ میں حصہ نہ لیں، مسلم لیگ(ن) نے جوابی حکمتِ عملی یہ اختیار کی کہ زیادہ سے زیادہ ارکان کو ایوان میں لے آئی، حتیٰ کہ دو بیمار ارکان بھی آ گئے اور ترمیمی بِل کے خلاف 163ووٹ پڑ گئے اور حکومت کو65ووٹوں کی اکثریت سے کامیابی حاصل ہو گئی۔اب بل ناکام ہونے کے بعد مخالف جماعتیں پھر بِلا مقصد شورو غوغا کر رہی ہیں۔نواز شریف کو جس قانون کا فائدہ پہنچ رہا ہے وہ مُلک میں مسلسل25 سال تک نافذ رہا۔ اگر یہ کوئی بُرا قانون تھا تو اِس دوران آنے والی حکومتوں نے جن میں بے نظیر بھٹو کی دو حکومتیں بھی شامل تھیں اِس میں ترمیم کی ضرورت کیوں محسوس نہ کی،اور اب اگر ایسا کیا گیا تو اس کے محرکات کیا ہیں؟، مسلم لیگ(ن) نے ثابت کر دیا کہ اُس کے پاس ایوان میں واضح اکثریت ہے،اِس لئے مخالفین اپنی ناکامی کا اعتراف کر کے اگلے انتخابات کی تیاری کریں اور سانپ نکل جانے کے بعد لکیر پیٹنے کا رویہ اختیار نہ کریں۔