بے لوث قیادت
اسلام آباد میں دھرنا جاری ہے۔ بلوچستان سے لاشیں آ رہی ہیں۔میڈیا پر سیاستدانوں کا پوسٹ مارٹم ہو رہا ہے۔ کرپشن کی ہوشربا داستانیں سنائی جا رہی ہیں۔ مغربی سرحد پر پاکستانی فوج کے جوان دہشت گردوں کی گولیوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔۔ لائن آف کنٹرول پر بھارتی جارحیت کی خبریں معمول کا حصہ بن چکی ہیں۔ اس صورت حال میں پاکستان کے مستقبل کے متعلق سوچنا خاصا تکلیف دہ کام ہے۔
امید کے چراغ روشن ہوتے ہیں تو آندھیاں انہیں گل کرنے کی کوشش کرتی نظر آتی ہیں۔ اپنے ایک گزشتہ کالم میں ہم نے روح قائداعظمؒ کے حوالے سے بتایا تھا کہ پاکستان کو بے لوث اور بے غرض قیادت کی ضرورت ہے۔
ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو اپنے ذاتی مفادات کو پس پشت ڈال کر قومی مفادات کے لئے کام کرے۔قائداعظمؒ نے ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر جدوجہد کی اور پاکستان حاصل کر لیا۔
ان کی وفات کے بعد قیادت ایسے افراد کے ہاتھوں میں گئی جن میں اپنے مفادات سے بالاتر ہو کر سوچنے کی اہلیت ہی نہیں تھی۔ ہمیں اکثر استاد محترم پروفیسر مرزا منور کا یہ قول یاد آتا ہے کہ پاکستان کا مال یتیم کے مال کی طرح ہے اس کو لوٹنا آسان ہے مگر اسے ہضم کرنا بہت مشکل ہے۔
پاکستانی تاریخ بار بار ان کے اس قول کی صداقت پر مہر تصدیق ثبت کرتی نظر آتی ہے۔ ہم اپنی قومی تاریخ میں بے لوث اور بے غرض قیادت کے فقدان کا ماتم کرتے رہے ہیں۔
مگر دنیا کے جن ممالک کو بے لوث اور بے غرض قیادت میسر آئی انہوں نے بے پناہ ترقی کی۔ آج ہم آپ کو سنگاپور کی ترقی کی حیرت انگیز داستان سناتے ہیں۔ جہاں ایک شخص کی بے غرضی اور بے لوثی نے قوم کی تقدیر تبدیل کر دی۔
سنگاپور کو ایشیا کا ٹائیگر کہا جاتا ہے۔ یہ ملک درحقیقت ایک شہر ہے جس کا رقبہ 719 کلومیٹر ہے،جبکہ ہمارے لاہور کا رقبہ 1772 کلومیٹر ہے اور یوں لاہور سنگاپور سے رقبے میں دوگنا سے بھی زائد ہے۔ کچھ ایسی ہی صورت حال آبادی کی ہے۔
سنگاپور کی آبادی تقریباً ستاون لاکھ ہے، جبکہ لاہور کی آبادی تقریباً 112 لاکھ ہے۔ اس چھوٹے سے ملک میں تقریباً 74 فیصد چینی ہیں اس کے علاوہ یہاں ملائی، انڈین اور دوسری قومیتوں کے لوگوں سے بھی ملاقات ہوتی ہے۔
اگر یہاں کے باشندوں کے مذہب پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہاں 31 فیصد بدھ، 20 فیصد عیسائی، 14 فیصد مسلمان، 5 فیصد ہندو موجود ہیں، جبکہ 18.5 فیصد افراد کسی مذہب پر یقین نہیں رکھتے۔مگر یہ مختلف قومیتوں اور مذاہب کے لوگ اپنے آپ کو سنگاپور سے منسوب کرتے ہیں اور کوئی اختلاف جھگڑے کی صورت اختیار نہیں کرتا۔ سنگاپور ایک حیرت انگیز ملک ہے۔
اس کی آبادی اور رقبہ گو لاہور سے بہت کم ہے، لیکن اگر اس کی برآمدات پر نظر ڈالی جائے تو حیرت کا ایک شدید جھٹکا لگتا ہے۔ 2016ء کے اعداد و شمار کے مطابق اس کی برآمدات 329.7 بلین امریکی ڈالر تھیں۔ اس کے مقابلے میں پاکستان کی برآمدات 2016ء میں تقریباً 22 بلین ڈالر تھیں۔
بنگلہ دیش کی برآمدات 34 بلین ڈالر تھیں، جبکہ بھارت نے 264 بلین ڈالر کی برآمدات کیں۔ پاکستان بنگلہ دیش اور بھارت کی مجموعی برآمدات 320 بلین ڈالر ہیں۔ 2016ء میں سنگاپور جیسے ننھے منے ملک نے مجموعی طور پر پاکستان بنگلہ دیش اور بھارت سے تقریباً دس بلین ڈالر زائد برآمدات کیں۔
سنگاپور دنیا میں ترقی کی ایک حیرت انگیز مثال ہے۔ یہ ملک بھی انگریزوں کے زیر تسلط رہا۔ جنگ عظیم میں اس نے بدترین تباہی دیکھی۔ یہاں جاپانیوں نے قبضہ کر لیا اور اس دوران اس کی اکثر عمارتیں کھنڈرات بن گئیں۔
جاپانیوں کے رخصت ہونے کے بعد یہاں ایک افراتفری کا دور آیا۔ بدترین جرائم، انتہائی غربت، بیماریاں، تشدد اس ملک کی پہچان رہے۔ سنگاپور نے ملائشیا کا حصہ بننے کا تجربہ بھی کیا۔ مگر یہاں حالات بہتر نہ ہو سکے۔
سنگاپور نے 1965ء میں آزادی حاصل کی اس کے بعد دنیا نے یہاں حیرت انگیز ترقی دیکھی۔۔ اور پھر اس نے حیرت انگیز ترقی کی۔ اب یہ عالمی مالیاتی مرکز کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ اس شہر میں 5861 بلند و بالا عمارتیں ہیں اور ہائی رائز بلڈنگز کے حوالے سے اسے دنیا کا چھٹا بڑاشہر قرار دیا جاتا ہے۔
آزادی کے بعد اس شہر کے مکینوں نے غربت، جہالت اور بیماری کے خلاف ہی بھرپور جنگ نہیں لڑی ،بلکہ سمندر سے 130 مربع کلومیٹر زمین بھی چھینی جو اس کے رقبے کا 23 فیصد ہے۔ گویا آج تقریباً ایک چوتھائی سنگاپور پر کبھی سمندر تھا۔
سنگاپور تیسری دنیا کا ایک پسماندہ ملک تھا۔ آج ترقی یافتہ ممالک بھی اسے رشک کی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ یہ ایک معجزہ تھا اور یہ معجزہ جس شخص نے کیا اس کا نام لی کیوآن یو ہے۔ وہ ایل کے وائی کے نام سے بھی معرو ف ہے۔
ایل کے وائی سنگاپور کا وزیراعظم تھا۔ اس نے تین عشروں تک حکومت کی اور اس کے دور اقتدار میں وہ کچھ ہوا جس کا تصور کرنا بھی مشکل ہے۔ 3 جون 1959ء سے 28 نومبر 1990 تک لی کیو آن یو وزیراعظم رہا۔
اس کے بعد 1990ء سے 2004ء تک وہ سینئر منسٹر رہا۔ پھر 2011ء تک وہ بطور منٹور (Mentor) وزیر حکومت کا حصہ رہا۔ اس نے 23 مارچ 2015ء کو وفات پائی۔ اپنی زندگی میں اس نے سنگاپور کا وہ عروج دیکھا جس کا وہ خواب دیکھتا رہا تھا۔ ایل کے وائی طویل عرصہ تک اقتدار میں رہا مگر وہ ایک فلیٹ میں رہتا تھا۔ ایک مرتبہ اس سے دریافت کیا گیا کہ وہ امیر کیوں نہیں ہے اور اس نے دولت کیوں اکٹھی نہیں کی۔
اس پر اس نے کہا کہ جب میں نے ملک کی بھاگ ڈور سنبھالی تو میرے پاس دو آپشن تھے یا میں امیر ہو جاتا اور یا میرا ملک امیر ہو جاتا۔ میں نے اپنے ملک کو امیر بنانے کا فیصلہ کیا۔ آج میں امیر نہیں ہوں مگر میرا ملک امیر ہے۔
ایل کے وائی کی پالیسیاں اب بزنس کے اعلی تعلیمی اداروں میں پڑھائی جاتی ہیں۔ بہت سے ملک اس سے راہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ مگر سچی بات تو یہ ہے کہ حالیہ عالمی تاریخ میں کسی ملک کو ایل کے وائی جیسا بے لوث اور بے غرض لیڈر نہیں ملا۔
کہا جاتا ہے کہ ایک سابق پاکستانی وزیراعظم ایل کے وائی کے پاس گئے اور انہوں نے کہا کہ وہ پاکستان کو ترقی یافتہ ملک بنانا چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں انہیں ان کا مشورہ درکار ہے۔ اس پر سنگاپور کے وزیراعظم نے کہا کہ آپ مطلوبہ ترقی نہیں کر سکتے۔
اس کی وجوہات بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آپ اور آپ کی قوم اس دنیا کو بہتر بنانے پر یقین نہیں رکھتی۔ آپ کے ایمان کے مطابق دوسری دنیا اہم ہے جو مقصد آپ کے ایمان کا حصہ ہی نہیں ہے وہ مقصد آپ کیسے حاصل کر سکتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ کسی زمانے میں وہ بمبئی میں وکیل تھے۔
ان کے پاس جب کوئی ہندو آتا تھا تو وہ اسے بتاتے تھے کہ اس کا قانونی مقدمہ نہیں بنتا۔ اس لئے وہ اپنے مسئلہ کے حل کے لئے کوئی دوسرا راستہ تلاش کرے۔ ہندو اس کے مشورے کو مان جاتے تھے مگر جب وہ یہی مشورہ کسی مسلمان کو دیتے تھے تو مسلمان کہتا تھا کہ آپ اس کی فکر نہ کریں کہ مقدمہ بنتا ہے یا نہیں۔ آپ صرف مقدمہ دائر کر دیں تاکہ نہ صرف فریق مخالف، بلکہ اس کی اولاد بھی یہ مقدمہ لڑے۔
سنگاپور کی خوش قسمتی تھی کہ اسے ایل کے وائی جیسا لیڈر ملا جسے دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپانیوں سے ذلت کا بدترین تجربہ ہوا تھا۔ اور موت کے منہ سے بال بال بچا تھا۔ جو زندگی کی حقیقت کو سمجھ گیا تھا۔۔
اور سرسید کی طرح وہ بھی جانتا تھا کہ کسی فرد کو دنیا میں اس وقت تک عزت حاصل نہیں ہو سکتی، جب تک اس کا ملک باعزت نہ ہو۔ پاکستان میں لوگ ملک کو بے عزت کرکے عزت حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ مگر اس میں انہیں کامیابی حاصل نہیں ہوتی۔
وطن عزیز کے مسائل کی وجہ بے لوث قیادت کا فقدان ہے۔ اور اس سلسلے میں مایوسی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اشفاق احمد مرحوم کہا کرتے تھے کہ اگر مایوسی بہت زیادہ ہو جائے تو تہجد کے وقت اٹھ کر اﷲ تعالی سے دعا کرنی چاہیے۔
ہم اپنے قارئین سے بھی یہی گزارش کریں گے کہ آج پھر وقت دعا ہے اور ہمیں تہجد کے وقت اٹھ کر پاکستان کے لئے بے غرض اور بے لوث قیادت کی دعا ضرور کرنی چاہیے۔