قائمہ کمیٹی پارلیمانی امور، سیاسی جماعتوں کے انداراج کی فیس 20لاکھ، سالانہ فیس 5لاکھ کرنے کی سفارش
اسلام آباد (آئی این پی) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور نے الیکشن کمیشن کوسیاسی جماعتوں کے اندراج کی فیس 2لاکھ کی بجائے 20لاکھ اور سالانہ فیس 5لاکھ کرنے ،10سالوں میں ایک بھی بلدیاتی سیٹ نہ جیت سکنے والی جماعت کی رجسٹریشن ختم کر نے کی سفارش کر دی جبکہ کمیٹی ارکان نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی انکم کا کوئی ذریعہ نہیں ہے، بجٹ ہو گا تو یہ کچھ کرسکتے ہیں،سیاسی جماعتوں سے 5لاکھ روپے سالانہ فیس لینی چاہیے، فاٹا کو بھی خواتین کی مخصوص نشستوں کا کوٹہ ملنا چاہئے۔بدھ کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور کا اجلاس چیئرمین پرسن شذرہ منصب کی زیر صدارت ہوا۔جس میں الیکشن کمیشن حکام کی جانب سے بریفنگ میں بتایا گیا کہ الیکشن ایکٹ 2017میں الیکشن کمیشن کو اختیارات دیئے گئے ہیں کہ وہ فنڈز کو خرچ کر سکتا ہے اور اپنے لئے قواعد بنا سکتا ہے۔الیکشن کمیشن حلقہ بندیوں، انتخابی فہرستوں کی نظرثانی سمیت دیگر امور کے حوالے سے چار مہینے پہلے حکومت کو آگاہ کرے گا۔ الیکشن کمیشن حکام نے کہا کہ حلقہ بندیوں کے حوالے سے سارا کام کرلیا ہے،حلقہ بندیوں کیلئے عملہ تیار ہے جبکہ ہم نے بہت سارے انتخابی نشان نکال دیئے ہیں، جس پر رکن کمیٹی میاں طارق نے کہا کہ یہ لسٹ ہمیں بھی دی جائے کہ کون سے نشانات نکالے گئے ہیں۔میاں طارق نے کہا کہ سیاسی پارٹی کے اندراج کی رقم ناکافی ہے، 2 لاکھ کچھ بھی نہیں ہے اس رقم کو بڑھانا چاہیے، کم از کم 20 سے 30لاکھ روپے تک رقم ہونی چاہیے، کسی بھی پارٹی کے پاس 2لاکھ کی کمی نہیں۔ جس پر چیئرپرسن کمیٹی نے الیکشن کمیشن حکام کو ہدایت کی کہ اس معاملے میں ترمیم لائیں اور کمیٹی کو لا کر دیں، کم از کم 20لاکھ روپے سیاسی پارٹی کے اندراج کیلئے ہونے چاہئیں۔ اس موقع پر پی آئی اے کے قائمقام چیئرمین کی جانب سے بریفنگ میں بتایا گیا کہ فلائٹ میں تاخیر کی مختلف وجوہات ہوتی ہیں،دھند کی وجہ سے تاخیر ہو تو پہلے ہی بتا دیا جاتا ہے کہ فلائٹ تاخیر کا شکار ہے، ٹیکنیکل تاخیر کی وجہ سے مسافروں کو سہولیات دی جاتی ہیں۔ جس پر رکن کمیٹی شازیہ صوبیہ نے کہا کہ ہمیں 4بجے سے رات 11بجے تک ایئرپورٹ پر فلائٹ کا انتظار کروایا گیا لیکن ہمیں کسی بھی قسم کی کوئی سہولیات فراہم نہیں کی گئیں۔ قائمقام چیئرمین پی آئی اے نے کہا کہ پی آئی اے نیویارک کا روٹ پچھلے دس سالوں سے خسارے میں جا رہا تھا اس لئے اسے بند کیا گیا، جس پر میاں طارق نے کہا کہ آپ ہی استعفیٰ دے دیتے، پی آئی اے کا بیڑہ غرق ہو گیا ہے، آپ کو کہہ دینا چاہیے کہ میں اہل ہی نہیں اس لئے کچھ نہیں کر سکتا۔ چیئرمین پی آئی اے نے کہا کہ میرے پاس ایڈیشنل ذمہ داریاں ہیں،میں اس کی تنخواہ نہیں لیتا، میں حکومت کا ملازم ہوں۔