پی ٹی آئی پی پی20ضمنی الیکشن کے ٹکٹ تقسیم کی اندرونی کہانی سامنے آگئی

پی ٹی آئی پی پی20ضمنی الیکشن کے ٹکٹ تقسیم کی اندرونی کہانی سامنے آگئی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

چکوال(ڈسٹرکٹ رپورٹر) پاکستان تحریک انصاف کے حلقہ پی پی20کے ضمنی الیکشن کے ٹکٹ کی تقسیم کی اندرونی کہانی سامنے آئی ہے۔ علی ناصر بھٹی آخری وقت تک فیورٹ تھے اور پارٹی کی ہائی کمان نے علی ناصر بھٹی کو گرین سگنل دے رکھاتھا جس کی وجہ سے انہوں نے اپنی انتخابی مہم بھی شروع کر رکھی تھی اور کئی پارٹی سے ہٹ کر دیگر ہم خیال سیاسی قوتوں کی حمایت بھی حاصل کر رکھی تھی۔ معلوم ہوا ہے کہ پارٹی کے تھنک ٹینک کو یہ بریفنگ دی گئی تھی کہ سردار اشرف خان مرحوم جو ہمیشہ مسلم لیگ ن کیخلاف پاکستان پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑتے رہے ہیں ہیں وہ حلقہ پی پی20اور این اے ساٹھ میں ہمیشہ تیس سے ساٹھ ہزار تک ووٹ حاصل کرتے رہے ہیں اور ان کا ایک اپنا ذاتی اور برادری کا ووٹ بینک بھی تھا۔ 1997کے الیکشن میں سردار اشرف خان نے الیکشن میں حصہ نہیں لیا جس پر چک عمرا کے امان اللہ خان کو پیپلز پارٹی نے ٹکٹ جاری کیا مگر بعد ازاں کچھ دنوں کے بعد راجہ منور احمد کو یہ ٹکٹ دے دیا گیا۔ راجہ منور احمد نے اس الیکشن میں پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم پر تیس ہزار ووٹ لیے تھے اور اس الیکشن میں سردار اشرف کے ووٹ بینک کو کافی دھچکا لگا تھا اور پھر2002کے جنرل مشرف کے انتخابات میں یہ ووٹ دوبارہ سردار خرم نواب کی صورت میں بحال ہوا اور انہوں نے 43ہزار ووٹ لیکر سب کو حیران کر دیا ۔ سردار خرم نواب سردار اشرف مرحوم کے بھتیجے تھے۔ 2008کے الیکشن میں پاکستان پیپلز پارٹی نے سردار خرم نواب کو ہی ٹکٹ دیا مگر وہ آخری لمحے میں چھلانگ لگا کر پی پی22کے مسلم لیگ ق کے امیدوار بن گئے جس پر ہنگامی طور پر فوزیہ بہرام کو این اے ساٹھ کا الیکشن لڑنے کا حکم دیا گیااس دوران میں بے نظیر بھٹو کی شہادت بھی ہو چکی تھی۔ فوزیہ بہرام نے27ہزار جبکہ پی پی20میں پیپلز پارٹی کے امیدوار شاہ جہان سرفراز راجہ جو کہ سردار اشرف مرحوم کے رشتہ دار ہیں انہوں نے 27ہزار ووٹ حاصل کیا اور اس میں زیادہ تر ووٹ سردار اشرف خان مرحوم کا تھا۔ 2013کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے امیدوار راجہ ثناء الحق تھے جو بمشکل 11ہزار ووٹ حاصل کر سکے البتہ پاکستان تحریک انصاف کے راجہ یاسر سرفراز جو کہ پہلی بار الیکشن میں سامنے آئے انہوں نے47ہزار ووٹ لیکر سب کو حیران کیا اور سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ اس میں زیادہ تر ووٹ سردار اشرف خان مرحوم کے تھے کیونکہ راجہ یاسر سرفراز بھی سردار اشرف مرحوم کے قریبی رشتہ دار ہیں۔ اس تمام سیاسی پس منظر میں پی ٹی آئی کے تھینک ٹینک نے سر جوڑے اور علاقہ لنڈی پٹی کے ماضی کے نتائج کے بھی اعداد وشمار جمع کیے تو اس میں یہی بات سامنے آئی کے لنڈی پٹی ہمیشہ مسلم لیگ کا مضبوط قلعہ ہے لہٰذا اس قلعے میں دراڑ ڈالنے کیلئے علاقہ لنڈی پٹی کے سیاسی خاندان کے چشم و چراغ راجہ طارق افضل کالس کو موقع دیا جائے کیونکہ راجہ طار ق افضل کالس کی سرداران چکول سے قریبی رشتہ داری ہے لہٰذا وہ امیدوار بنے تو یقیناًسرداران چکوال کے موجودہ ووٹ بینک میں کافی توڑ پھوڑ ہوگی۔ بہرحال پاکستان تحریک انصاف کی ایک سمارٹ موو ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ راجہ طارق افضل کالس کس انداز میں سردار اشرف خان کے ووٹ بینک کے علاوہ سردران چکوال کے ووٹ بینک پر کتنا اثر انداز ہوتے ہیں اور اسی وجہ سے علی ناصر بھٹی اور چوہدری تیمور علی خان ایڈووکیٹ کو پیچھے ہٹا دیا گیا ہے۔ اُدھر معلوم ہوا ہے کہ مسلم لیگ ن کے کیمپوں میں راجہ طارق افضل کی نامزدگی پر ملا جلا رد عمل سامنے آیا ہے۔ سلطان حیدر کیمپ کے تھینک ٹینک کے مطابق علی ناصر بھٹی ان کیلئے آسان امیدوار تھے حالیہ بلدیاتی انتخابات میں علی ناصر بھٹی کو چکوال شہر کے تمام وارڈوں میں مسلم لیگ ن کے امیدواروں نے واضع اکثریت سے شکست دی۔ اس وقت سردار غلام عباس بھی مسلم لیگ ن مخالف تھے اب سردار غلام عباس بھی مسلم لیگ ن میں ہیں لہٰذا علی ناصر بھٹی کو شکست دینا مشکل نہیں تھا۔ البتہ راجہ طارق افضل کالس کے حوالے سے یقیناًحیدر سلطان کیمپ میں کچھ شکنیں ضرور ابھری ہیں ، سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ راجہ طارق افضل کالس حیران کن طور پر چوہدری حیدر سلطان کا بھرپور مقابلہ کریں گے۔