دیار رسول ﷺمیں بیتے ہوئے لمحات
حصہ پنجم
میں تو اکثر کہتا ہوں کہ اپنے آپ کو خود غرض بنائیں۔ ایک تو اپنے لیے صدقہ جاریہ ضرور چھوڑیں۔ اپنی اولاد کے لیے جائداد بنائیں‘ مال ومنال چھوڑیں، اس سے کوئی منع نہیں کرتا، مگر یہ ضرور دیکھیں کہ اپنی ذات کے لیے ہم نے کیا چھوڑا ہے؟ قرآن کریم کہتا ہے: قیامت کے روز انسان حسرت کے سمندر میں ڈوب کر کہے گا یَا لَیْتَنِي قَدَّمْتُ لِحَیَاتِي ’’کاش میں نے آخرت کی زندگی کے لیے کچھ آگے بھیجا ہوتا۔‘‘
آج سے 87سال پہلے اس وقت کے امام کعبہ شیخ عبدالظاہر ابو سمح نے شاہ عبدالعزیز بن عبدالرحمن آل سعود کوایک خط لکھا کہ ہم اس بلد امین میں ایک مدرسہ کھولنا چاہتے ہیں جس کا نام دارالحدیث ہو گا۔ اس مدرسہ میں طلبہ کو حدیث اور دیگر علوم دینیہ پڑھائے جائیں گے۔ شاہ عبدالعزیز نے یہ مدرسہ قائم کرنے کی اجازت بخوشی دے دی۔ ہندوستان کے اہل حدیثوں کی خواہش تھی کہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں دونوں جگہ دارالحدیث ہوں جہاں پر دیگر علوم کے ساتھ حدیث کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی جائے۔ چونکہ دونوں مقامات مسلمانوں کے مقدس ترین مقامات ہیں۔ دونوں ہی مہبط الوحی ہیں۔ اسلام کی شعائیں مکہ مکرمہ سے پھوٹیں اور پھر مدینہ طیبہ سے پوری دنیا تک پھیل گئیں۔ دونوں مقامات منارہ نور ہیں۔ لہٰذا دونوں مقدس شہروں میں دارالحدیث کی بنیادیں رکھی گئیں ۔ سعودی طلبہ کے علاوہ دیگر ممالک کے طلبہ کو بھی داخلے دیے گئے۔ دارالحدیث مدینہ منورہ کے بارے میں کبھی علیحدہ سے تفصیل کے ساتھ ان شاء اللہ لکھوں گا۔ فی الحال میرے سامنے مکہ مکرمہ کا وہ دارالحدیث ہے جس کی تعمیر میں نہ صرف شیخ عبدالظاہر ابو سمح نے حصہ لیا ،بلکہ ان کے ساتھ شیخ محمد نصیف شیخ محمدطاہرکردی‘ شیخ محمد عبدالرزاق اور شیخ عبدالوہاب دہلوی جیسی شخصیات بھی شامل تھیں۔ مختصر سا ذکر شیخ عبدالظاہر ابو سمح کا اور پھر ہم آگے بڑھیں گے۔
حصہ چہارم پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
شیخ عبدالظاہر ابو سمح مصر میں 1300ہجری میں پیدا ہوئے۔ ان کا گھرانہ مذہبی اور قرآن پاک سے خوب محبت کرنے والا تھا۔ بچپن میں ہی محض نو سال کی عمر میں اپنے والد سے قرآن پاک حفظ کر لیا۔ اس کے بعد جامع ازہر سے تعلیم حاصل کی۔ اس زمانے میں شیخ رشید رضا کا خوب چرچا تھا۔ ان کا مجلہ ’’المنار‘‘ بڑی شہرت کا حامل تھا۔ شیخ رشید رضا نے دارالدعوہ کے نام سے ایک مدرسہ بنایا تھا۔ مصر میں سلفی دعوت کو پھیلانے میں شیخ رشید رضا اور دارالدعوہ کا بڑا حصہ ہے ۔ شیخ عبدالظاہر کچھ عرصہ تک وہاں قرآن کریم تجوید کے ساتھ پڑھتے اور پڑھاتے بھی رہے۔
اسی دوران ان کی شادی ہوگئی اور وہ اسکندریہ منتقل ہو گئے، وہاں لوگوں کو عقیدہ توحید کی دعوت کا کام شروع کیا۔ اللہ تعالیٰ نے زبان میں خوب تاثیر دی ہوئی تھی۔ قرآن پاک کی تلاوت کرتے تو دلوں کے زنگ اترنے لگتے۔ اللہ تعالیٰ نے بڑی خوبصورت اور بلند آواز سے نوازا تھا۔ ہزاروں لوگوں نے ان کے ہاتھ پر شرک و بدعت سے توبہ کی اور سلفی منہج کو اختیار کیا۔
مصر کے صوفیاء نے جب ان کی دعوت کو پھیلتے دیکھا تو ان کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنا شروع کیں۔ مقدمات قائم کیے، معاملہ عدالتوں تک پہنچا، مگر یہ اللہ کا بندہ مضبوط چٹان کی طرح عقیدہ توحید پر قائم رہا۔ انہی ایام میں شاہ عبدالعزیز آل سعود کی قیادت میں سعودی حکومت قائم اور مضبوط ہو چکی تھی۔ 1345ہجری میں انہیں شاہ عبدالعزیز نے مکہ مکرمہ میں ایک کانفرنس میں آنے کی دعوت دی۔ چنانچہ پہلی مرتبہ یہ بلد حرمین کی سرزمین پر تشریف لائے۔ قرآن پاک پر عمل کرنے کی بدولت اللہ تعالیٰ اقوام اور افراد کو سربلندی اور اونچا مقام عطا فرماتا ہے۔
شاہ عبدالعزیز نے ان کا قرآن سنا تو بڑے متاثر ہوئے؛ چنانچہ انہیں حرم مکی کی امامت کی پیش کش کی جو انہوں نے بڑی خوشی سے قبول کر لی۔ حرم مکی کے ائمہ میں ایک خوبصورت آواز کا اضافہ ہو گیا۔
شاہ عبدالعزیز ان کی بہت زیادہ قدر کرتے تھے۔ شیخ عبد الظاہر بڑے ہی خوبصورت اور حسن کا مرقع تھے۔ اونچا لمبا قد‘ اور ساتھ ہی خوبصورت اور بلند آواز‘ یہ ساری نعمتیں اور فضل اللہ تعالیٰ کا خاص عطیہ تھا۔
قارئین کرام پوچھیں گے کہ کیا تم نے انہیں دیکھا ہے جو تم لکھ رہے ہو کہ وہ اونچے لمبے قد کے خوبصورت نوجوان تھے؟ میرا حافظہ مجھے آج سے کم و بیش تیس سال پیچھے لے گیا ہے۔ میں نے سعودی وزارۃ الدفاع میں بحیثیت خطاط کم و بیش گیارہ سال تک کام کیا ہے۔ میں طیران الجیش میں تھا۔ ہمارے کمانڈر سمو الامیر فیصل بن محمد تھے۔ بڑی عظیم شخصیت‘ کیا ہی خوبصورت سڈول جسم‘ لمبا قد ‘ چہرہ پر سرخی چھائی رہتی ادارے میں تشریف لاتے تو ہر طرف رونق چھا جاتی۔ انہیں بھی خطاطی سے بڑی دلچسپی تھی۔ اس لیے مجھ سے بڑی محبت کرتے تھے۔وزارۃ الدفاع میں فوجی افسران کے شناختی کارڈ ان دنوں ہاتھ سے لکھے جاتے تھے۔ اس کے لیے میرے جیسے خطاط کی خدمات لی جاتی تھیں۔ کمپیوٹر تو بہت بعد میں آئے۔ ایک کارڈ کی خطاطی پر کوئی پانچ منٹ لگتے ہوں گے۔ میرے آباء و اجداد اسی فن سے تعلق رکھتے تھے۔ میں تب سے بڑی خوبصورت کتابت کر لیتا تھا۔ اسی طرح سمجھ لیں جس طرح کمپیوٹر سے لکھائی ہو۔ ایک دن کوریڈورمیں سموالامیر کی آواز سنائی دی۔ ان کا رخ میرے کمرے کی طرف تھا۔ میں نے دروازے میں دو شخصیتوں کو آتے دیکھا۔ ان میں ایک تو سموالامیر فیصل بن محمد تھے اور دوسرے بریگیڈیر سہیل بن عبدالظاہر ابو سمح تھے۔ دونوں فوجی وردی میں ملبوس تھے۔ راقم الحروف نے تاریخ بہت پڑھی ہے۔ جب میں تاریخ اسلامی کے ہیروز کو پڑھتا تو سوچتا کہ ان کی شکل و صورت کیسی ہو گی۔ وہ فوجی لباس میں کیسے لگتے ہوں گے؟!
میرے ذہن میں ایسے لوگوں کا ایک تصور تھا کہ وہ چھ فٹ کے اونچے لمبے ہوں گے۔ نوجوان ‘ خوبصورت چہرے مہرے کے مالک ہوں گے۔ میں نے جیسے ہی بریگیڈیر سہیل کو دیکھا میرے تصور میں جو ایک اسلامی کمانڈر کا تصور تھا وہ پورا ہو گیا۔ اپنی زندگی میں اتنی خوبصورت شخصیت بہت کم دیکھی ہو گی۔ میں ان کو دیکھتا ہی رہ گیا۔ مجھے امیر فیصل نے بتایا کہ میں نے ان کا کارڈ لکھنا ہے۔ وہ تو فوراً چلے گئے اور میرے دل و دماغ میں اپنی شکل و صورت چھوڑ گئے۔ ان کا تصور آج تک باقی ہے۔
دارالسلام کے آغاز میں ریاض میں ہم نے جس پریس سے کام کروانا شروع کیا اس کا نام مطبع سفیر ہے۔ اس وقت یہ پریس اپنے کوالٹی کام کی وجہ سے بڑا مشہور تھا۔ قدرے مہنگا تھا، مگر تنظیم و ترتیب اور وعدہ کی پاسداری کے اعتبار سے نمبر ون تھا۔ مجھے کام کا بڑا شوق تھا۔ کم و بیش ہر روز اس پریس میں جایا کرتا تھا۔ دن کے ڈھائی بجے گھر سے نکلتا آدھا گھنٹہ لگ جاتا۔ وہاں کے پریس منیجر یمن کے ابو احمد صالح ہیں۔ میں سیدھا ان کے پاس جاتا‘ گھنٹہ بھر بیٹھتا ‘ ٹھنڈا پانی پیتا‘ چائے کا کپ لیتا‘ پھر پروف دیکھتا‘ ریٹ لیتا‘ یا پیسے ادا کرتا۔ پریس کے مالک سے کم ہی ملاقات ہوتی نہ ہی مجھے ان کی خاص ضرورت تھی۔ سارا کام استاذ صالح سے ہو جاتا۔ وہی ساراکام کرواتا تھا۔ اور پھر ایک دن میری ملاقات سفیر پریس کے مالک جناب محمود ابو سمح سے ہو گئی۔ یہ عظیم شخصیت امام کعبہ شیخ عبدالظاہر کے صاحبزادے ہیں۔ ان کا قد کاٹھ خوبصورتی‘ چہرے پر سرخی‘ ذہانت ‘ فطانت‘ ماشا ء اللہ کیا خوبصورت شخصیت ہیں۔ اس وقت بڑھاپے کے آثار تھے، مگر اس کے باوجود بڑے ہی محنتی اور اپنے کام پر خوب کنٹرول رکھنے والے تھے۔ پھر میری ان سے دوستی بڑھتی چلی گئی۔ حالات نے پلٹا کھایا دارالسلام کا کام بہت بڑھ گیا اور ہم نے بیروت میں کام کروانا شروع کر دیا جہاں کے ریٹ ریاض کے مقابلہ میں ارزاں تھے۔
تاہم میرے لیے اعزاز ہے کہ میں امام کعبہ شیخ عبدالظاہر ابو سمح سے براہ راست ملاقات یا علم تو نہ حاصل کر سکا‘ مگر ان کے بیٹوں سے ملاقات ضرور ہو گئی۔
قارئین کرام! آج مجھے اس دارالحدیث میں اپنے بیٹے محمد مجاہد کو داخل کروانے کا مرحلہ در پیش تھا۔ اللہ کا شکر ہے کہ دارالحدیث مکہ مکرمہ میں اس کا داخلہ ہو گیا ہے۔ اسے کتب مل گئی ہیں‘ وہ اب وہاں تعلیم حاصل کر رہا ہے۔اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ اگلے برس وہ دار الحدیث مدینہ طیبہ میں شفٹ ہو جائے گا۔ دارالحدیث کا منہج بڑا قوی اور مضبوط ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ بیٹے محمد مجاہد کو دین کی خدمت کے لیے قبول فرما لے۔ دار الحدیث میں اس کے داخلے سے میری زندگی کی آخری خواہش بھی پوری ہو گئی ہے۔و الحمدللہ علیٰ ذلک۔
(جاری ہے )
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔