ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 19
ایوب سلطان مسجد
ہم کھانے سے فارغ ہوئے تو عشا کی اذان ہوگئی۔ہم پیدل چلتے ہوئے مسجد میں پہنچے ۔ خواتین الگ ہوگئیں اور میں اپنے بچے سمیت مسجد کے مرکزی ہال میں ہونے والی جماعت میں شامل ہو گیا۔یہ وہی تاریخی ترکی طرز کی مسجد تھی۔ یعنی ایک مرکزی ہال جس پر ایک بڑ ا سا گنبد بنا ہوا تھا۔ وہی خوبصورت نقش و نگار اور وہی بڑ ے بڑ ے فانوس۔
مرکزی ہال کے بالمقال حضرت ابو ایوب انصاری کا مزار تھا۔یہ اپنی ذات میں ایک الگ عمارت تھی جس کا دروازہ باہر سے تھا۔ جبکہ مسجد کے اندر ایک جالی دار کھڑ کی کے سامنے کھڑ ے لوگوں کو دیکھ کر اندازہ ہو گیا کہ یہی ان کی قبر کی جگہ ہے ۔یہ ترکوں کے لیے مقدس ترین مقام ہے ۔ چنانچہ ہر وقت لوگ یہاں موجود رہتے ہیں ۔اور لوگوں کے ساتھ ایک نیا شادی شدہ جوڑ ا بھی موجود تھا۔دلہن لباس عروسی میں تھی اور دولہا بھی دولہا بن کر ہی آیا تھا۔غالباً یہ دونوں اپنی نئی زندگی کے آغاز پر حصول برکت کے لیے آئے تھے ۔
ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 18 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
مسجد کے دروازے کے برابر میں ابن اثیر کی مشہور کتاب اُسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ جو صحابہ کرام کی زندگی کے بارے میں ایک نوعیت کا انسائیکلو پیڈیا ہے ، سے ایک عربی عبارت حضرت ابو ایوب انصاری کے بارے میں درج تھی۔ جس میں قسطنطنیہ پر مسلمانوں کے پہلے حملے اور اس میں آپ کی وفات کے بعد یہاں آپ کی تدفین کا واقعہ بیان ہوا تھا۔ میں نے اپنے بیٹے کو عبارت کا ترجمہ سنایا۔ پھر آسان زبان میں صحابی رسول کے متعلق بتایا۔اس کا معصوم دماغ ابھی تک یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ نماز ختم ہونے کے بعد بھی اتنی دیر سے ہم یہاں کیوں کھڑ ے ہیں ۔
قسطنطنیہ اور مسلمان
حدیث کی مختلف کتابوں میں ایک صحیح روایت اس طرح آتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت کا وہ پہلا شخص جو قیصر کے شہر پر حملے کرے گا، اس کی مغفرت کر دی گئی۔ اس بشارت کی وجہ سے جب پہلی دفعہ حضرت امیر معاویہ کے زمانے میں مسلمانوں کا لشکر قسطنطنیہ کے لیے روانہ ہوا تو اس میں جلیل القدر صحابہ کرام اور شخصیات شامل تھیں ۔ جن میں سیدنا حسین ، حضرت عبداللہ بن زبیر، حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت عبداللہ ابن عمر کے علاوہ حضرت ابو ایوب انصاری بھی شامل تھے ۔
حضرت ابو ایوب انصاری کو اللہ تعالیٰ نے یہ سعادت عطا کی تھی کہ مکہ کا بدرکامل اور آفتاب ہدایت جب مدینہ کی سرزمین پر طلوع ہوا تو اس مینارہ نور ہستی کی میزبانی کا شرف آپ ہی کو نصیب ہوا۔ اسی نسبت سے آپ میزبان رسول کہلائے ۔قسطنطنیہ پر حملہ کرنے والے اس پہلے لشکر کا شہرہ ہوا تو دیگر جلیل القدر صحابہ کرام کے ہمراہ آپ بھی اس سعادت میں حصہ لینے کے لیے روانہ ہوئے ۔ یہ 48ہجری کا واقع ہے جب آپ کی عمر 80برس کے قریب تھی۔
یہ ایک انتہائی سخت اور مشکل مہم تھی۔ منزل دور، بحری راستہ، موسم سخت اور سامنے قسطنطنیہ کا ناقابل تسخیر شہر۔مگر حوصلہ اور عزم جوان تھا چنانچہ آپ نے پوری ہمت سے لشکر کا ساتھ دیا ۔ تاہم محاصرہ طویل ہوا اور اسی دوران میں علیل ہوگئے ۔ بوقت انتقال آپ نے سالار قافلہ کو یہ وصیت کی کہ مجھے دشمن کی سرزمین میں جہاں تک ممکن ہو اندر جا کر دفن کرنا۔چنانچہ مسلمانوں کے لشکر نے آپ کو شہر کی دیوار کے پاس دفن کیا۔قسطنطنیہ تو اس حملے میں فتح نہ ہو سکا مگر اہل ترکی کو یہ شرف حاصل ہو گیا کہ وہ تاقیامت میزبان رسول کے جسدِ خاکی کی میزبانی کریں ۔(جاری ہے)
ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 20 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں