فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز...قسط نمبر 280

فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز...قسط نمبر 280
فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز...قسط نمبر 280

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

وہ زمانہ میرٹ کی قدردانی کا تھا۔ کسی سفارش کے بغیر خداداد صلاحیتوں کی بنا پر انہیں ایک گرامو فون ریکارڈ تیار کرنے والی کمپنی میں ملازمت ملی تو جیسے ان کی دلی مراد بر آئی۔ لاہور میں کئی گراموفون کمپنیاں اس زمانے میں مصروف کار تھیں۔ نوجوان غلام حیدر نے اپنی کمپنی کیلئے کچھ ایسی دھنیں بنائیں کہ جو عوام و خواص دونوں میں بے پناہ مقبول ہوئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ ماسٹرغلام حیدر بن گئے اور ہرطرف ان کا چرچا ہوگیا۔ اُمراضیا بیگم کی آواز میں انہوں نے ایک نعت ریکارڈ کی جو چشم زدن میں سارے ملک میں مقبول ہوگئی۔ کیاہندو، مسلمان، ہر کوئی اس نعت کو پڑھتا پھرتا تھا اور سردھنتا تھا۔
پیغام صبا لائی ہے سرکارِ نبی ﷺ سے
آیا ہے بلاوا مجھے دربارِ نبی ﷺ سے

فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز...قسط نمبر 279 پڑھنے  کیلئے یہاں کلک کریں
یہ نعت آج بھی لوگوں کو یاد ہے۔ نہایت آسان طرز، عام فہم اور دل میں اتر جانے والے الفاظ، امراضیا بیگم کی پُردرد آواز اور اس پر ماسٹرغلام حیدر کی دلوں میں اُتر جانے والی کمپوزیشن۔ بس پھر کیا تھا، یہاں سے وہاں تک اس نعت کی دھوم مچ گئی۔ اس سے پہلے بھی ان کے بنائے ہوئے چند اردو اور پنجابی نغمے بہت مقبول ہوئے تھے مگر اس نعت کی وجہ سے ان کا نام ہر ایک زبان تک پہنچ گیا۔ وہ کافی عرصے تک امراضیا بیگم کی محبت میں گرفتار رہے بعد میں پھر انہوں نے گلوکارہ امرا ضیا بیگم سے شادی کرلی تھی اور ساری عمربہت اچھّی، خوش و خرّم اور کامیاب ازدواجی زندگی بسر کی۔ ماسٹرجی کی ایک اور بیوی بھی تھیں جو وہابی خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔اس نعت نے ایسی برکت پیدا کی کہ ماسٹرغلام حیدر پرشہرت اور ترقیّوں کا دروازہ کُھل گیا۔
اس کے کچھ عرصے بعد شمشاد بیگم کی آواز میں ان کی ترتیب دی ہوئی ایک نظم نے تہلکہ مچا دیا۔
اک بار پھر کہو ذرا
کہ میری ساری کائنات
تیری اک نگاہ پر نثار ہے
ماسٹر جی کی شُہرت خوشبو کی طرح پھیلی تو فلم سازوں کے کانوں تک بھی ان کا نام اور کام پہنچ گیا۔ سیّد امتیاز علی تاج نے ’’سورگ کی سیڑھی‘‘(جنت کی سیڑھی) کے نام سے فلم بنائی تو موسیقی ترتیب دینے کیلئے ماسٹرغلام حیدرکا انتخاب کیا۔ یہ فلم لاہور میں بنائی جانے والی ابتدائی اردو فلموں میں سے ایک تھی۔ گرامو فون کمپنی میں ماسٹر جی کے موزوں کئے ہوئے بہت سے پنجابی نغمے بھی بہت مقبول ہوئے تھے مگر اُردو نغموں کی شہرت بھی کم نہ تھی ۔’’سورگ کی سیڑھی‘‘ ماسٹرغلام حیدرکو کامیابی کی منزل تک نہ پہنچا سکی کیونکہ یہ فلم کامیاب نہیں ہوئی تھی۔
صحیح معنوں میں ماسٹرغلام حیدرکی شہرت کا آغاز لاہور کے فلم ساز سیٹھ دل سکھ پنچولی کی پنجابی فلم ’’گل بکاؤلی‘‘ سے ہوا تھا۔ اتفاق یا حُسن اتفاق سے ایک نئی اور نو عمر گلوکارہ، بے بی نورجہاں نے بھی اس فلم سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھا۔ آگے چل کر بے مثال مغنیّہ کے طور پر انہوں نے ساری دنیا کو اپنی آواز اور گائیکی سے مسحور کرلیا۔ یہ ملکہ ترنم نورجہاں کی پہلی فلم تھی جس میں انہیں نہایت کم عمری میں ماسٹر غلام حیدر جیسے موسیقار کی زیر ہدایت گانے کا موقع ملا اور انہوں نے حق ادا کردیا۔ نورجہاں کا گایا ہوا نغمہ۔۔۔ ’’شالا جوانیا مانے‘‘۔ اس قدر مقبول ہوا کہ اس کے گراموفون ریکارڈ ہاتھوں ہاتھ فروخت ہونے لگے۔ اس کے ساتھ ہی ماسٹرغلام حیدراور نئی گلوکارہ کی شہرت دیکھتے ہی دیکھتے آسمان تک پہنچ گئی۔
ماسٹرغلام حیدرکی دوسری پنجابی فلم’’یملا جٹ‘‘ تھی۔ پہلی فلم کی طرح اس فلم کے گیت بھی ولی صاحب نے لکھے تھے اور نغمات بے بی نورجہاں کی آواز میں تھے۔ اس فلم کے سبھی گانے مقبول ہوئے جن میں سے تین کے بول اس وقت یاد آرہے ہیں۔
-1 کنکاں دیاں فصلاں پکیاں نے
-2 آسجنا دونوئیں مل کے چلئے
-3 بابل میں بلہاری وے۔
-4 چل پنڈ نوں چلئے
فلم ’’ یملا جٹ‘‘ اور اس کے نغمات نے سارے شمالی ہندوستان کو دیوانہ بنا دیا تھا۔
’’خزانچی‘‘ وہ فلم تھی جس نے صحیح معنوں میں ماسٹرغلام حیدرکی عظمت کا سکّہ بٹھا دیا تھا۔ یوں تو اس فلم کے سبھی گانے ہٹ تھے مگر یہ دو گانے سپرہٹ ہو کر سارے ملک میں پھیل گئے تھے۔
ساون کے نظارے ہیں آہا آہا۔
کلیوں کی آنکھوں میں۔مستانہ اشارے ہیں
لوٹ گئی پاپن اندھیاری
’’خزانچی کے گانے ولی صاحب اور ان کے چھوٹے بھائی ناظم پانی پتی نے لکھے تھے۔
فلم ’’خزانچی‘‘ نے لاہور کی فلمی صنعت کو بمبئی کی فلمی صنعت کے برابر لاکھڑا کیاتھا۔ اگلی فلم ’’چوہدری‘‘ ماسٹرغلام حیدرکی کامیاب پنجابی فلم تھی۔ اس فلم میں بے بی نورجہاں تھیں اور ظاہر ہے کہ کئی گانے بھی ان ہی کی آواز میں ریکارڈ کئے گئے تھے مگر جب ماسٹرغلام حیدر اور نورجہاں ایک بار پھر فلم ’’خاندان‘‘ میں یکجا ہوئے تو برّصغیر کی فلموں میں ایک نئی تاریخ رقم ہوگئی۔ ’’خاندان‘‘ کی ہدایت کاری کیلئے ایک نوجوان اور ذہین فلم ایڈیٹر کو بطور خاص ڈائریکشن کیلئے کلکتہ سے بلایا گیا تھا۔ یہ شوکت حسین رضوی تھے ’’خاندان‘‘ کی کہانی سیّد امتیاز علی تاج نے لکھی تھی اور گانے ولی صاحب نے لکھے تھے۔ یہ فلم اس قدر کامیاب ہوئی کہ سبھی حیران رہ گئے۔ اس سے پہلے فلموں میں بے بی نورجہاں نے کام تو کیا تھا مگر نوعمری کے باعث وہ ہیروئن نہیں بن پائی تھیں۔ ’’خاندان‘‘ میں انہیں پہلی بار ہیروئن کے طور پرمنتخب کیا گیا۔ اگرچہ ان کا نام اب بھی ’’بے بی نورجہاں‘‘ تھا۔ اس فلم کی مقبولیت نے ہر ایک کو حیرت زدہ کردیا۔ کوئی فلم اتنی کامیاب بھی ہوسکتی ہے اور کسی فلم کے سب کے سب گانے اس طرح زبان زد عام و خاص ہوسکتے ہیں’’خاندان‘‘ اس کا جیتا جاگتا ثبوت تھی۔ اب ذرا اس فلم کے گانے یاد کیجئے شاید آج بھی یہ ٹاپ کے گانوں میں گونج رہے ہوں۔
-1 تو کون سی بدلی میں میرے چاند ہے آجا
-2 آگیا مورے باغ کا مالی
-3 میری امی کا راج بھلا
-4 میرے من کا پنچھی
-5 میرے لئے جہان میں، چین ہے نہ قرار ہے
-6 پی لے پی لے مورے راجہ
-7 اُڑ جا پنچھی کالی کالی آنکھوں والے
لفظ ’’پنچھی‘‘ کی تکرار سے آپ نہ گھبرائیں۔ اس زمانے کے فلمی گیتوں میں پنچھی، پپیہا، ساجن، مورے راجہ جیسے الفاظ عموماً استعمال کئے جاتے تھے اور بہت پسند بھی کئے جاتے تھے۔
ماسٹرغلام حیدرکی ماسٹر ی محض یہ نہیں تھی کہ انہوں نے سُپرہٹ اور مقبول عام دھنیں بنائی تھیں بلکہ انہوں نے طرزوں کی بناوٹ اور راگ راگنیوں کے استعمال میں جس جدّت، سلیقہ اور ہُنرمندی کا مظاہرہ کیا تھا دراصل وہ حیران کن تھا۔ بڑے بڑے موسیقار ان کی کمپوزیشن سُن کر ان کی ہُنرمندی اور کاریگری کا لوہا ماننے پر مجبور ہوگئے تھے۔
اس کے بعد تو گویا ماسٹر جی اور کامیابی لازم و ملزوم بن کر رہ گئے تھے۔ کسی بھی فلم میں موسیقار کی حیثیت سے ان کا نام اس بات کی ضمانت تھا کہ اس کے تمام گانے سُپرہٹ ہوں گے۔
ماسٹرغلام حیدرکی کامیابیوں نے انہیں محبوبیت اور مقبولیت کے اس درجے تک پہنچا دیا تھا جہاں فلمی حلقوں کے علاوہ معاشرتی اور سرکاری حلقے بھی ان کی عزت و تکریم کرنے پر مجبور ہوگئے تھے۔ لاہور کی اہم تقریبات میں انہیں وی۔آئی۔پی کی حیثیت سے مدعو کیا جاتا تھا۔ سرکاری تقریبات میں ماسٹرغلام حیدرایک مقبول شخصیت تصوّر کئے جاتے تھے۔ سرسکندر حیات اس زمانے میں پنجاب کے چیف منسٹر تھے۔ انہوں نے اپنے بیٹے شوکت حیات کی شادی کی تقریب میں ماسٹرغلام حیدرکو بطور خاص مدعو کیا تھا اور انتہائی معزّز مہمانوں سے ان کا تعارف کراتے ہوئے کہاتھا۔
’’یہ ماسٹرغلام حیدرہیں جنہوں نے اپنی سحرانگیز موسیقی سے عوام وخواص کے دلوں کو موہ لیا ہے اور پنجاب کے نام کو بلند کر دیا ہے۔ انہوں نے کلکتہ اور بمبئی کے موسیقاروں کو نئی راہیں دکھائی ہیں۔‘‘
ہم نے یہ تذکرہ سعید ملک صاحب سے کیا تو انہوں نے بتایا کہ اس تقریب کا دعوت نامہ ان کے پاس محفوظ ہے۔
’’زمیندار‘‘ اور ’’پونجی‘‘ ماسٹرغلام حیدر کی اگلی کامیاب فلمیں تھیں۔ ’’زمیندار‘‘ کے چند مقبول گانے یہ ہیں۔
چھوٹا سا سنسار ہمارا
مرے حال پہ بے بسی رو رہی ہے
دنیا میں غریبوں کو آرام نہیں ملتا
ارمان تڑپتے ہیں، پہلو میں تیرے آ کے
اردو فلم ’’پونجی‘‘ کے نغمات بہزاد لکھنوی اور شوکت تھانوی نے لکھے تھے۔ فلمی شاعر ڈی این مدھوک کے لکھے ہوئے نغمے بھی اس فلم میں شامل تھے۔
اے ماتا اب جاگ اٹھے ہیں
شیشے کے نہیں ٹکڑے
اب کوئی ٹوٹے ہوئے دل کو جوڑے
گاڑی والے، دوپٹہّ اڑا جائے رے
ماسٹرغلام حیدرنہایت خوددار اور عزت نفس کی پاس داری کرنے والے وضع دار انسان تھے۔ کسی بات پر فلم ساز سیٹھ دل سکھ پنچولی سے وہ ناراض ہوگئے اور انہوں نے پنچولی پکچرز سے علیحدگی اختیار کرلی۔
اب وہ شُہرت اور بلندی کے اس مرتبے پر تھے کہ بمبئی کے بڑے بڑے فلم ساز اور ہدایت کار بھی ان کی خدمات حاصل کرنے کے تمنائی بن چکے تھے۔ محبوب خاں نے اپنی تاریخی فلم ’’ہمایوں‘‘ بڑی دھوم دھام سے شروع کی تو اس کی موسیقی مرتّب کرنے کیلئے ماسٹرغلام حیدرکو بمبئی آنے کی دعوت دی اور بے حد اصرارکیا۔ ہدایت کار محبوب صحیح معنوں میں محبوبیت کے درجے پر فائز تھے اور فلمی صنعت سے وابستہ بڑے بڑے نامور لوگ ان کے ساتھ کام کرنا باعث افتخار جانتے تھے۔وہ نہ صرف ماسٹر جی کو مدعوکر رہے تھے بلکہ انہیں منہ مانگا معاوضہ بھی دینے کو تیار تھے۔ماسٹر جی نے محبوب خاں کی دعوت منظور کرلی اور بمبئی جانے کی تیّاریوں میں مصروف ہوگئے، مگر بمبئی جانے سے پیش تر انہوں نے فلم ساز عطاء اللہ شاہ ہاشمی کی فلم ’’بھائی‘‘ کی موسیقی بنائی۔ اس فلم کے گیت شاطرغزنوی نے لکھے تھے۔ یہ فلم تو کامیاب نہ ہوسکی مگر اس کے گانے بہت مقبول ہوئے۔ مثلا۔
-1تاروں بھری راتیں
-2دنیا کی یہ خوشی ہے
فلم ’’بھائی‘‘ میں ماسٹرغلام حیدرنے ایک نئی گلوکارہ نسیم اختر کو متعارف کرایا تھا جو اداکارہ سردار اختر اور بہار اختر کی چھوٹی بہن تھیں۔ یہ وہی بہنیں ہیں جن میں سے ایک سردار اختر محبوب خاں کی بیگم بنیں اور دوسری بہن، بہار اختر نے فلم ساز ہدایت کار کاردار سے شادی کی اور گھرداری سنبھال کر فلموں سے بے تعلق ہوگئی تھیں۔(جاری ہے )

فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز...قسط نمبر 281 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں