اندھا بانٹے ریوڑیاں
مجھے لگتا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کو ملائشیا کے 94 سالہ جہاندیدہ لیڈر اور وزیر اعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد (جو 1946 سے سیاست اور1963سے حکومت میں ہیں)نے بھی متحدہ عرب امارات کے ہوشیار حکمرانوں کی طرح نیک تمناؤں اور خیر سگالی کے جذبات تو یقیناًبہت دئیے ہیں لیکن کشکول میں کچھ نہیں ڈالا۔یہ وہ کشکول ہے جو ہمارے پیارے وزیر اعظم اٹھائے ملک ملک گھوم رہے ہیں کہ شائد کوئی اس میں کچھ ڈال دے۔اس سے قبل سعودی عرب نے بھی خرچ نہ کر سکنے کی پابندی سے مشروط کیش اور ادھار تیل دیاتھا۔ایک ارب ڈالر کی پہلی قسط آچکی ہے یہ سہولت سعودی حکمران اس سے پہلے بھی ہمارے حکمرانوں کو فراہم کرتے رہے ہیں۔ چین نے اللہ جانے کیا دیا ہے اور کیا نہیں دیا لیکن وہ بونگیاں ضرور گنوا دی ہیں جو ہمارے وزیروں نے حکومت میں آتے ہی سی پیک کے خلاف بیانات کی شکل میں ماری تھیں،
باقی دورہ چین پراسراریت کی دبیز تہوں میں دبا ہے اور کشکول بظاہر خالی نظر آرہا ہے۔آئی ایم ایف سے مذاکرات بھی موخر ہوگئے ہیں مذاکرات کا دوسرا دور 15 جنوری کو شروع ہو گا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ عمران خان کی حکومت کو اقتدار سنبھالے چوتھا مہینہ شروع ہو چکا ہے اور اب وقت آنے والاہے کہ 100 دن کے وعدوں کے حساب سے بات کی جائے کہ کون کون سے دعوے کئے گئے تھے ، لیکن اس سے بھی پہلے ایوان اقتدار میں جھانکنے میں کوئی ہرج نہیں کہ وہاں وزیر اعظم عمران خان کا کون کون ساذاتی دوست (یا ذاتی انویسٹر) مزے لوٹ رہا ہے کیونکہ جو وزیر اعظم اپنے اقتدار کو اپنے خاص دوستوں کو نوازنے کے لئے استعمال کر رہا ہے، وہ معیشت، گورننس، انسانی ترقی، بنیادی سہولیات وغیرہ وغیرہ پر کتنی توجہ دے گا، اس کا اندازہ کپتان کی ٹیم کی سلیکشن سے بخوبی ہو جائے گا۔
اندھا بانٹے ریوڑیاں، مڑ مڑ اپنوں کو دے۔ اردو کا یہ محاورہ اتنا عام ہے کہ شائد سب نے ہی سن رکھا ہو گا، البتہ کبھی کبھی یہ عملی طور پر دیکھنے کا موقع بھی مل جاتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کی حکومت نے یہ محاورہ دوبارہ سے یاد کرا دیا ہے لیکن کچھ اس انداز میں کہ وہ اپنے بھی مزید اپنوں میں ریوڑیاں بانٹے جا رہے ہیں۔ پاکستان میں پہلی بار ایسی حکومت آئی ہے جس کے ایوانوں میں ذاتی دوست اس طرح دندناتے پھر رہے ہیں جیسے عمران خان کے وزیر اعظم بننے سے پہلے ان کے لان میں پھرا کرتے تھے۔وفاق اور پنجاب میں وزیروں کے برابر عہدے، مختلف کمیٹیوں کے ممبر اور سرکاری پراجیکٹس کے انچارج، بہت کچھ وزیر اعظم عمران خان نے میرٹ کی بجائے دوستوں کے حوالے کر دیا ہے۔ دوست بھی ماشااللہ اتنے سمجھدار اور دیدہ دلیر ہیں کہ انہوں نے مختلف جگہوں پر آگے سے اپنے دوست گھسادئیے ہیں کہ اوپر سے نیچے تک دوستوں کی ریل پیل ہو گئی ہے۔ حکومت سے زیادہ یہ گول گپوں کی پارٹی لگتی ہے جہاں دنیا بھر سے دوست گول گپے کھلانے کے لئے اکٹھے کر لئے ہیں۔ شائد نئے پاکستان سے عمران خان کی مراد یہی تھی کہ ان کے ذاتی دوست نہ صرف خوب انجوائے کریں بلکہ ان کی پانچوں گھی میں بھی ہوں۔
عمران خان کے ایک ذاتی دوست ہیں جناب زلفی بخاری، خیر سے برطانوی شہری ہیں۔ عمران خان نے کابینہ تشکیل دی تو زلفی بخاری کو برطانوی شہری ہونے کے باوجود سمندر پار پاکستانیوں کی وزارت کا مشیر خاص لگایا جس کا عہدہ وزیر مملکت کا ہے۔ پاکستانی آئین اور قانون اس کے بارے میں کیا کہتا ہے، یہ جلد معلوم ہو جائے گا کیونکہ ان کا کیس سپریم کورٹ میں ہے اس کے لئے سپریم کورٹ کے حکم نامہ کا انتظار کر لیتے ہیں۔ وفاقی کابینہ میں گھسنے کے بعد زلفی بخاری نے اپنے دوستوں کو اپنی وزارت میں گھسانا شروع کر دیا ہے۔ چند دن پہلے روزنامہ پاکستان نے ایک بہت اچھی انویسٹی گیٹو سٹوری شائع کی تھی جس میں زلفی بخاری اور ان کے دوستوں کے گینگ کی کاروائیوں کی تفصیل دی گئی تھی۔
میں خود بھی ان کمپنیوں کے طریقہ واردات کو دیکھ رہا تھا اس لئے روزنامہ پاکستان میں چھپنے والی سٹوری کے درست ہونے پر یقین رکھتا ہوں۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ زلفی بخاری نے اپنے ذاتی دوست فرحان جاوید کی ایک نا معلوم میڈیا سروس کمپنی ’’برانڈو مارکیٹنگ‘‘ کو اپنی وزارت کی ڈیجیٹل مارکیٹنگ کے پراجیکٹ ایوارڈ کر دئیے ہیں اور اس کے لئے قواعد کے تحت ضروری PPRA قوانین کو نظر انداز کردیا گیا۔پاکستان میں ڈیجیٹل مارکیٹنگ کی بہت اچھی اور قابل اعتماد پروفیشنل کمپنیاں کام کر رہی ہیں لیکن مشیر خاص موصوف نے ٹینڈر طلب کئے اور نہ قوانین کو ملحوظ خاطر رکھا اور اپنے دوستوں کو نواز دیا۔ آگے سے فرحان جاوید نے اپنے ذاتی دوست شفیق اکبرکی کمپنی’’ گرانہ ‘‘ کو ڈیٹا بیس کا سارا کام دے دیاجو رئیل سٹیٹ مارکیٹنگ اور بلڈرز ہیں۔ اس وقت ایک کروڑ کے لگ بھگ تارکین وطن یورپ، امریکہ، کینیڈا ، مشرق وسطی اور دنیا کے دوسرے ملکوں میں مقیم ہیں۔
ان کمپنیوں نے پاکستان کا سارا ڈیٹا اپنے کاروبار میں استعمال کرنا شروع کردیا اورحکومتی ڈیٹا بیس سے فائدہ اٹھا کر اربوں روپے کی رئیل سٹیٹ فروخت کرنے میں مدد حاصل کی۔ غالباً یہ پاکستان کی آئی ٹی کی تاریخ کا سب سے بڑا سکینڈل ہے جس میں زلفی بخاری اور ان کا گینگ حکومتی پوزیشن سے فائدہ اٹھا کر اربوں روپے کما رہے ہیں۔ قواعد کے مطابق نیشنل انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ (NITB) ٹینڈر جاری کرتی ہے جس کے بعد ملک کی تمام معروف کمپنیاں اس میں حصہ لیتی ہیں لیکن زلفی بخاری کی وزارت میں مزے کی بات یہ ہوئی کہ ’’برانڈو مارکیٹنگ‘‘ اور ’’گرانہ‘‘ دونوں غیر معروف کمپنیاں تھیں لیکن ملی بھگت سے اربوں روپے کما رہی ہیں کیونکہ NITB نے کوئی ٹینڈر کیا ہی نہیں بلکہ چپکے سے صرف ویب سائٹ پر اعلان کردیا کہ پراجیکٹ ان کمپنیوں کو دئیے جا چکے ہیں۔ خیر، قصہ اور بھی طویل ہے لیکن فی الحال میں نے اس کا ابتدائی ذکر ہی کیا ہے۔ اگلے کالموں میں اس میگا سکینڈل پر مزید تفصیل سے بات ہو گی۔
وزیر اعظم عمران خان نے اپنے ایک اور خاص دوست انیل مسرت کے حوالے پچاس لاکھ گھروں والا منصوبہ کیا ہے۔ پچاس لاکھ گھر تو خیر کیا بنیں گے لیکن یہ برطانوی ارب پتی دوست حکومتی پروٹوکول خوب انجوائے کرے گا۔ چونکہ برطانوی ہیں اس لئے ان کی ایک ٹانگ برطانیہ میں اور ایک پاکستان کے حکومتی ایوانوں میں رہا کرے گی۔
صاحبزادہ جہانگیر جو چیکو کے نام سے مشہور ہیں، انہیں بھی وزیر اعظم عمران خان نے مشیر خاص برائے سرمایہ کاری مقرر کیا تھا لیکن برا ہو میڈیا کاجو ان کی برطانیہ میں کی گئی کاروباری بے قاعدگیوں کو سامنے لے آیا تو چیکو صاحب جان چھڑا کر بھاگ گئے ورنہ عمران خان تو انہیں وفاقی کابینہ میں ڈال ہی چکے تھے۔ اسلام آباد میں عمران خان کے ایک اور ذاتی دوست نعیم الحق اور پنجاب میں عون چوہدری بھی مشیروں کی حیثیت سے وفاقی اور صوبائی کابیناؤں میں شامل ہو کر اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ ہ دونوں ہی عمران خان کے خاص مصاحبین میں شامل ہیں۔جہانگیر ترین کی بہن سیمی ایزدی کو سینیٹر بنایا جا چکا ہے۔عمران خان کے پرانے دوست یوسف صلاح الدین بھی پنجاب میں بنائی گئی کلچر اورانفارمیشن کی کمیٹی میں موجود ہیں۔ یہ سب وہ لوگ ہیں جنہیں وزیر اعظم عمران خان نے ذاتی دوستی کی وجہ سے کابیناؤں اور کمیٹیوں میں شامل کیا ہے۔
لیکن ان سب سے بھی زیادہ ریوڑیاں خاتون اول کے سفارش یافتہ احسن اقبال گجر کو بانٹی گئی ہیں کہ ان کے کہنے پر پہلے وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار نے پاکپتن کے ڈی پی او رضوان عمر گوندل کو اور اب حال ہی میں گوجرانوالہ کے ڈپٹی کمشنر شعیب طارق وڑائچ کو ان کے عہدوں سے ہٹایا۔ ڈپٹی کمشنر سے غلطی یہ ہو گئی کہ انہوں نے تجاوزات کے خلاف مہم میں خاتون اول کی سہیلی فرح احسن کا غیر قانونی پٹرول پمپ نہ گرانے کا احسن اقبال گجر کا ’’ایگزیکٹو آرڈر‘‘ ماننے سے انکار کیا تھا۔پنجاب کے حالات آج کل ان افریقی ملکوں کی مانند ہو چکے ہیں جہاں گینگ لیڈر دندناتے پھر رہے ہیں اور اس وقت پنجاب میں پی ٹی آئی سے زیادہ احسن اقبال گجر کا سکہ چلتا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان آج کل گول گپے کھا رہے ہیں اور اپنوں میں ریوڑیاں بانٹ رہے ہیں حالانکہ جس دن عمران خان ملائشیا اینٹی کرپشن سنٹر (MACC) دیکھنے گئے اسی دن اس ادارے نے ایک وفاقی وزیر کے خلاف کاروائی شروع کی جس پر الزام ہے کہ اس کا بیٹا اپنے دوستوں کو نوازنے کے لئے اثرو رسوخ استعمال کر رہا تھا۔ وزیر اعظم عمران خان اگر MACC سے کچھ سیکھ کر آئے ہیں تو سب سے پہلے حکومت کو ذاتی دوستوں اور آگے سے ان کے دوستوں سے پاک کریں اور ریوڑیاں بانٹنی بند کر دیں۔