ناروے میں قرآن پاک جلانے کی کوشش کرنیوالے پر مسلمان نوجوان کا حملہ، یہ واقعہ دراصل کیا تھا؟ سوشل میڈیا پروائرل ویڈیو کی حقیقت سامنے آگئی

ناروے میں قرآن پاک جلانے کی کوشش کرنیوالے پر مسلمان نوجوان کا حملہ، یہ ...
ناروے میں قرآن پاک جلانے کی کوشش کرنیوالے پر مسلمان نوجوان کا حملہ، یہ واقعہ دراصل کیا تھا؟ سوشل میڈیا پروائرل ویڈیو کی حقیقت سامنے آگئی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اوسلو (ڈیلی پاکستان آن لائن) یورپی ملک ناروے میں ایک ملحد کی جانب سے قرآن کریم فرقان حمید کی بے حرمتی کی کوشش کی گئی تو ایک مسلمان نوجوان نے اس کی یہ گھناؤنی حرکت ناکام بنادی۔ یہ واقعہ کیسے اور کیوں پیش آیا اور اس کے اصل محرکات اور اپنی آخرت تباہ کرنے ولا ملعون شخص کون ہے؟ اس حوالے سے تفصیلات ناروے میں مقیم ایک پاکستانی ’ محمد الیاس ‘ نے ویب سائٹ ’ پاکستان 24 ‘ کیلئے لکھے گئے  مضمون میں بیان کی ہے۔ خیال رہے کہ جس مسلمان نوجوان نے قرآن پاک کی بے حرمتی کرنے والے کو مزا چکھایا ہے اس کا نام ’عمر دھابہ‘ ہے تاہم لوگ اسے ’ عمر الیاس ‘ سمجھ رہے ہیں، پاکستان میں بھی ’الیاس‘ کے نام سے ٹوئٹر پر ہیش ٹیگ چلتے رہے ہیں ، جس الیاس نے یہ مضمون لکھا ہے وہ اس ہیرو سے الگ ہے جس نے قرآن پاک کی بے حرمتی کی کوشش کو ناکام بنایا ہے۔

محمد الیاس نے اپنے مضمون میں لکھا ’ ایک 87 سالہ ملحد ’آرنے تھومیر‘ نے یورپ کے باقی ملکوں کی دیکھا دیکھی کچھ سال پہلے اسلام کے خلاف ایک تنظیم بنائی، جس کا نام سیان (Stop Islmisation in norway۔ SIAN) رکھا۔ متشدد خیالات کے یہ لوگ اسلام کے خلاف مختلف فورمز میں کافی ہرزہ سرائی کرتے رہتے ہیں اور مختلف شہروں میں مظاہرے بھی کرتے ہیں جس میں اسلام کو جبر و طاقت کے زور پر پھیلایا ہوا مذہب اورمسلمانوں کوبطور دہشت گرد ٹارگٹ کرنا ہوتا ہے۔ چونکہ ان لوگوں کو معاشرے میں بہت زیادہ پذیرایی حاصل نہیں لہذا ان کے کسی مظاہرے میں قابل ذکر لوگ شامل نہیں ہوتے لیکن میڈیا ایسے لوگوں کو چٹخارے لگا کر پیش کرتا ہے، اس وجہ سے ان کو کچھ حد تک کوریج مل جاتی ہے۔ ناروے میں مذہبی و اظہاررائے کی آزادی ہے، قانون تب حرکت میں آئے گا جب کوئی شخص نفرت، دہشت اور نسل پرستانہ تقریر کرے، اس کے علاوہ آزادی اظہار رائے کے نام پر جو مرضی کہے اس پر کوئی روک ٹوک نہیں۔
 پچھلے ہفتے آرنے تھومیر نے جب مظاہرے کا اعلان کیا تو ایک صحافی نے اس مظاہرے کا عنوان دریافت کرنے کی غرض سے اس کا انٹرویو کیا، جس میں آرنے تھومیر نے اعلان کیا کہ وہ اس مظاہرے میں قران کو جلائیں گے(نعوذباللہ)۔ اس بات نے شہر کے سکون میں ایک ارتعاش پیدا کردیا اور فورا مسلم لیڈرز اور مسجد کمیٹی کے لوگ ایکٹو ہوگئے کہ ایسی کسی بھی انہونی کو روکا جا سکے۔ انہوں نے شہر کے میئر، پولیس اور لوکل گورنمنٹ سے منسلک لوگوں کے ساتھ میٹنگ کی، جس میں پوری سٹی کونسل نے یک زبان کہا کہ ہم اس مظاہرے کے سخت خلاف ہیں اور ایسی کسی بھی حرکت کی قطعی اجازت نہیں دی جائے گی۔ حتی کہ مسلمان مخالف جماعت ڈیموکریٹک پارٹی نے بھی اعلان کیا کہ وہ قران کریم کو جلانے والے کسی عمل کو سپورٹ نہیں کریں گے۔ اسی میٹنگ کے دوران پبلک پراسیکیوٹر نے قانونی نقطہ اٹھایا کہ قانون کے مطابق ہم مظاہرے کو نہیں روک سکتے جب تک وہ ایسی کوئی حرکت نہیں کرتے جو قابل گرفت ہو، لیکن چونکہ سیان کا یہ اعلان نفرت پھیلانے کے زمرے میں آتا تھا تو پولیس کمشنر نے کچھ پیرامیٹرز طے کروائے جس میں سیان تنظیم کو یہ کہا گیا کہ مظاہرہ کرنا آپ کا حق ہے لیکن آپ قرآن کریم کو نہیں جلا سکتے اور ایسا کرنے پر قانون کی گرفت میں ہونگے۔
 رپورٹ کے مطابق سیان تنظیم کا بنیادی مقصد ہی یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کو بطور دہشت گرد پیش کرے ، ان کایہ بھی مطالبہ رہاہے  کہ مسلمانوں کو ناروے سے باہر نکالا جائے۔ لہذا یہ ایسے بیانات جاری کرتے رہتے ہیں، جن کا مقصد صرف اشتعال انگیزی ہے لیکن مسلمانوں کی طرف سے ہمیشہ حکمت اور بصیرت کے ساتھ اس کا جواب دیا گیا۔ شہرکے پڑھے لکھے لوگ ڈائیلاگ اور کانفرنسز میں بہت جاتے ہیں اور شہر کے سب آڈیٹوریمز میں کوئی نہ کوئی کانفرنس یا مکالمہ چل رہا ہوتا ہے۔ آرنے تھومیر نے پہلے پہل تو کوشش کی کہ اپنی نفرت انگیزباتوں کو ڈائیلاگ کی صورت میں لوگوں تک پہنچائے جس میں وہ نبیﷺ کی ذات اقدس پر بھی رکیک حملے کرتا تھا لیکن اس کی باتوں کومدلل انداز میں رد کیا گیا،جس کو پبلک نے پسند کیا اور اس کا بہت مثبت اثر ہوا۔ اسی وجہ سے مسجد میں ہر ہفتے دو ہفتے میں ایک نارویجین اسلام قبول کرتا ہے۔ آرنے تھومیر کی بے بنیاد باتوں اور نفرت پر مبنی تقریروں کی وجہ سے لوکل ادبی کونسل اور یہاں کے چرچ نے پابندی لگا دی کہ اس کو کسی تقریب میں نہیں بلانا تاکہ یہ اسلام سے متعلق اپنی نفرت کو پھیلانے کے لئے ہمارا فورم استعمال نہ کر سکے۔
لوکل انتظامیہ اور ادبی حلقوں سے کٹنے کے بعد اس تنظیم کے پاس صرف ایک ہی آپشن رہ گیا کہ وہ پبلک مقامات پر نفرت انگیزمظاہرے کرے۔ یہ اپنے مظاہرے میں باقاعدہ کیمرے اور میڈیا کے لوگوں کو ایڈجسٹ کرتے کہ اگر کوئی مشتعل شخص ان کو زدکوب کرے تو اس کی تصاویر اور ویڈیوز کو وائرل کروا کر لوگوں کو بتایا جائے کہ یہ لوگ ہمارے معاشرے کی روایات کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتے، مسلمان اکابر جن میں سب سے زیادہ متحرک جامع مسجد کمیٹی کے صدر اکمل علی کہتے تھے کہ اس کی کسی بھی غیر قانونی حرکت پر قانون خود اس کو قابو کر لے گا۔ لہذامسلمان اس کی کسی اشتعال انگیزی پر برانگیختہ نہ ہوں اور اس کے کسی مقصد کو کامیاب نہ کریں۔
محمد الیاس کے مطابق اس مظاہرے سے پہلے مسجد کی طرف سے اعلانات ہوئے کہ اگرآرنے تھومیر نے قرآن کریم کی بے حرمتی کی تو اس کو ایسی کسی حرکت سے روکنے کے لئے پولیس موجود ہوگی لہذا انتظامیہ کو اپنا کام کرنے دیا جائے اور اشتعال میں آ کر کوئی فرد اپنے طورپرکوئی کاروائی نہ کرے۔ ہفتے کے دن سیان کے مظاہرے میں صرف آٹھ لوگ تھے، جبکہ چار سو سے زیادہ لوگ، جن میں نارویجنز کی قابل ذکر تعداد بھی شامل تھی، اس کے مظاہرے کے خلاف موجود تھی۔ پولیس نے رکاوٹیں لگا کر راستہ بند رکھا ہوا تھا کہ لڑائی کی صورت نہ بن سکے۔ آرنے تھومیر نے تقریر کے دوران قرآن کریم کا ایک نسخہ باربی کیو گرل کے اوپر رکھا ہوا تھا، جو پولیس نے فوراً لے کر اپنے پاس رکھ لیا۔ اس دوران سیان تنظیم کے دوسرے سرکردہ رکن لارس تھورسن نے اپنی جیب سے قران کریم کے دوسرے نسخہ کو نکال کر آگ لگانے کی کوشش کی جسے پولیس نے بجھانے کی کوشش کی لیکن اسی دوران عمر دھابہ جس کو بڑی تعداد عمر الیاس لکھ رہی ہے، نے رکاوٹ عبور کی اوراور لارس تھورسن کو مارنے کی کوشش کی، لارس کو فورا سول پولیس نے اس حرکت پر گرفتار کر لیااور ہنگامہ مچ گیا۔
واقعے کے بعد مسجد کمیٹی نے بہترین وکیل کا بندوبست کر لیا ہے جو لارس تھورسن کو قرار واقعی سزا دلوانے کی کوشش کرے گا۔اس اندوہناک واقعے کے بعد پولیس، چرچ، انتظامیہ اور سیاست دان بھی اس مسئلہ پر مسلمانوں کے ساتھ متفق ہیں ۔ اس واقعے کے بعد مقامی چرچ کے پادری، دیگر مذاہب کے سرکردہ لوگ اور سول سوسائٹی کے لوگوں نے یکجہتی کے اظہار کے لئے گزشتہ روز جمعہ کی نماز کے دوران برستی بارش میں مسجد کے باہر حلقہ بنایا اور مسلمانوں کو اپنی حمایت کا یقین دلوایا۔

مزید :

ڈیلی بائیٹس -