ماتحت عدلیہ کے جج صاحبان وکلاء کے رحم و کرم پر کیوں؟
ایک خبر کے مطابق لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمد قاسم خان نے گزشتہ دو برسوں میں وکلاء کی طرف سے ججوں کے خلاف توہین آمیز اور پُرتشدد واقعات کی رپورٹ طلب کر لی ہے۔ یاد رہے کہ ایک خاتون جج نے چیف جسٹس آف پاکستان اور چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کو حال ہی میں ایک خط لکھا تھا، جس میں یہ تک کہا تھا کہ اگر توہین کرنے کا یہی سلسلہ جاری رہا تو وہ استعفا دے دیں گی اور اگر خود کشی حرام نہ ہوتی تو اُن کا دِل یہی چاہتا ہے کہ احتجاجاً یہ کام بھی کر گذریں۔ماتحت عدلیہ کے ججوں کا المیہ یہی ہے کہ انہیں وکلاء کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ انہیں یا تو صلح کرنا پڑتی ہے یا پھر ٹرانسفر کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دوسری کوئی راہ اُن کے لئے موجود ہی نہیں ہوتی۔اب کچھ ہی روز پہلے ایک جج کو مار مار کر لہو لہان کر دیا گیا اور سوشل میڈیا پر یہ ویڈیو بڑے کرب کے ساتھ دیکھی گئی۔اُس سے پہلے ایک جج کو بھری عدالت میں بار کے صدر نے بے عزت کیا، وہ ویڈیو بھی ہمارے نظام عدل کا منہ چڑاتی رہی۔ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے جج صاحبان اس وکلاء گردی سے محفوظ ہیں۔ محفوظ اس لئے ہیں کہ اُن کے پاس کسی وکیل کا لائسنس معطل کرنے کا اختیار بھی ہے،پھر یہ بھی ہے کہ وہ توہین عدالت کی کارروائی کر کے جیل بھی بھیج سکتے ہیں، لیکن ضلع کچہریوں میں فرائض انجام دینے والے سول اور سیشن جج صاحبان ذرا سی اونچی آواز میں وکیل سے بات بھی کر لیں تو وکیلوں کا جتھا اُن کی طبیعت صاف کرنے کے لئے عدالت میں آ جاتا ہے۔کئی واقعات تو ایسے بھی ہوئے کہ جج صاحبان کو بمشکل جان بچا کر اپنے چیمبر کے پچھلے دروازے سے بھاگنا پڑا۔ حالت یہ ہے کہ آج تک ایسے واقعات پر کسی وکیل کو کوئی سزا نہیں ملی۔ مقدمہ درج بھی ہو گیا تو اعلیٰ عدلیہ کے دباؤ پر صلح صفائی کی نوبت آ گئی اور مقدمہ خارج…… پھر وہی واقعات، پھر وہی چل سو چل۔
لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمد قاسم خان جرأت مندانہ فیصلے کرنے کے قائل ہیں۔اگر انہوں نے اس پہلو کی طرف توجہ دی ہے تو امید کی جانی چاہئے کہ بہتری کے کچھ امکانات پیدا ہوں گے۔ ہمیشہ سے یہ سنتے آ رہے ہیں کہ بار اور بنچ انصاف کی فراہمی کے دو پہیئے ہیں،جن کے بغیر گاڑی نہیں چلتی،مگر ہم نے تو یہی دیکھا ہے کہ وکلاء کا پہیہ روڑے ہی اٹکاتا ہے۔اپنے من پسند فیصلے چاہتا ہے اور اگر کوئی جج نہ مانے تو اُس کے خلاف نازیبا ہتھکنڈوں پر اُتر آتا ہے۔مجھے بڑی خوش ہوتی ہے کہ نوجوان لڑکیاں بھی پی سی ایس کا امتحان پاس کر کے عدلیہ میں آتی ہیں،سول جج خواتین کی ایک بڑی تعداد ضلع کچہریوں میں اپنے فرائض سرانجام دے رہی ہے،انہیں سارا دن مرد سائلوں اور مرد وکلاء کا سامنا کرنا پڑتا ہے، چھوٹی چھوٹی عدالتوں اور پُر گھٹن ماحول کے باوجود وہ روزانہ بیسیوں کیسوں کی سماعت بھی کرتی ہیں،فیصلے بھی دیتی ہیں،ایسے میں اگر انہیں تحفظ اور احترام بھی نہ ملے تو وہ بھلا کیونکر اپنے فرائض احسن طریقے سے انجام دے سکیں گی؟جب مرد جج صاحبان وکلاء کے آگے بے بس ہوتے ہیں تو اِن خواتین ججوں میں حوصلہ کیسے پیدا ہو گا؟پھر تو وہی کچھ ہو گا جو ایک خاتون جج نے اپنے خط میں لکھا اور بُرے حالات کی وجہ سے نوکری چھوڑنے پر آمادہ ہو گئی۔مَیں پہلے بھی اس موضوع پر بار بار لکھ چکا ہوں، اب بھی میرا خیال یہی ہے کہ وکلاء کی اکثریت ان سارے واقعات کو بری نگاہ سے دیکھتی ہے،جیسا کہ سابق چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہا تھا کہ جس کمیونٹی کی معاشرے میں عزت نہ ہو تو اُس کے کسی عمل کا کوئی فائدہ نہیں،خاص طور پر نوجوان وکلاء کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ وہ اپنے سینئرز سے سیکھیں،اُن کے پاس بیٹھا کریں تاکہ وہ یہ جان سکیں کہ عزت قانون توڑنے میں نہیں، اُس کا احترام کرنے میں ہے۔یہ خطاب انہوں نے پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں پیش آنے والے واقعہ کے بعد کیا تھا اور کہا تھا کہ اس واقعہ نے ہم سب کے سر شرم سے جھکا دیئے ہیں۔
اب چاہئے تو یہ تھا کہ اُس واقعہ کے بعد وکلاء کی تنظیمیں، پاکستان بار کونسل، پنجاب بار سر جوڑ کر بیٹھ جاتیں اور کوئی ایسا لائحہ عمل بناتیں کہ کوئی وکیل قانون کو ہاتھ میں لینے کا سوچ بھی نہ سکتا،مگر افسوس یہ وکلاء سیاست کہ ووٹ لینے کے لئے کسی وکیل کو ناراض نہیں کیا جا سکتا۔پھر یہ بھی ہے کہ نوجوان وکلاء نے اپنے مضبوط گروپ بنا رکھے ہیں، ہر کچہری میں انہی گروپوں کا راج ہوتا ہے اور اس ڈسٹرکٹ یا تحصیل بار کا صدر اُن کی بات ٹال نہیں سکتا۔یہ نوجوان وکلاء چونکہ وکالت میں مہارت کے لحاظ سے بھی ابھی خام ہوتے ہیں،اس لئے اپنے جوش اور طاقت سے عدالت میں اپنی بات منوانا چاہتے ہیں۔اُن کی حماقت یا قانون سے نابلد ہونے پر اگر کوئی جج انہیں ٹوکنے کی جسارت کر بیٹھے تو اَنا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں، سیدھے جا کر بار کے صدر کو پکڑتے ہیں اور اسے جج کے سامنے لا کھڑا کر تے ہیں، پھر جو کچھ ہوتا ہے اس کی کئی مثالیں سامنے آ چکی ہیں۔ بار کے صدر میں اتنی جرأت نہیں ہوتی کہ وہ جج کے خلاف شکایت لانے والے نوجوان وکلاء کو سمجھائے یا اُن کے ساتھ جانے سے انکار ہی کر دے۔
یوں تو وکلاء کی ہر جگہ دھاک بیٹھی ہوئی ہے، ہر کوئی اُن سے ڈرتا ہے، تاہم اگر جج بھی اُن سے ڈرنے لگ جائیں تو انصاف کون کرے گا؟ عدالتیں بھی اگر یرغمال بنا لی جائیں تو پھر قانون و انصاف کا یہ سارا نظام مٹی کے ڈھیر میں تبدیل ہو جائے گا۔ سب مانتے ہیں کہ وکلاء کے اس بگاڑ میں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے لئے چلائی گئی بحالی تحریک نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ ججوں نے وکلاء کو اپنی طاقت مان لیا اور جس طرح کوئی عوامی نمائندہ اپنے ووٹروں کو ناراض نہیں کر سکتا، اُسی طرح سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے بھی پوری جوڈیشری کو یہ پیغام دے دیا کہ جج اور وکلاء میں اگر کسی بات پر تصادم ہوا تو فیصلہ وکلاء کے حق میں دیا جائے گا۔ججوں خصوصاً ماتحت عدلیہ کے لئے یہ ایک سیاہ دور تھا،جس نے ججوں کو جوتیاں پڑوائیں،اُن کے سر پھٹے،انہیں گریبانوں سے پکڑ کر گھسیٹا گیا،مگر ایسا کرنے والوں کو سزا دینے کی بجائے سینے سے لگایا گیا۔
اب چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس محمد قاسم خان نے ایک بڑا قدم اٹھایا ہے۔اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے، یہ تو بعد کی بات ہے۔فی الوقت اتنا ہی کافی ہے کہ پنجاب بھر میں بکھرے ہوئے ایسے واقعات کا ایک ڈیٹا اکٹھا ہو جائے۔تمام ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج صاحبان سے دو سال میں پیش آنے والے ایسے واقعات کی تفصیل مانگی گئی ہے۔اس کا ایک فائدہ تو یہ ہو گا کہ وکلاء اور ججوں میں پائے جانے والے اختلافات کی وجوہات سامنے آئیں گی۔اس بات کا تعین بھی ہو سکے گا کہ زیادتی کس فریق کی تھی۔یہ تفصیل بھی سامنے آئے گی کہ معاملے کو کس طرح نمٹایا گیا۔اُس میں انصاف کے تقاضے ملحوظ خاطر رکھے گئے یا دباؤ کے۔ان واقعات کی بنیاد پر بار اور بنچ کی ایک کمیٹی بھی بنائی جا سکتی ہے، جو واقعات، وجوہات اور اسباب کا جائزہ لے کر کوئی ایسی راہ نکالے کہ عدلیہ کا تقدس بھی برقرار رہے اور انصاف کے راستے میں کوئی رخنہ بھی نہ آئے۔ یہ کام اگر ہو جاتا ہے تو یہ بہت بڑی کامیابی ہو گی۔