خاک میں کیا صورتیں ہوں گی جو پنہاں ہو گئیں
کالم اور مضمون (آرٹیکل) کے مابین یہ فرق بیان کیا جاتا ہے کہ جہاں کالم اپنے حاضر و موجود گرد و پیش پر تبصرے / تجزیئے کا عکاس ہوتا ہے وہاں آرٹیکل ایک غیر ذاتی تحریر ہوتی ہے جو لکھنے والا اپنے قاری کو بتا کر (شاید) اس کے علم میں اضافہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ یہ نہیں دیکھتا کہ قاری اس موضوع پر پہلے ہی ضرورت سے زیادہ مسلح اور ”نکونک“ ہوتا ہے۔
آج کل دیکھتا ہوں کہ بہت سے کالم نگار حضرات ادارتی صفحات میں اپنے ذاتی حالات و واقعات بیان کرتے ہوئے وہ حدود پار کر جاتے ہیں جو ذاتی کالم کے لئے مقرر ہوتی ہیں۔ ان کالموں میں اپنے پورے خاندان کے احوال و مقامات اور افراد و اشخاص کی وہ داستان ہوتی ہے جس سے قاری کو کچھ لینا دینا نہیں ہوتا، اس تحریر سے اس کی معلومات میں کچھ اضافہ نہیں ہوتا اور قاری کو ہرگز اس بات سے کچھ واسطہ نہیں ہوتا کہ آپ کا نانا دادا کہاں رہتا تھا، کیا کرتا تھا اور اس کے دوست احباب کے اپنے دوست دشمن کون کون لوگ تھے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ لوگ اپنی خود نوشت کا ایک ایسا باب بطور کالم، اخباروں میں چھپواتے ہیں جو قاری کے چند عزیز و اقربا تو شائد پڑھتے ہوں گے لیکن عام قاری کی صحت کو اس کالم کی قرات سے کوئی افاقہ نہیں ہوتا!
تاہم وہ جو کہا جاتا ہے کہ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے تو میں بھی آج اس ’ذاتی خربوزے‘ سے رنگ پکڑنے کا ارتکاب کر رہا ہوں۔ امید ہے قارئین معاف فرما دیں گے…… ہوا یوں کہ کچھ روز پہلے چھوٹے بھائی کا پاک پتن سے فون آیا اور کہنے لگے کہ آپ کا 18،20 سال پہلے کا ایک خط مجھے ملا ہے جس سے بارِ دگر محظوظ ہو رہا ہوں۔ ذرا اپنی یہ تحریر آپ خود بھی دیکھ لیں …… کل ان کا خط آیا تو اس میں میرا وہ مکتوب بھی تھا جو میں نے 2002ء میں ان کو لکھا تھا۔ یہ خط اگرچہ بے حد ذاتی ہے لیکن ان میں بیان کی گئی بعض حقیقتیں اور کیفیتیں ایسی ہیں جو شاید بہت سے قارئین پر بھی گزرتی ہوں گی۔
ہماری آج کی نسل اپنے ماحول اور اپنی ذات ہی میں گم رہتی ہے۔ مشترک خاندانی موضوعات و معاملات سے ان کی لاتعلقی ظالمانہ حد تک سنگدلانہ کیفیات کی غماز ہے۔ میرا آبائی گھر پاک پتن میں ایک بڑی سی پہاڑی پر واقع تھا، بجلی سارے شہر میں اس وقت آئی جب ہم یونیورسٹی تعلیم سے فارغ ہو چکے۔ پانی کے لئے ہر گھر میں ماشکی لگے ہوئے تھے۔ ایک مشکیزہ کے لئے دو روپے ماہانہ معاوضہ مقرر تھا۔ ہر گھر میں 5،7 گھڑے اور مٹکے موجود ہوتے تھے۔ یہ پہاڑی خاصی پھیلی ہوئی تھی۔ آج تو وہاں پانی بھی ہے اور بجلی بھی۔ لیکن آبادیاں خال خال ہو گئی ہیں۔ لوگ نیچے آکر بس گئے ہیں۔ میرا خیال ہے بمشکل ڈیڑھ دو سو گھر ہوں گے جو وہاں رہ گئے ہیں …… پاک پتن دو بڑی بڑی نہروں کے درمیان آباد ہے اور اس خط میں جس نہر کا ذکر ہے وہ لوئر باری دوآب کینال ہے۔
میری اہلیہ محترمہ کا 10برس پہلے انتقال ہو چکا…… ہم پانچ بھائیوں میں سے بھی دو اللہ کو پیارے ہو چکے۔ میں سب سے بڑا ہوں۔ والدِ مرحوم محکمہء تعلیم میں ایک پرائمری سکول میں ٹیچر تھے اور بطور ہیڈ ماسٹر ریٹائر ہوئے۔ میں آج اگر کچھ ہوں تو صرف اور صرف والدین کی تربیت کی وجہ سے ہوں۔ اللہ کریم ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے…… اس خط کا مخاطب وہ بھائی ہے جو مجھ سے 9برس چھوٹا ہے۔ اس پر بھی والدین کی عطاؤں اور دعاؤں کے طفیل علم و ادب کی جودو سخا کی بارشیں ہیں۔ نئی نسل سے گزارش ہے کہ وہ یہ بھی دیکھے کہ مل جل کر رہنے اور غربت کی لکیر سے اوپر اٹھنے میں رشتے ناطے کیا انمول رول ادا کرتے ہیں۔
……………………
لاہور
30اگست 2002ء
برادر عزیزم!
سلام منون۔ بعض اوقات شدید قسم کا ماضی پرستانہ عارضہ لاحق ہو جاتا ہے جسے انگریزی میں ناسٹلجیا کہتے ہیں۔ یہ یادیں ایسی ہیں کہ مجھے ہر لحظہ کلیجہ تھامنا پڑتا ہے۔ کیا اچھے دن تھے جب والد مرحوم اور والدہ مرحومہ آپس میں لڑتے جھگڑتے تو تھے لیکن یہ لڑائی زیادہ طول نہیں کھینچتی تھی۔ بس وہی حال تھا جس کا نقشہ میں نے کسی اپنے شعر میں یوں کھینچا تھا:
تو تھا تو تیرے ساتھ بہم دل لگی بھی تھی
شیر و شکر کبھی تو کبھی برہمی بھی تھی
صبح سکول جانے سے پہلے رسوئی خانے میں چولھے کے سامنے بیٹھ جانا، وہی اور پراٹھے سے ناشتہ کرنا، دریں اثناء داؤد ماشکی کا گھڑوں اور مٹکوں میں پانی بھرتے رہنا، والد صاحب کا چھوٹا تہمد باندھے صحن میں مٹرگشت کرنا، منہ میں مسواک چباتے رہنا اور اسی عالم میں بعض اوقات کسی بات کو یاد کرکے پہلے منہ ہی منہ میں بڑبڑانا اور پھر گالیوں کی بوجھاڑ اور پھر اگلے ہی لمحے قہقہوں کی بھرمار اور پھر یکایک سامنے والے کمرے میں جا کر غائب ہو جانا، تیل کی مالش کے بعد وہاں سے اچانک نمودار ہونا، صحن کے ایک کونے میں بنے اوپن غسل خانے میں جا کھڑے ہونا اور دو مٹکوں کے پانی سے غسل کرنا، دھلے دھلائے کپڑے پہننا اور خاص طور پر کلاہ والی سفید پگڑی زیبِ سر کرنا، اور بعدازاں سکول کی راہ لینا…… اور ہمارا بھی بستہ پکڑے سکول کا رخ کرنا، واپس آنا، جلد جلد کھانا نگلنا، باہر فٹ بال الیون کا گلی میں منتظر رہنا، دروازے سے باہر قدم رکھتے ہی سب کا پیرکریاں (ایک گاؤں کا نام جو شہر سے دو میل دور تھا) کی طرف بھاگ اٹھنا، راستے میں آم، وَنگے، کھیرے اور چھوٹے کوکن اور موٹے بیروں کے درخت تقریباً بے ثمر کر دینا، کسانوں کا دیکھ کر ہمیں للکارنا اور جب ان کا نزدیک آنا تو 100میٹر کی ریس کے حساب سے بھاگ کر ان کو مڑ مڑ کر دیکھتے جانا اور جاتے ہی قمیضیں اتار کر نہر میں چھلانگیں لگا دینا…… کیسے روح پرور مناظر تھے!
نہر سے واپس آنا تو ’لوڈھے ویلے‘ کا کھانا نذرِ شکم کرنا، رات کو دودھ لینے دودھ والی اماں کے گھر جانا، رات کا کھانا چارپائیوں پر خود لے کے آنا، دودھ کا گلاس غٹا غٹ کرنا، والد صاحب کو ہنوز تخت پوش پر نماز پڑھتے دیکھنا اور نیند نے آ گھیرنا، علی الصبح والد مرحوم نے سب کو اٹھانا کہ نماز پڑھو!
کیا بے فکرے ایام تھے!…… گالی گلوچ اور مارپیٹ کا کچھ غم نہیں ہوا کرتا تھا، جس دن والدہ کی جھڑکیاں نہ پڑتیں، طبیعت اداس رہتی۔ اب سوچتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ مجھ پر اس والدینی سرزنش اور زد و کوب کا الٹا اثر ہوا کرتا اور میں اپنے ماحول کو تبدیل کرنے کا ایک نفسیاتی پروگرام تحت الشعور میں پروان چڑھتا دیکھتا جس کا قطعاً شعور نہ تھا۔ محلے کے بے شمار دوست یار، والدہ کی لاتعداد سہیلیاں اور والد کی بے محابا دوستیاں سب کی سب کسی خاص خبر کی حامل نہیں ہوا کرتی تھیں۔ معلوم ہوتا تھا یہ سب کچھ معمول کے عین مطابق جا رہا ہے اور حسبِ حال ہے۔
پھر خدا بُرا کرے اس علم اور تعلیم کا…… ایف اے کیا، بی اے اور ایم اے وغیرہ کیا تو دو اور دوچار کی سمجھ بوجھ آ گئی۔ اس سمجھ بوجھ نے نادانی، بچپن اور لڑکپن کا معصوم ماحول غارت کر دیا۔ ذرا اور آگے بڑھے تو تھوڑے سے علم نے ’بے علمی‘ کا رومانس ہی ختم کر دیا۔ رشتوں کو دل سے نہیں، دماغ سے تولنے کا کلچر پروان چڑھنے لگا۔ یہ سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا۔ والد اور والدہ تو دل کے اسیر رہے اور میں (اور شائد آپ لوگ بھی) دماغ کے پیمانے سے چیزوں کو سوچنے لگے۔ اب خیال آتا ہے کہ یہ وقفہ ہمارے اور والدین کے مابین اختلافاتِ خیالات کی ابتدا تھی…… کاش ایسا نہ ہوتا۔ کاش والدین میں کچھ لچک اور ہم میں ’بدتمیزی‘ کی کچھ کمی ہو جاتی۔ ہم لوگ اتنے امیر نہ تھے بلکہ غربا (یا زیادہ سے زیادہ اپر مڈل طبقے) میں شمار ہوتے تھے۔ والد کو بالخصوص اپنے علم و فضل اور پدرانہ تحکم کا زعم تھا اور کچھ غلط بھی نہ تھا۔ آخر ہم تو ان کی نظروں میں Toddlersہی تھے۔ بڑے ہو گئے تھے، سیانے بھی ہو گئے تھے لیکن والدین بھی ہم سے بڑے اور ہم سے سیانے ہو گئے تھے۔ دریں اثناء گردشِ ایام گھومتی رہی اور میرا دل جو آپ سب سے انتہائی حساس اور نازک تھا وہ نجانے کسی یارِ دلنواز کی تلاش میں کیوں رہتا تھا۔
مجھے ایک ایسے یارِ دلستان کی تلاش تھی جو میرے اندر کی پوشیدہ صداقتوں کے طوفانوں کا صحیح ادراک کرتا، بے وجہ زخمی ہونے والے دل پر مرہم رکھتا، دلجوئی کرتا اور نظر نہ آنے والے زخموں کے اندمال کا باعث ہوتا، محبت کے دو بول بولتا اور مجھے احساس دلاتا کہ میں جو کچھ بھی ہوں، اس کے لئے ایک متاعِ بے بہا ہوں۔ میں ناکارہ اور بے وقعت نہیں، بہت سی خوبیوں کا مالک بھی ہوں۔ علم کی بلوغت جوں جوں آگے بڑھی احساسات و جذبات کی عدم بلوغت بھی بڑھنے لگی۔ سکول یا کالج کا کوئی استاد میرے ان رموزِپنہانی کا شناسا نہیں تھا اور ہوتا بھی تو وہ کلاس میں کیسے سمجھاتا کہ میرا یہ روگ تو انفرادی تھا، اجتماعی نہیں تھا۔ میں حیران تھا کہ رشتہ دار اور عزیز و اقربا ہمارے خاندان سے حسد کیوں کرتے تھے۔ مجھے ایک ایسے ساتھی کی جستجو تھی جو مجھے کہتا: ”جیلانی صاحب! تم نے آگے نکلنا ہے اور گرد و پیش کی بے وفائیوں، جھگڑوں، خاندانی رقابتوں، دشمنیوں، طعنوں، بڑی بولیوں اور محرومیوں کے انبار کو پیچھے چھوڑنا ہے اور ان پر وقت برباد نہیں کرنا، جیلانی صاحب! یہ لمحے واپس نہیں آئیں گے، ان کی قدر کرو۔“
پھر فطرت کو شاید مجھ پر رحم آ گیا۔ اور آخر وہ یارِ دلنواز مل گیا…… ثریا بیگم، ثریا جیلانی بن گئی۔ وہ میری پھوپھی زاد تو تھیں لیکن شاید ہم زاد بھی تھیں!…… انہوں نے میری توقعات سے بڑھ کر میری راہنمائی کی۔ میرا رواں رواں ان کی خدمات کا مدح خواں ہے۔ میری کیفیت وہ ہو گئی جو اقبال نے اس شعر میں بیان کی ہے:
جستجو جس گل کی تڑپاتی تھی اے بلبل مجھے
خوبی ء قسمت سے آخر مل گیا وہ گل مجھے
گاڑی کا ٹیپ ریکارڈر آن کرتا ہوں تو بعض اوقات وہ پرانے گانے لگ جاتے ہیں جو میں ابا جی والے گھر میں تھا تو باربر کی دکان پر جا کر سنا کرتا تھا۔آپ کو یاد ہے ایک تنگ سی گلی میں یوسف باربر کی دکان ہوا کرتی تھی۔ اس کے پاس ایک بڑا سا ریڈیو ہوا کرتا تھا (شاید PYE اس کا برانڈ نام تھا) اس میں دو بجے دوپہر سے تین بجے تک بھارتی انڈین اسٹیشن سے ’آپ کی فرمائش‘ پروگرام میں بھارتی فلموں کے گانے نشر ہوتے تھے۔ دو آنے کی شیو ہوتی تھی اور دو گھنٹے کا قیام ہوتا تھا، یوسف حجام کی دکان پر!
اب جب بھی ان گانوں میں سے کوئی گانا ٹیپ ریکارڈر پر لگتا ہے تو میں اس ماحول میں پہنچ جاتا ہوں …… وہی تنگ گلیاں،وہی لوگ، وہی دوست، وہی آبائی گھر، وہی نارسائیاں اور ناتمامیاں، وہی ایک اَن دیکھا سا مستقبل، وہی سہانی آرزوؤں اور تابناک تمناؤں کا ایک محل، نزولِ امارت کی امید، خوبصورتی کا تجسس، خوب سیرتی کی تمنا، دل کی عجیب سی چاہتیں، کسی کی محبت میں ہنسنا اور رونا، کسی کو ٹوٹ کر چاہنا، کسی کو تڑپانا، کسی کے لئے تڑپنا، کبھی امیر بن جانا، کبھی غریب ہو جانا۔ لیکن دل کی غربت سے اللہ کی پناہ مانگنا، اخلاقیات کے اعلیٰ ترین معیاروں کی تلاش، دھوکہ دہی اور فریب کاری وغیرہ سے نفرت، رشتوں کا احترام…… یہ ساری نعمتیں، ربِ ذوالجلال کا شکر ہے کہ بعد میں میرے اوپر ایک ایک کرکے برسیں اور میں ان میں بھیگتا رہا، پھر سوکھتا رہا اور پھر بھیگتا رہا۔ اس عمل سے آب و ہوائے دہر سے ایک گہری مانوسیت پیدا ہو گئی…… کیسا کرم کیا اللہ کریم نے مجھ پر…… میں کس قابل ہوں کہ ان کا احاطہ کر سکوں۔
یہ خط ایک عجیب کیفیت کے زیر اثر لکھ رہا ہوں۔ ثریا پہلے سے بہتر ہیں۔ بچوں کو پیار…… تمہارا بھائی…… جیلانی