علامہ خادم حسین رضوی کا جنازہ
علامہ خادم حسین رضوی اچانک ہی اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے، ان کے چاہنے والوں کے لئے
بلا شبہ یہ ایک بہت بڑا صدمہ ہے۔علامہ خادم حسین رضوی کے مداحوں نے جس جوش و خروش کے ساتھ ان کو دنیا سے رخصت کیا اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ان کو الوداع کہنے کے لئے جوق در جوق لوگوں نے مینار پاکستان کا رخ کیا،تاحد نگاہ سر ہی سر نظر آ رہے تھے، سڑکیں بھری ہوئیں تھیں، اتنی بڑی جگہ بھی کم محسوس ہو رہی تھی۔کہا جا رہا ہے کہ ان کا جنازہ پاکستانی تاریخ کے بڑے جنازوں میں سے ایک تھا۔
علامہ خادم حسین رضوی کا انداز خطابت پر زور تھا، وہ بولتے تھے اور دنیا انہیں سنتی تھی۔ان میں اتنا دم خم تھا کہ جو ٹھان لیتے پھر کسی بھی قیمت پر حاصل کرکے دکھاتے۔ ان کا پہلا دھرنہ بھی کامیاب تھا اور آ خری بھی۔حال ہی میں انہوں نے فرانسیسی صدر کی طرف سے گستاخانہ خاکوں کی حمایت پر آواز بلند کی، فرانسیسی سفیر کو واپس بھیجنے کا مطالبہ کیا، اپنی بات منوانے کے لئے فیض آباد، اسلام آباد میں دھرنہ بھی دیا اور حکومت کے ساتھ کامیاب مذاکرات کے بعد ہی واپس لوٹے۔انہوں نے آخری خطاب بھی وہیں کیا۔پھر ان کی طبیعت خراب ہو گئی، لاہور آنے پر بخار کو زیادہ سنجیدہ نہیں لیا، سانس کا مسئلہ ہو گیا اور پھر دل کا دورہ جان لیوا ثابت ہوا۔ ان کی اسی لگن نے انہیں دنیا میں عاشقَ رسول بنا دیا۔تحریک لبیک پاکستان کے رہنما اور کارکنان افسردہ ہیں، ان کا غم یقیناً بہت بڑا ہے۔اب علامہ خادم حسین رضوی کے بعد تحریک لبیک پاکستان کی باگ دوڑ ان کے بیٹے کے حصے میں آئی ہے، دیکھنا یہ ہے کہ وہ اس تحریک کو کیسے لے کر آگے بڑھتے ہیں۔ ہم تو یہی دعا کر سکتے ہیں کہ الٰلہ ان کی مغفرت کرے اور ان کے درجات بلند کرے۔آمین