اللہ، علی احمد کرد کو سلامت رکھے
اس بار کتنے ہی موضوعات ہاتھ باندھے کھڑے ہیں کہ ان پر خامہ فرسائی کی جائے۔ کچھ کہا جائے، کچھ لکھا جائے، ان کی آڑ میں اپنے دل کی بھڑاس نکالی جائے کہ ہم یہی کچھ تو کر رہے ہیں آجکل…… سب سے اہم تو حکومتی پارٹی اور ہمنواؤں کا دھوبی پٹکا ہے جو پارلیمینٹ کے مشترکہ اجلاس میں اور پھر سینٹ میں دیکھنے کو ملا۔ اپوزیشن پارٹیوں میں اشتراک عمل ایک بار پھر جوبن پر تھا اور خود اعتمادی آسمان کو چھو رہی تھی کہ حکومتوں نے انہیں چاروں شانے چت کر دیا۔ ایک دو نہیں اپنی مرضی کے درجنوں بل منظور کرالئے۔ اسی ہنگام تحریک لبیک کے نو آموز قائد سعد رضوی کی رہائی اس معاہدے کے تحت عمل میں آ گئی کہ جس کے مندرجات تو صیغہ راز میں ہیں مگر ان پر عمل ہو رہا ہے اور ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ان کی رہائی ان کے والد مرحوم کے پہلے عرس سے محض ایک آدھا دن پہلے عمل میں آئی تاکہ وہ اس موقعہ پر اپنے بلکہ اپنے ابا حضور کے معتقدین کے درمیان ہوں۔ ان اہم ترین واقعات اور ان کے مضمرات پر قلم اٹھانے کی خواہش اس وقت دھری رہ گئی جب لاہور کے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں وکیل رہنما عاصمہ جہانگیر کی یاد میں وکلاء کی تقریب کا انعقاد عمل میں آیا۔ یہ تقریب عاصمہ جہانگیر کے غمگساروں کی کم اور نظام کے باغیوں کی زیادہ لگ رہی تھی۔ اس کے باوجود دل کر رہا ہے کہ ٹی ایل بی کے موجود سربراہ حافظ سعد رضوی کے اپنے والد کے عرس کی آخری نشست سے اختتامی خطاب کا ایک جملہ نقل کروں جو فصاحت و بلاغت کے ہزار جملوں پر بھاری ہے۔ اس نوجوان نے کہا کہ ”پاکستان میں نئے صبح و شام پیدا ہو چکے ہیں جس کا نظریہ کمزور ہو اس کے ہاتھ میں ایٹم بھی بیکار ہے“ واپس آتے ہیں عاصمہ جہانگیر ریفرنس کی طرف۔
دو روز تک جاری رہنے والے اس ریفرنس کے متعدد اجلاس ہوئے، ان میں ہر اجلاس یا سیشن کا الگ موضوع تھا مگر جس سیشن کی صدارت چیف جسٹس مسٹر جسٹس گلزار احمد نے کی اور میلہ برنگ وکیل رہنما علی احمد کرد نے لوٹ لیا۔ ان کا خطاب اتنا دھواں دھار تھا کہ بعد میں آنے والے مقررین اپنا اپنا تیار کردہ خطاب بھول گئے اور علی احمد کرد کی باتوں کا جواب دینے لگ گئے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ اور خود چیف جسٹس نے تو اس کا اظہار بھی کر دیا کہ وہ موضوع پر جو تقریر لکھ کر لائے تھے اب وہ نہیں کریں گے بلکہ علی احمد کرد کی باتوں کا جواب دیں گے۔ علی احمد کرد کی تقریر چارج شیٹ تھی۔ وہ ازلی باغی ہیں اور بغاوت ان کی سرشت لگتی ہے۔ جب وہ عدلیہ بحالی تحریک میں بڑھ چڑھ کر قائدانہ کردار ادا کر رہے تھے تو وہ چیف جسٹس افتخار چودھری کا دایاں بازو اور بھائی لگ رہے تھے مگر جونہی وہ بحال ہوئے اور انہوں نے جوڈیشل ایکٹوازم (عدالتی فعالیت) میں اعتدال کا راستہ ترک کرنے کی کوشش کی تو سب سے پہلے اپنے ہی ممدوح کے خلاف آواز بلند کرنے والوں میں وہ سر فہرست تھے۔ وہ مخالفت میں لگی لپٹی رکھنے کے قائل نہیں اب بھی انہوں نے چیف جسٹس صاحبان کی موجودگی میں جب سوال اٹھایا کہ کون سی عدلیہ؟ کہاں ہے عدلیہ؟ تو چیف جسٹس آف پاکستان کا غصہ میں آنا تو بنتا تھا اور انہوں نے بھی کمال جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اعلان کر دیا کہ عدلیہ پر نہ کبھی دباؤ تھا نہ ہے اور نہ آئے گا اور اگر کبھی عدلیہ پر دباؤ آیا تو ہم عہدہ چھوڑ دیں گے۔
یہ اعلان تو بہت مجاہدانہ ہے مگر ماضی کے حوالے سے انہوں نے جو کچھ دعویٰ کیا اس کو حاضرین کی تائید حاصل نہ ہو سکی اور مخالفانہ فقروں اور جملوں کی آوازیں بلند ہوئیں۔ علی احمد کرد کا خطاب تو اعلیٰ عدلیہ کے اہم اور مقدس عہدیداروں کے لئے یقیناً ناقابل قبول بلکہ نا قابل برداشت ہوگا مگر اس موقع پر ایک جرنیل اور بائیس کروڑ عوام نے بار بار دہرائے جانے والے جملے پر نوجوان وکلاء نے ”آزادی۔ آزادی“ کے جو نعرے لگائے ان کا مظاہرہ بلوچستان میں تو دیکھا جاتا رہا ہے لاہور میں اس کا تصور نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اسی طرح صحافیوں پر نادیدہ ہاتھوں کا تشدد اور اغوا وغیرہ کے ذکر پر جو ماحول پیدا ہوا وہ بھی نپجاب کی فضاؤں میں نیا تھا۔ حامد میر اپنی ڈگر پر چل رہے ہیں۔ اس ریفرنس میں بھی انہوں نے مطیع اللہ خاں، خالد طور اور ابصار عالم کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کا حوالہ دے کر آزادی صحافت کا دعویٰ کرنے والوں کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی۔ علی احمد کرد میلہ لوٹنے کا فن جانتے ہیں اور وہ اس مقصد کے لئے کسی ”حدود و قیود“ کے قائل نہیں۔ وہ خود کو مرد مجاہد ثابت کرنے کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ اس بار بھی انہوں نے عدالت عظمیٰ اور عدالت ہائے عالیہ کے سربراہوں کی موجودگی میں غریب اور مظلوم ”طالبانِ انصاف“ کا مقدمہ جس طرح پیش کیا وہ انتہائی جرأت مندانہ تھا مگر ادھورا بھی تھا۔ انہوں نے مقدمات کے التوا کی ساری ذمہ داری ججوں پر ڈال دی حالانکہ اس میں خود وکیل سب سے زیادہ ذمہ دار سمجھے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارا عوام کا مقدمے کے فریقین کا مائینڈ سیٹ بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ہمارا مؤقف اگر کسی مقدمے میں کمزور ہے تو بھی ہم ہارنا برداشت نہیں کرتے ہر قیمت پر اپنا مؤقف تسلیم کرانا چاہتے ہیں اور اگر فیصلہ اپنے حق میں آتا دکھائی نہ دے تو مقدمے کو تادیر لٹکانے کو اپنی کامیابی گردانتے ہیں۔
اس مقصد کے لئے عدالتی عملے کو رشوت اور وکیل کو بھاری فیس دیتے چلے جاتے ہیں۔ اگر کوئی جج کسی وکیل کا تاخیری بہانہ یا حربہ تسلیم نہیں کرتا اور فیصلہ جلدی دینے کی کارروائی کر ڈالتا ہے تو بار کی طرف سے اسے جس ردعمل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کے مظاہرے بار بار سامنے آ چکے ہیں۔ جب ماتحت عدلیہ ہی نہیں خود اعلیٰ عدلیہ کا کوئی جج اس طرح کی صورتحال میں گھر جاتا ہے تو اعلیٰ عدلیہ کی مقتدرہ اس کی مدد کو نہیں آتی بلکہ بار کے مطالبات کو پذیرائی دے کر متاثرہ جج کو ہی کہیں اور یا کھڈے لائین بھیج دیا جاتا ہے۔ اس تاثر کو جب تک زائل نہیں کیا جائے گا اس وقت تک ججوں کی ٹانگوں میں اتنی جان نہیں آئے گی کہ وہ ضمیر کی عدالت میں مضبوطی سے کھڑے رہیں۔ علی احمد کرد صاحب کو اپنے اندر یہ ہمت بھی پیدا کرنی چاہئے کہ وہ اپنے بھائی بندوں کے حربوں اور چالاکیوں کو طشت از بام کر سکیں جو اصلاح احوال کی خشت اول ہوگی۔ بات وہی ہے کہ ہم سب اگر اصلاح کا آغاز اپنی ذات سے کریں اور اس سے بھی پہلے خود احتسابی اور اپنے گریبان میں جھانکنے کی عادت ڈال لیں تو انگلی دوسروں کی طرف اٹھانے سے لذش کشید کرنے کا معمول ترک کر دیں تو چیزیں خودبخود ٹھیک ہونے لگ جائیں گی۔