میلسی (نامہ نگار)تعلیمی اداروں میں ہر کلاس کے بچے یابچی کے ذہن کو رٹے کی سلیٹ بنا دیا گیا ہے جس کی بنا پر کلاس رومز میں طلبہ و طالبات میں سائنسی طرز فکر مفقود ہو چکا ہے وہ موضوع تدریس پر سکولز میں سوال کر نے کی جرات نہیں کرتے جس سے خود اعتمادی ختم کی (بقیہ نمبر50صفحہ7پر)
جارہی ہے اور ان کی تخلیقیت پر منفی اثر پڑا ہے۔ اکیسویں صدی میں سٹوڈنٹس کو "سائنٹسٹ" بنانا اداروں کا کام ہے اور ابتدائی تعلیم ادارے اس کی اساس رکھتے ہیں۔مختلف دانشور شخصیات کے مطابق اس ضرورت سے سیاسی رہ نما اور ہالیسی میکربیورو کریسی واقف ہیں مگر آج تک کچھ رائج نہیں کیا جا سکا۔ تجسس۔سوچ۔فکر سے خالی کلاس رومز سائنسی انداز سے خالی بنے ہوئے ہیں جہاں کوئی پراجیکٹ بنانے کی آرزو پیدا ہوتی ہے نہ سکل /مہارت سیکھنے کی خواہش کا طلوع ہوتا ہے۔سوالیہ فہم ختم ہورہی ہے۔"رٹہ" انہیں اس طرف لے جارہا ہے جہاں تعقل کی بجائے فرسودہ روایات کی اندھا دھند تقلید بڑھ رھی ہے ۔جس سے طلبہ و طالبات میں سائنسدان بننے والا ملک اور بالخصو ص میلسی سمیت پورے جنوبی پنجاب میں مطلوبہ سائنٹیفک مائنڈ سیٹ پیدا نہیں ہورہا ہے۔امتحانی نظام بھی اس رٹے بازی کو" اسیسمنٹ "پر ترجیح دینے والا ہیاور مسلسل کئی سالوں سے رٹے کے ذریعے اعلی پوزیشنوں کا حصول کر کے تعلیم میں عالمی جدید تقاضوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہیماہرین تعلیم کے مطابق ایک موضوع پر گرفت تب ہوتی ہے جب کلاس روم میں اسٹوڈنٹس اس موضوع کے پہلوں۔ بارے سوچیں استاد سے سوالات کریں اس کی بنیاد پر ٹیکنالوجی بارے کوئی سوچ بنائیں ۔ماہرین کے مطابق نء سائنسی اپروچ اساتذہ۔والدین۔طلبہ و طالبات اور ہالیسی میکرز کے ربط سے ممکن ہوگی۔