مصنف:جسٹس (ر) بشیر اے مجاہد
قسط:93
میاں نواز شریف اور اُن کے خاندان کے لوگ میاں کہلاتے ہیں۔ نہ معلوم مغلیہ خاندان سے اُن کا کوئی تعلق ہے یا نہیں مگر اُن کے رویہ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ شاہی خاندان بنا رہے ہیں۔
افواج پاکستان کا ادارہ پاکستان کا ایک بہت بڑا اور خودمختار ادارہ ہے۔ دنیا بھر میں ہر ملک کے دفاعی اخراجات اور حساب کتاب خفیہ رکھا جاتا ہے۔ میڈیا دفاعی نوعیت اور فوج کے بارے میں تمام خبروں کو متعلقہ افسروں سے چیک کرانے کے بعد نشر کرتا ہے مگر ہمارے جمہوری لیڈر یہ چاہتے ہیں کہ فوج کے بارے میں تمام خبریں اور اطلاعات ہر روز اخبارات میں شائع ہوتی رہیں۔ دُنیا بھر میں ہر ملک کی افواج کے اعلیٰ حکام کی گاہ بہ گاہ ملاقاتیں اور اجلاس ہوتے رہتے ہیں مگر ہمارے ملک میں سیاسی حکومت یہ چاہتی ہے کہ فوج کے بجٹ اور تمام اخراجات کا آڈٹ سیاسی حکومت کے کارندے کریں جو کہ دُنیا میں کہیں نہیں ہوتا۔ فوج کا اپنا آڈٹ و اکاؤنٹس کا شعبہ بہت طاقتور اور مضبوط ہے۔ فوج کے اندر اُن کا اپنا احتساب اور انصاف کا نظام بہت مضبوط ہے۔ ان حالات میں یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ فوج کی قیمت پر سیاست کریں۔ دُنیا بھر میں ایک ہی اصول قائم ہے کہ جس ملک کی اپنی فوج نہیں ہوتی وہاں کسی اور ملک کی فوج ہوتی ہے۔ 1998ء میں بھی ہماری یہ سیاسی حکومت چاہتی تھی کہ ملک میں فوجی عدالتیں قائم کی جائیں۔ جس کی فوج نے خود مخالفت کی۔ ہمارے ملک میں سویلین عدالتوں سے کام کیوں نہیں لیا جاتا؟ ہمارے ملک میں اینٹی کرپشن اور ہر قسم کی بدعنوانی کے لئے بہت ہی مؤثر قوانین ہیں۔ اُن کے لئے سزائیں بھی ہیں۔ مگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ غریب آدمی کے لئے چپڑاسی اور کلرک کی سطح کی کرپشن کے لئے اینٹی کرپشن کی عدالتیں عام قوانین کے تحت کام کریں اور جو لوگ کروڑوں اربوں روپے کی کرپشن کرتے ہیں ان کے لئے اعلیٰ درجہ کی عدالتیں کام کریں جہاں برس ہا برس روپے کا لین دین ہو اور کوئی فیصلہ نہ ہو۔
سابق صدر آصف علی زرداری سے سوئس بنکوں میں رکھے گئے سرمایہ کو صرف اس لئے برآمد نہیں کیا گیا کہ اُن کو یہ مراعات دی جائیں۔ جواب میں وہ بھی مقدمات نہ چلائیں۔ ایک دوسرے کو چھوڑ دیا جائے۔ جو کسی نے کھا لیا باپ کا مال ہے۔ احتساب عدالتوں میں چلنے والے یہ مقدمات اگر اینٹی کرپشن مجسٹریٹ اور جج کے پاس ہوتے تو چوری کیا گیا سرمایہ قومی خزانہ میں ہوتا اور مجرم جیلوں میں سزائیں بھگت رہے ہوتے۔
دہشت گردوں کے خلاف سزاؤں پر عمل درآمد کے لئے فوجی عدالتوں کی ضرورت کیوں آن پڑی……؟ فوج تو پہلے ہی دہشت گردوں کے خلاف ایک نہیں بیسیوں محاذ کھول کر کام کر رہی ہے۔ ہماری فوج اور فضائیہ دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو تباہ کر رہے ہیں۔ ایسے موقع پر ملک میں ایک نیا عدالتی نظام بنانے کی کیا ضرورت ہے۔ جو دہشت گرد ہیں اُنہیں پہلے جو سزائیں دی گئی ہیں جن عدالتوں نے یہ سزائیں دی ہیں اُن پر عمل درآمد کیا جائے۔ یہی سول اور اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان کے نام اور ایڈریس اعلان کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ جج صاحبان دہشت گردوں کو سزائیں دیں ان پر عمل درآمد کرایا جائے اور دہشت گردوں کی تصویریں اور اُن کے کارنامے اخبارات میں شائع نہ کئے جائیں۔ اُنہیں ہیرو نہ بنایا جائے بلکہ صرف سزا دی جائے۔
حکومت اعلیٰ عدلیہ سے یہ کام صرف اس لئے لینا نہیں چاہتی کہ یہ لوگ جرأت پکڑ کر ملک کے بدعنوان اور کرپٹ عناصر کو بھی اس دلیری سے سزائیں نہ دیں۔ اعلیٰ عدلیہ کو اس کا موقع دیا جانا چاہیے کہ وہ اس ملک کے دہشت گردوں کو خود شدید اور سخت سزائیں دے۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔