بھارت کے صدر کی منطق

بھارت کے صدر کی منطق
بھارت کے صدر کی منطق

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

25جولائی2012ءکونئے بھارتی صدر پرناب مکر جی نے اپنے عہدے کا حلف لیا۔ سربراہ مملکت کا منصب سنبھالنے کے فوراً بعد انہوں نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اُن کی دانست میں گذشتہ چند برسوں سے چوتھی عالمی جنگ جاری ہے۔اپنی بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ گذشتہ صدی کی پہلی اور دوسری عالمی جنگیں تو تاریخ کا حصہ ہیں، جبکہ امریکہ اور سابقہ سوویت یونین کے مابین سرد جنگ کو اُنہوں نے تیسری عالمی جنگ کا نام دیا،جس کا اختتام سوویت یونین کے خاتمے پر ہوا۔بھارتی صدر کے مطابق اِس کے بعد نائن الیون کے سانحہ سے لے کر اب تک چوتھی عالمی جنگ جاری ہے ،جسے دہشت گردی کے خلاف عالمی لڑائی کا نام دیا جاتا ہے۔ بھارت کے نئے صدر کے اِس موقف کو مبصرین نے جزوی طور پر درست قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ بھارتی صدر مملکت اگر یہ وضاحت بھی کردیتے کہ چوتھی عالمی جنگ کا اصل ہدف مسلمانانِ عالم بن رہے ہیں اور بھارت جارح ممالک کی صف اول میں شامل ہے تو شاید اُن کا موقف زیادہ جامع اور حقیقت سے قریب تر ہوجاتا ،کیونکہ اِس امر میں کسی کو شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر،آسام کے علاوہ بلوچستان، سندھ اورپاکستان کے دیگر علاقوں اور افغانستان میں ہر ممکن ڈھنگ سے دامے، درمے اور سخنے اِس چوتھی(مبینہ) عالمی جنگ میں اپنا جارجیت پر مبنی حصہ ڈال دیا ہے۔اِس صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے غیر جانبدار حلقوں نے کہا ہے کہ27اکتوبر2012ءکو ریاست جموں وکشمیر پر بھارت کے ناجائز قبضے کے65برس مکمل ہورہے ہیں،اِسی حوالے سے دُنیا بھر کے انسان دوست حلقوں کی توجہ مبذول کرانے کے لئے پوری کشمیری قوم اور دیگر اعتدال پسند طبقات اِس دن کو یوم سیاہ کے طور پر منا رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی منظور کردہ متفقہ قراردادوں کی صورت میں تمام عالمی برادری کشمیری قوم سے وعدہ کرچکی ہے کہ اُنہیں اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرنے کا موقع فراہم کیا جائے گا۔اِس مقصد کے لئے ”استصواب رائے“ کا حق دیا جائے گا، مگر تاحال یہ وعدہ وفا نہیں ہوسکا۔دوسری جانب سلامتی کونسل کی قرارداوں کے مطابق”لیبیا“ میں نہ صرف قذافی حکومت ختم ہوچکی ہے،بلکہ وہ خود بھی جاں بحق ہوچکے ہیں ، اب شام اور ایران کے حوالے سے عالمی قوتیں اکثر وبیشتر اقوام متحدہ کی قرارداوں کا ذکر کرتی رہتی ہیں۔اِس سے پہلے ماضی قریب میں مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان کی بابت جس سرعت کے ساتھ سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل کرایا گیا، وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے، مگر اِسے ستم ظریفی ہی قرار دیا جاسکتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے اگست1948ءاور5جنوری1949ءکی سلامتی کونسل کی قراردادوں کا ذکر عالمی برادری کے چوھدری بھولے سے بھی نہیں کرتے۔اِس امتیازی، بلکہ مجرمانہ عالمی رویے کو کیا نام دیا جانا چاہیے،اِس کا فیصلہ خود بین الاقوامی اعتدال پسند رائے عامہ کو ہی کرنا ہے اور امریکہ اور بھارت سمیت اُن کے اکثر اتحادی جو دہرے معیار اپنائے ہوئے ہیں ،اُن کی بابت حیرت اور افسوس کا اظہار ہی کیا جاسکتا ہے۔خود بھارت کے باضمیر حلقوں کو بھی غالباً اِس جانب سنجیدگی سے توجہ دینا ہوگی۔ بعض ہندوستانی دانشوروں نے28ستمبر2012ءکوبھگت سنگھ کی105ویں سالگرہ مناتے ہوئے بالواسطہ طور پر کشمیر کی جدوجہد آزادی کا تذکرہ بھی کیا اور کہا کہ ایک جانب تو بھارتی حکومت کی سرپرستی میں بھگت سنگھ جیسے مسلح انقلابی کو بھارت میں قومی ہیرو کا درجہ دیا جاتا ہے ،ایسے میں کشمیر کے حریت پسندوں کو کس بنیاد پر دہلی سرکار اور اُس کے حواری دہشت گرد قرار دے سکتے ہیں؟ یوں بھی زمینی حقائق اِس امر کے گواہ ہیں کہ مقبوضہ ریاست میں تحریک آزادی آج بھی پہلے کی طرح فعال ہے ۔تبھی تو26تا29ستمبر کو بھارتی صدر پرناب مکر جی کے دورہ مقبوضہ کشمیر کے دوران ریاست میں مکمل ہڑتال رہی اور یونیورسٹی طلباء،اساتذہ اور عام لوگوں نے بھارتی قومی ترانے کے احترام میں کھڑا ہونے سے نہ صرف اعلانیہ انکار کیا، بلکہ بھارت کے قبضے کے خلاف شدید نعرے بازی بھی کی گئی۔ علاوہ ازیں مقبوضہ کشمیر کی نام نہاد پنجائتوں کے پردھانوں کے11رکنی وفد نے شفیق میر کی قیادت میں27ستمبر2012ءکو دہلی میں راہول گاندھی(جو سونیا گاندھی کے صاحبزادے اور کانگریس کے جنرل سیکرٹری ہیں)سے ملاقات کی او راُن سے کہا کہ کشمیر کے حریت پسند عوام کی جانب سے اُن کی جان ومال کو خطرہ ہے ،اگر اُن کی حفاظت دہلی سرکارنے یقینی نہ بنائی تو سبھی پردھان (ناظمین) اجتماعی طورپر اپنے عہدوں سے مستعفی ہوجائیں گے۔ کثیر الاشاعت ہندی اخبار”امراُجالا“ نے28ستمبر کی اشاعت میں لکھا کہ راہول گاندھی نے اُنہیں تسلی دی اور کہا کہ ہر”پردھان“ کو20لاکھ روپے بھی ملیں گے اور سیکیورٹی بھی بڑھائی جائے گی۔اِس سے اگلے ہی روز 50پنچایت پردھانوں نے استعفا بھی دے دیا،جس کے بعد راہول گاندھی ہنگامی طور پر مقبوضہ کشمیر گئے۔ مقبوضہ ریاست میں بھارت مخالف جذبات کا تو یہ عالم ہے کہ کٹھ پتلی وزیراعلیٰ عمر عبداﷲ نے اپنے ترجمان تنویر صادق کے ذریعے اعلان کیا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی آئین کی 73 ویں اور74ویں ترمیم لاگو کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔واضح رہے کہ اِس ترمیم کے تحت پنجایتی نظام کو مزید موثر بنایا گیا ہے۔روزنامہ ”جاگرن“ نے28ستمبر2012ءکو انکشاف کیا کہ عمر عبداﷲ کے ترجمان نے کہا کہ مقبوضہ ریاست کا اپنا آئین ہے لہٰذا وہاں بھارتی آئین کے نفاذ کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ مبصرین کے مطابق ایسی باتیں چاہے کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ عوامی دباﺅ کے تحت ہی کرتے ہیں، لیکن یہ اِس امر کا اظہار ہے کہ کشمیری عوام کی بھاری اکثریت بھارتی قبضے کو دل سے تسلیم نہیں کرتی۔تبھی27اکتوبر کو یوم سیاہ منایا جاتا ہے۔توقع ہے کہ عالمی برادری اور خود بھارت کے اعتدال پسند حلقے اِس معاملے کی سنگینی کا احساس کرکے کشمیریوں کو”استصواب رائے “کا بنیادی انسانی حق دینے کی جانب ٹھوس پیش رفت کریں گے۔     ٭

مزید :

کالم -