ہنجروال کے علاقہ میںوار داتیں بڑھ گئیں ،پولیس بے بس ،مکین عدم تحفظ کاشکار
لاہور ( لیاقت کھرل) تھانہ ہنجروال جہاں کروڑوں کے فراڈ میں گزشتہ کئی سالوں سے لینڈ مافیا کے ارکان سرگرم ، ڈکیتی و راہزنی کی میجر وارداتیں ، لاہور شہر کے کارنر ٹھوکر نیاز بیگ کے علاقہ سمیت اردگرد آبادیوں اور رہائشی کالونیوں کے مکینوں کو تحفظ کی ضمانت دینے والا یہ پولیس اسٹیشن خود پولیس نفری کی شدید کمی کے باعث عدم تحفظ کا شکار ہے۔ اس تھانے کی حدود میں ہر طرح کا کرائم موجود ہے اور کرائم کی شرع میں ہر ماہ 3 سے 4 فیصد اضافہ ہو رہا ہے یہ تھانہ ایس ایچ او کی تعیناتی کے بعد کمائی کے اعتبار سے دیگر تھانوں سے بہتر، لینڈ فراڈ ہو یا لین دین کے معاملہ میں چیک ڈس آنر، کروڑوں کے قیمتی پلاٹوں کا جھگڑا ہو اس تھانہ کی حدود میں جو اِن واقعات سے کرائم بڑھ رہا ہے۔ان میں قتل و غارت کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا ہے اور اس تھانے کی حدود میں دو چار بڑی برادریوں کے گاﺅں جو کہ اب کالونیوں اور ٹاﺅنوں میں تبدیل ہو چکے ہیں گزشتہ کئی سالوں سے ان برادریوں کی آپس میں دشمنی، قتل و غارت میں تبدیل ہونے سے پولیس کے لئے سب سے بڑی ”کمائی“ کا ذریعہ ہے۔ ”پاکستان“ کی ٹیم نے جب اس تھانے کی آبادیوں میں رہائش پذیر مکینوں کے مسائل سننے کے لئے سروے کیا اور تھانے آنے والے سائلین کی شکایات سنیں تو عباس علی، جاوید، یعقوب، محسن، شمیر علی، عطاءمحمد، حسن اقبال، شاہ محمد و دیگر نے کہا کہ یہ وہ تھانہ ہے جہاں پولیس خود عدم تحفظ کا شکار ہے۔ بااثر قبضہ گروپ اور لینڈ مافیا کے ممکنہ حملوں کے خوف سے پولیس خود عدم تحفظ کا شکار رہتی ہے۔ آئے دن معمولی نوعیت کے لڑائی جھگڑے جو کہ زیادہ تر پلاٹوں اور اراضی پر قبضے سے شروع ہوتے ہیں اور اس لڑائی جھگڑے کے واقعات میں پولیس تو اپنا ”حصہ“ وصول کر کے ایک طرف ہو جاتی ہے لیکن اس تھانے کی حدود میں ان معمولی لڑائی جھگڑوں سے ہونے والے قتل و غارت کے واقعات روز بروز بڑھ رہے ہیں جس اہل علاقہ جہاں عدم تحفظ کا شکار ہے وہاں مکینوں میں خوف و ہراس بڑھ کر رہ گیا ہے۔ پولیس آج تک اس تھانے کے مکینوں میں احساس تحفظ کی فراہمی کو یقینی بنانے میں ناکام رہی ہے۔ اس تھانہ کی حدود میں علاقے کے پرانے رہائشی کھوکھر برادری سمیت دیگر برادریوں کے کئی سالوں سے جھگڑے جو کہ معمولی تنازعات سے شروع ہوئے وہ آج بھی قتل و غارت کی علامت بنے ہوئے ہیں۔ دکان کا جھگڑا ہو، مارکیٹ ، پلاٹ یا اراضی کا تنازع ہو اس تھانے کی حدود میں ایک نہیں ، تین سے چار افراد کا قتل کوئی نئی بات نہیں ہے جو کہ پولیس کے لئے کمائی کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے جس سے پہلے آپریشن پولیس مالا مال ہوتی ہے اور بعد میں انوسٹی گیشن پولیس کئی کئی ماہ تک اپنی ” کمائی “ میں اضافہ کرتی ہے۔ ہنجروال کا علاقہ شہر کے اردگرد اُن علاقوں میں شمار ہوتا ہے جو آج سے کچھ عرصہ قبل گاﺅں کے علاقوں میں شامل یا ظاہر کیا جاتا تھا آج یہ گاﺅں ٹاﺅنوں ، کالونیوں اور سوسائٹیوں میں تبدیل ہونے پر اس تھانے کی پولیس کے لئے ہزاروں سے بڑھ کر کروڑوں روپے کی کمائی کا بھی ذریعہ بن چکا ہے۔ جوں جوں اس علاقے میں اراضی کی قسمت بدلی ہے اسی اعتبار اور تناسب سے اس تھانہ کے اہلکاروں کی کمائی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس تھانہ میں جو بھی ایس ایچ او تعینات ہوا وہ یا تو کرپشن کی بناءپر معطل ہوا یا پھر اختیارات سے تجاوز کرنے پر اسے نوکری سے مستقل طورپر ہاتھ دھونے پڑے۔ جہاں اس علاقہ کے مکینوں کی اراضی کی قسمت بدلنے پر زندگی میں تبدیلی آئی ہے اس اعتبار سے پولیس اہلکار بھی قیمتی گاڑیوں میں پھرنے لگے ہیں اور کرپشن، اختیارات سے تجاوز کے بار بار الزامات اور ایسے جرم میں ملوث ہونے کے باوجود اس تھانے میں تعیناتی کی خواہش بھی کرتے ہیں۔ اس تھانہ کی حدود میں لینڈ مافیا اور اراضی کے تنازعات پر ہونے والے جھگڑے اور قتل و غارت ،اغوا جیسے واقعات عام ہیں وہاں اس تھانہ کی حدود میں شاہراﺅں اور سڑکوں پر شہریوں سے لوٹ مار میں بھی ہر ماہ 3 سے 4 فیصد اضافہ ہو رہا ہے۔ اس علاقے کے دکانداروں، تاجروں ، سول سوسائٹی اور مکینوں جن میں ، علی حسن، محمد حسین، امتیاز، علی اصغر، فرزند علی، اکبر علی، احمد علی، سیف علی، شمعون احمد ، فرزند خان، علی نواز و دیگر کا کہنا تھا کہ تھانے جائیں تو پولیس یہ کہہ کر ٹال دیتی ہے کہ مقدمہ کے اندراج کے لئے شام کو آنا اور رات کو جائیں تو کہا جاتا ہے کہ صبح آئیں۔ شہری اقبال حسین نے بتایا کہ ڈاکوﺅں نے اسے لوٹ لیا۔ تین ماہ تک تھانے کے چکر لگائے پولیس نے مقدمہ تو درج کر لیا مگر آج تک پولیس نے نہ تو جائے وقوعہ کا معائنہ کیا اور نہ ہی واردات کا سراغ لگایا جا سکا ہے۔ عمر رسیدہ نیامت نے بتایا کہ پراپرٹی کے معمولی جھگڑے پر اسے اغوا کر کے تشدد کا نشانہ بنایا گیا پولیس نے مقدمہ تو درج کر لیا لیکن 4 ہفتوں سے تھانے کے چکر لگا رہا ہوں، لیکن کوئی شنوائی نہیں ہو رہی۔ شہری حسن رضا نے بتایا کہ ڈاکوﺅں نے اس کی موٹر سائیکل چھین لی ۔ پولیس نے مقدمہ درج کرنے کے لئے ”لین“ میں لگا رکھا ہے۔ ایس ایچ او سے ملاقات تک نہیں کروائی جاتی۔ جبکہ عمر رسیدہ خاتون شمیم بی بی نے اپنی بیٹی کے اغوا ہونے پر انصاف نہ ملنے ، شہری دلاور حسین نے چیک ڈس آنر کے مقدمہ میں ریکوری نہ ہونے جبکہ محمد عباس اور تاج دین نے لڑائی جھگڑے کے کیسوں میں انوسٹی گیشن پولیس کے خلاف شکائیتیں سنائیں۔ اس موقع پر تھانے کے اہلکاروں نے بھی پولیس کی کم نفری کی شکائتیں سناتے ہوئے بتایا کہ جس اعتبار سے اس تھانے کی حدود میں کالونیوں، سوسائٹیوں اور رہائشی اور کمرشل آبادیوں میں اضافہ ہوا ہے اس اعتبار سے پولیس کی نفری کو نہیں بڑھایا گیا اور کئی سال پہلے کی منظور شدہ پولیس کی نفری پر ہی گزارا کیا جا رہا ہے۔