کچھ علاج اِس کا بھی۔۔۔!
ہمارے ہاں بعض چھوٹے چھوٹے معاملات ایسے ہیں،جن میں متعلقہ ادارے یہ سوچے سمجھے بغیر کام شروع کر دیتے ہیں کہ اِس کا شہریوں پر کیا اثر پڑے گا اور اُنہیں کسی کرب کا سامنا نہیں ہو گا۔ شہر کا دورہ کرنے سے ہر روز کئی ایسے واقعات مل جاتے ہیں جو عام لوگوں کی پریشانی کا باعث بنتے ہیں۔
اگر اُنہیں نہ بھی کیا جائے تو کام چل سکتا ہے، کرنے کے بعد اُن کا مزید بیڑہ غرق کرنے سے عوام کو امتحان میں ڈالنے کی بھلا کیا ضرورت ہے۔
صوبائی دارالحکومت کی سڑکوں کو ہی لے لیجئے جا بجا ٹوٹ پھوٹ اور ادھیڑ بُن سب کے لئے وبالِ جان بنی ہوئی ہے، بعض ایسی سڑکیں بھی ادھیڑ کر رکھ دی گئی ہیں جو این اے120 کے ضمنی الیکشن کے دوران تعمیر کی گئی تھیں۔
نو تعمیر شدہ کئی سڑکوں کو تو درمیان سے کھود دیا گیا ہے، کئی سڑکیں سائیڈوں سے اکھاڑ دی گئیں۔ نجانے ہم اس طرح کا کام کرنے کے کیوں عادی ہوتے جا رہے ہیں اِس کی شائد ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمیں پوچھنے والا کوئی نہیں۔
ایک اور غور طلب معاملہ گاڑیوں کی نمبر پلیٹوں کا ہے،نمونے والی سرکاری نمبر پلیٹیں شہریوں کے لئے مسلسل عذاب بنتی جا رہی ہیں۔ اعتراض سرکاری نمبر پلیٹ لگانے پر نہیں، بلکہ اُس طریقہ کار پر ہے، جس کے ذریعے یہ پلیٹیں نصب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اِس حوالے سے قانون سازی اچھی ہے،لیکن شہریوں کو جس کرب اور توہین آمیز رویئے سے گزرنا پڑ رہا ہے وہ کسی مہذب معاشرے کے شایانِ شان نہیں۔کار سواروں کو جس طرح سڑکوں پر روک کر ذلیل و خوار کیا جاتا ہے اس سے یوں لگتا ہے جیسے ہم نے بہت بڑا جرم کیا ہے۔ 20سال پرانی رجسٹرڈ گاڑیوں کی نمبر پلیٹیں غیر نمونہ قرار دے کر محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن والے قانون پسند شہریوں کی دُرگت بنا رہے ہیں۔ سب سے بڑھ کر ظلم یہ کہ گاڑی روک کر شہریوں سے بدتمیزی کی جاتی ہے پھر نمبر پلیٹیں اُتار کر کہا جاتا ہے کہ پندرہ روز بعد نمبر پلیٹ ملے گی۔سوال یہ ہے کہ پندرہ دن تک گاڑی بند رکھی جائے،زیادہ مناسب ہوتا کہ ایکسائز والے پلیٹیں اُتارنے سے پہلے کار سوار کو پندرہ دن کی مہلت دیں اور ٹوکن دے کر پندرہ دن کی تاریخ دے دی جائے اُس دوران گاڑی ٹوکن پر چلانے کی اجازت ہو۔
محکمہ ایکسائز کے سینکڑوں ملازمین اِس غیر ضروری کام پر لگ کر دفتری امور کو بھلا بیٹھے ہیں، دفتر کا کام گاڑی کے بعض شورومز مالکان کے حوالے کر دیا گیا ہے جو دفتر کے اندرونی معاملات تک رسائی رکھتے ہیں۔یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ نئی نمبر پلیٹوں کے منصوبے میں بعض بااثر لوگوں کا مفاد بھی ہے اِس لئے اس کی کامیابی کے لئے تمام حربے استعمال کئے جا رہے ہیں اور اِس امر کا خیال نہیں رکھا جا رہا کہ شہری اِس سے کتنے پریشان ہیں۔
یہ بات بھی سننے میں آ رہی ہے کہ آج کل جو سرکاری پلیٹیں لگائی جا رہی ہیں وہ کچھ ہی عرصے بعد تبدیل کر دی جائیں گی اور شہریوں کو ایک بار پھر اِسی قسم کے عذاب سے گزرنا پڑے گا۔ کیا ہمارے فیصلہ ساز اِس طرح کے منصوبے ترتیب دینے سے پہلے عوامی مشکلات اور پریشانی کا ادراک نہیں کر سکتے۔
سڑکیں بنانے سے پہلے اُدھیڑنے والا کام نہیں کیا جا سکتا،گاڑی کی خریداری کے وقت سرکاری نمبر پلیٹیں نہیں دی جا سکتیں اور سڑکوں پر شہریوں کی تذلیل کئے بغیر نمبر پلیٹوں کی تبدیلی کا مرحلہ ممکن نہیں؟ راستے بند ہونے کی صورت میں متبادل راستے بھی نہیں دیئے جاتے یا ٹریفک کا بہاؤ درست سمت میں تبدیل کرنے کی بجائے کسی ایسے رخ پر ڈال دیا جاتا ہے جس سے شہریوں کو منزلِ مقصود پر پہنچنا ناممکن ہو جائے۔ یہ بظاہر معمولی باتیں لگتی ہیں،لیکن عام شہری کس قدر پریشان ہیں، اِس کا اندازہ ضرور رہنا چاہئے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ منصوبے سازی اور شہری امور سے متعلق فیصلے کرنے سے قبل تھوڑی بہت سوچ بچار کر لی جائے تاکہ عام لوگ کرب سے بچ سکیں۔