چیئرمین نیب کے دعوے اور عوامی شکوک و شبہات
شک تو گویا ہماری نس نس میں سما گیا ہے،سامنے کی حقیقتوں کو بھی شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھنا ہماری عادت بن گئی ہے۔کتنے ہی ایسے واقعات ہیں جو سامنے کی حقیقت بن کر رونما ہوتے ہیں،مگر ہم انہیں شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔اب حال ہی میں ایک اور حقیقت ہمارے شک کی نذر ہو گئی ہے۔
چندروز پہلے وزیراعلیٰ شہباز شریف نے یہ بیان دیا کہ نیب مُلک کا سب سے کرپٹ ادارہ ہے،جس نے انتقامی کارروائی کے سوا کچھ نہیں کیا اور اربوں روپے کی کرپشن کرنے والوں کو نہیں پکڑا۔اُن کے اِس سخت بیان کا اگلے ہی روز چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے سخت جواب دیا۔اُن کا کہنا تھا کہ شہباز شریف کو اپنے بھائی کے اقتدار سے باہر آنے پر ہی یہ کیوں کہنا پڑا کہ نیب کرپٹ ادارہ ہے
نیب کو جہاں بھی کرپشن کا سرا ملے گا، وہ اُس کا پیچھا کرے گا۔اب یہ واضح طور پر ایک سخت اختلاف کی طرف اشارہ ہے،مگر بھائی لوگوں نے اس میں بھی ملی بھگت کا عنصر تلاش کر لیا ہے۔ مثلا کہا یہ جا رہا ہے کہ کچھ عرصہ پہلے جب نواز شریف وزیراعظم تھے تو انہوں نے ایک پریس کانفرنس کر کے نیب پر سخت تنقید کی تھی کہ وہ ترقی کا دشمن ہے اور سرکاری افسروں کو خوفزدہ کر کے روزمرہ کا حکومتی کام روکنا چاہتا ہے،حالانکہ اُس وقت چیئرمین نیب چودھری قمر الزمان تھے، جن کے بارے میں سب کو معلوم تھا کہ وہ نواز شریف کی گڈ بُک میں ہیں اور انہوں نے شریف فیملی کے خلاف تمام ریفرنس روک رکھے ہیں،حتیٰ کہ انہوں نے سپریم کورٹ میں واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ وہ حدیبیہ پیپر مل ریفرنس نہیں کھول سکتے،جس پر سپریم کورٹ نے اپنے ریمارکس میں کہا تھا کہ آج نیب دفن ہو گیا ہے۔
اُس وقت بھی یہ کہا گیا تھا کہ نواز شریف اور اُن کے وزراء نیز سپیکر قومی اسمبلی کا نیب کے خلاف بیان دینا درحقیقت نیب کی عوام کی نظر میں کریڈیبلٹی بحال کرنے کی ایک کوشش تھی تاکہ نیب پر عوامی تنقید کے سلسلے کو روکا جا سکے۔
اب بیٹھے بٹھائے شہباز شریف کا نیب کو آڑے ہاتھوں لینا،جبکہ نئے چیئرمین نیب کو عہدہ سنبھالے ابھی چند روز ہی ہوئے ہیں،کس بات کی غماضی کرتا ہے۔۔۔ پھر چیئرمین نیب کا ترکی بہ ترکی جواب دینا بھی کچھ لوگوں کے ذہن میں کھٹک رہا ہے۔
پہلے تو کسی چیئرمین نیب نے ایسا نہیں کیا۔اس پر اگرچہ چیئرمین نیب کے لئے داد و تحسین کی تالیاں بھی بج رہی ہیں،لیکن شکوک و شبہات زیادہ ہیں۔ سوشل میڈیا پر اسے بھی نئے چیئرمین کی کریڈیبلٹی کا تاثر قائم کرنے کی کوشش قرار دیا جا رہا ہے تاکہ عمران خان اور سراج الحق کی طرف سے نئے چیئرمین نیب کو زیر مشاہدہ رکھنے کی جو باتیں کی جا رہی ہیں،اُن کا توڑ کرنے کے لئے اُن کی غیر جانبداری کے حوالے سے کچھ شواہد مہیا کئے جا سکیں۔
بہرحال ایسے شکوک وشبہات ہمارے ہاں کوئی نئی بات نہیں۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ شہباز شریف واقعی نیب سے نالاں ہوں، خاص طور پر اُن ریفرنسز کے بعد جو شریف فیملی کے خلاف دائر کئے جا چکے ہیں نیز نیب نے حدیبیہ پیپر مل کا ریفرنس دوبارہ کھولنے کے لئے سپریم کورٹ میں اجازت دینے کی درخواست بھی دائر کر دی ہے۔
شہباز شریف کا نیب کے خلاف بولنا کسی طے شدہ حکمتِ عملی سے ہٹ کر بھی ہو سکتا ہے۔ اِس پر چیئرمین نیب کا فوری ردعمل بھی حقیقی ہو سکتا ہے، کیونکہ اگر آغاز ہی میں اُن پر جانبداری کی چھاپ لگ جاتی ہے تو اُن کے لئے چار سال کا عرصہ گزارنا مشکل ہو جائے گا، پھر شہباز شریف نے چونکہ نیب کو سب سے کرپٹ ادارہ کہا ہے، حالانکہ وہ کرپشن کے خلاف کام کر رہا ہے، تو اِس کا دفاع کرنا چیئرمین نیب کی ذمہ داری تھی، جو انہوں نے پوری کی۔
ویسے بھی ایسے مصنوعی ہتھکنڈوں سے نیب کی کریڈیبلٹی بحال نہیں ہو سکتی، اس کے لئے تو مؤثر حکمتِ عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔ نیب بڑے کیسوں پر لسی پی کر سوجاتا ہے اور چھوٹے کیسوں پر مقدمات کی بجائے پلی بارگین کر لیتا ہے۔ کرپٹ افراد کو سزاؤں کا سلسلہ کبھی تواتر سے شروع نہیں ہو سکا۔
نیب ہمیشہ اپنی سالانہ رپورٹ پیش کرتے ہوئے یہ تو بتاتا ہے کہ کتنے ارب روپے واپس لئے گئے، مگر یہ خانہ اکثر خالی ہی ہونا ہے کہ کرپٹ افراد کو کتنی سزائیں دلوائی گئیں۔ اربوں روپے لوٹنے والے پانچ دس سال کے بعد لوٹی گئی رقم کا نصف سے بھی کم حصہ دے کر آزاد ہو جائیں تو اُنہیں اور کیا چاہئے۔
اتنا تو لوٹی گئی رقم کا سود ہی بن جاتا ہے، جتنی وہ واپس دیتے ہیں۔ سپریم کورٹ اِسی لئے پلی بارگین کو کرپشن بڑھانے کا ذریعہ قرار دے چکی ہے، مگر چونکہ یہ نیب کے قانون میں شامل ہے، اِس لئے جاری و ساری ہے، اِس کے پس پردہ بھی اَن گنت کہانیاں ہیں، چونکہ نیب کو برآمد کی گئی رقم میں سے حصہ ملتا ہے، اِس لئے وہ اس راستے کو سزا کی نسبت زیادہ اختیار کرتے ہیں۔ اِس قانون کا سب سے شرمناک پہلو یہ ہے کہ پلی بارگین کرنے والے ملازمت سے برخاست نہیں ہوتے،بلکہ دوبارہ اپنی پوسٹ پر آکر بیٹھ جاتے ہیں۔
نئے چیئرمین نیب جو قانون پر مکمل دسترس رکھتے ہیں،انہیں ایسے پہلوؤں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، جو نیب کو ایسے اختیارات بھی دیتے ہیں،جو کرپشن کو کم کرنے کی بجائے اسے بڑھانے کا باعث بن رہے ہیں۔ چیئرمین نیب کو اس نکتے پر بھی غور کرنا چاہئے کہ نیب کیسوں کی انکوائریاں سالہا سال کیوں چلتی ہیں، پھر ریفرنس دائر ہونے کے بعد احتساب عدالتیں کئی کئی سال تک فیصلے کیوں نہیں کرتیں، جبکہ نیب آرڈیننس کے مطابق 30 دِنوں کے اندر فیصلہ کرنا ضروری ہے۔
نوازشریف اور اُن کے بچوں پر جو ریفرنسز دائر کئے گئے ہیں، سپریم کورٹ نے ان کا فیصلہ چھ ماہ کے اندر کرنے کی ہدایت کی ہے۔ سوال یہ ہے کہ نیب ایسے کسی حکم کا انتظار کیوں کرتا ہے ازخود فیصلوں کو بروقت کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتا؟ پندرہ پندرہ سال تک ریفرنسز عدالتوں میں پڑے رہتے ہیں اور نیب سیاسی مصلحتوں کے تحت ان کی طرف دیکھتا تک نہیں، جس سے احتساب کا سارا نظم زمین بوس ہو جاتا ہے۔
جانے والے چیئرمین نیب قمرالزمان چودھری بھی آئے روز یہ بیانات دیا کرتے تھے کہ کرپشن کے خلاف نیب زیرو ٹالرنس کی پالیسی اختیار کئے ہوئے ہے، لیکن ان کی زیرو ٹالرنس پالیسی کو سپریم کورٹ نے کئی بار کرپشن بڑھاؤ پالیسی قرار دیا۔ اب موجودہ چیئرمین بھی اسی طرح کا دعویٰ کر رہے ہیں کہ کرپشن کا جہاں بھی سرا ملا نیب وہاں پہنچ کر اُسے دبوچ لے گا۔۔۔اللہ کرے ایسا ہی ہو۔ لوگوں کو ایسی باتوں پر اعتبار اِس لئے نہیں آتا کہ وہ روزانہ اِسی قسم کے دعوے سنتے ہیں جو اکثر اُلٹ ثابت ہوتے ہیں۔
ضلع میں تعینات ہونے والا ہر ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او عہدہ سنبھالتے ہی یہ بڑھک ضرور مارتا ہے کہ کرپٹ اہلکاروں کی ضلع میں کوئی گنجائش نہیں،مگر چند ہفتے گزرتے ہیں تو وہ بھی اُن کے ساتھ مل کر کان نمک ہو چکا ہوتا ہے۔ہر چیئرمین نیب نے عہدہ سنبھالتے ہی یہی کچھ کہا ہے جو جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کہہ رہے ہیں، مگر احتساب کے نام پر ہوتا کیا رہا، اس کی اب ایک تاریخ موجود ہے۔
نیب کے چیئرمین کو آئینی طور پر بے تحاشہ اختیارات اسی لئے دیئے گئے ہیں کہ وہ بلِا خوف و خطر اور بغیر کسی دباؤ میں آئے احتساب کرے، مگر حیرت انگیز طور پر ہمارے نیب کے چیئرمین حکومتوں سے دبے رہے۔ کسی حاضر سروس حاکمِ وقت کا احتساب نہیں کیا، بلکہ اُس کے عہد اقتدار میں یا تو مقدمات ختم کر دیئے گئے یا پھر انہیں سردخانے میں ڈال دیا گیا۔ چیئرمین نیب جاوید اقبال کو اعتراضات کا جواب دینے کی ضرورت نہیں۔ انہیں نیب کے کردار سے یہ ثابت کرنا ہے کہ یہ ادارہ مُلک کے سب سے بڑے ناسور،یعنی کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
انہیں عدل و انصاف کا بہت گہرا تجربہ ہے۔وہ اگر احتساب کے معاملے میں عدل و انصاف کو یقینی بنا دیتے ہیں تو یہ ان کی بہت بڑی کامیابی ہو گی۔آنے والے دن اُن کے فیصلوں کی بدولت اِس بات کو ثابت کریں گے کہ وہ اپنے دعوؤں میں کتنے پُرعزم اور سچے ثابت ہوتے ہیں۔