لائن آف کنٹرول کے آرپار تجارت کے 9سال پورے ہوگئے ہیں
مظفر آباد، سری نگر(کے پی آئی)لائن آف کنٹرول کے آرپار تجارت کے 9سال پورے ہوگئے ہیں۔ اس حوالے سے سرینگر اور مظفر آباد میں تقاریب کا انعقاد کیا گیا جن میں پاکستان بھارت کی حکومتوں پر زور دیا گیا کہ وہ ایل او سی ٹریڈ کے ضمن میں حائل رکا ٹوں کو دور کرنے میں اپنا دست تعاون جاری رکھیں۔مظفرآبادمیں نو سال مکمل ہو نے کی خوشی میں تقریبات جبکہ سرینگر کے ایک مقامی ہوٹل میں تقریب کے دوران تاجروں نے اس تجارت میں پاکستان بھارت کو شکاری اور خود کو شکار قرار دیا۔کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریزکے سابق صدر ڈاکٹر مبین شاہ نے الزم عائد کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان بھارت کی دونوں حکومتوں نے اس تجارت سے انصاف نہیں کیا۔انہوں نے کہاکہ یہ بین الاقوامی تجارت نہیں اور2008میں ہی انہوں نے ڈالروں میں تجارت کرنے کی تجویز کو بھی مسترد کیا۔انہوں نے کہا کہ دونوں پڑوسی ملکوں کی حکومتوں نے بداعتمادی کا مظاہرہ کیا۔انہوں نے حکمران جماعت پی ڈی پی کو نشانہ بناتے ہوئے کہااگر چہ اس جماعت نے آزاداقتصادی خطہ کیلئے بہت شور مچایا ،تاہم اس کا کھبی بھی مطالبہ نہیں کیا۔۔پی ڈی کے یوتھ صدر اور سپورٹس کونسل کے سیکریٹری وحید الرحمان پرہ نے آر پار تجاروں کو امن کے سفیر قرار دیتے ہوئے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان گولہ باری ،دراندازی اور سخت الفاط کا ہی تبادلہ ہوتا ہے۔
،اور اگر کچھ اچھا تبادلہ ہو رہا ہے،وہ آر پار تجارت ہے۔انہوں نے کہا کہ سرحدوں پر دونوں ملکوں کی صورتحال ٹھیک نہیں ،جبکہ دونوں ملکوں میں ایسے لوگ موجود ہیں،جو نہیں چاہتے کہ یہ تجارت جاری رہے۔وحید الرحمان پرہ نے آر پار تجارت کو ادارہ جاتی شکل دینے کی وکالت کرتے ہوئے کہا کہ اگر ٹیلیفون کی سہولیات موجود نہیں تاہم مواصلات میں کافی تبدیلی آئی ہے،اور سماجی رابطہ گاہوں سے آج اچھی طرح ایک دوسرے سے رابطہ قائم ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس تجارت کو تجارت برائے تجارت تک ہی محدود رکھا جائے،اور تنازعات و سیاست سے بچایا جائے۔انہوں نے واضح کیا جب تک کنٹرول لائن کنٹرول لائن ہے تب تک تنازعہ جاری ہے۔پرہ نے کہا کہ وزیر اعلی نے از خود کئی فورموں میں آر پار تجارت کو جاری رکھنے کی وکالت کی۔نیشنل کانفرنس کے سنیئر لیڈر تنویر صادق نے اس موقعہ پر کہا کہ اگر آر پار تجارت علامتی طور پر شروع کی گئی ہے،تو وہ دوسری بات ہے،اور اگر اس کو تجارت کیلئے شروع کیا گیا ہے تو اس کو سیکورٹی اور وزارت داخلہ کے اختیار سے باہر لانا ہوگا۔انہوں نے آر پار تجارت کو2008کی ایجی ٹیشن کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں کو چاہے کہ وہ اس معاملے پر یک رائے قائم کریں۔کشمیر چیمبر آف کامرس ایند انڈسٹریزکے سنیئر نائب صدر ناصر خان نے کہا کہ آر پار تجارت دونوں ملکوں نے ایک بڑے اعتماد سازی کے قدم پر شروع کیا تھا،تاہم2008سے اب تک اس میں کوئی بھی پیش رفت نہیں ہوئی۔انہوں نے فہرست میں شامل اشیا میں اضافے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ آپسی اتفاق کی ضرورت ہے۔کراس ایل او سی ٹریڈ کے صدر ہلال ترکی نے جذباتی انداز میں کہا کہ اس تجارت سے دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد سازی کی فضا بھی ٹھیک ہوئی تھی،جبکہ اوڑی واحد ایسی سرحد ہے،جہاں پر گولہ باری بھی نہیں ہوئی۔۔انہوں نے بتایاکہ گزشتہ9برسوں کے دوران اوڑی کے راستے سے آر پار تجارت میں4ہزار823کروڑ روپے کا لین دین ہوا ہے،جبکہ ٹرانسپورٹ کو80کروڑ روپے فرہم کئے گئے اور مجموعی طور پر92ہزار ایام کار کا موقع بھی فراہم کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ حکومت سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ فل باڑی اسکینر نصب کیا جائے،تاہم یہ بھی شرع نہیں کیا جا رہا۔چیمبر کامرس انڈسٹریز کے محمد اشرف میر نے زبردست برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس میں بھارت میں بنی ہوئی تمام چیزیں آرہی ہیں،تاہم جن چیزوں کی کھپت ہیں،انہیں منفی فہرست میں رکھا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ جو تجارت واگہ سرحد سے ہو رہی ہے،اسی طرز پر کشمیر میں کیوں آر پار تجارت نہیں ہوسکتی۔جموں چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریزکے صدر راکیش شرما نے کہا کہ اس تجارت سے حد متارکہ کے دونوں اطراف کے رشتے مضبوط ہوئے۔انہوں نے پونچھ میں تجارت میں رخنہ ڈالنے کا الزام حکومت پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی حکومت اور وزارت داخلہ اس تجارت کو فروغ دینے میں اپنا کردار ادا کریں۔ڈائریکٹر انڈسٹریز بلال بٹ نے معاملہ کو اعلی حکام تک پہنچانے کی یقین دہانی کرائی جبکہ ایس ڈی ایم اوڑی ڈاکٹر ساگر نے کہا کہ2ماہ کے اندر فل باڑی سکینر پر کام شروع کیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ چھوٹے چھوٹے اصلاحات جاری ہیں۔تقریب سے پروفیسر گل نے بھی خطاب کیا جبکہ چیمبر کے سابق صدر شیخ عاشق ،عبدالحمید پنجابی،مشتاق احمد وانی کے علاوہ کشمیر ٹریڈرز اینڈ مینو فیکچرز فیڈریشن کے صدر محمد یاسین خان بھی موجود تھے۔ادھرمظفرآبادمیں نو سال مکمل ہو نے کی خوشی میں تقریبات منعقد کی گئیں۔ انٹرا کشمیر ٹریڈرز نے پاک بھارت حکومتوں سے تجارت میں مزیدبہتری لانے اور لائن آف کنٹرول پر ہو نے والی گولہ باری کے باعث تین ماہ سے بند تیتری نوٹ چکاں دا باغ پونچھ تجارت کی بھی فوری بحالی کا مطالبہ کیا ۔ انٹرا کشمیر ٹریڈرز نے پاکستان اور بھارت کی حکومتوں سے مطالبہ کیا کہ ٹریڈ سینٹروں پر دونوں ممالک جدید وہیکل سکینر نصب کریں، تجارتی لسٹ میں تاجروں کی مرضی کے ساتھ اضافہ کیا جائے تاکہ اس تجارت میں کمی کے بجائے دن بدن اضافہ ممکن ہو سکے۔انہوں نے کہا کہ سرینگر مظفرآباد اور تیتری نوٹ چکاں دا باغ تجارت سے لائن آف کنٹرول پر امن قائم ہوا اور ایل او سی کے قریب بسنے والے لوگوں نے سکھ کا سانس لیا اس کے علاوہ دونوں کراسنگ پوائنٹ سے ہو نے والی تجارت سے ہزاروں افراد کا روزگار منسلک ہے ان ہزاروں افراد کے روزگار کو بچانے کے لیے ضروری ہے کہ انٹرا کشمیر ٹریڈ میں مزید شفافیت لائی جائے ۔