مسئلہ کشمیر کا حل امن کی کلید

مسئلہ کشمیر کا حل امن کی کلید

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


قیام پاکستان کو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے 73 سال کا عرصہ ہو گیا ہے۔ اس مدت کے دوران، یہاں کے مختلف شعبوں میں تعمیر و ترقی کی کافی تبدیلیاں رونما ہو گئی ہیں، جن کا جائزہ ہر شخص اور ادارہ، اپنی سوچ و فکر کے مطابق لے کر اپنی رائے متعین کرتا اور بوقت ضرورت ظاہر کرتا ہے۔ خدائے ذوالجلال نے تو انسان کو اشرف المخلوقات کے معتبر اور محترم مقام و مرتبہ پر سرفراز فرمایا ہے تاکہ یہ دنیا کی سب سے برتر اور بلند پایہ تخلیق اپنے خالق و مالک کی تعلیمات و احکامات کی اطاعت اور اتباع سے اپنی زندگی گزارے اور اس فانی عرصہئ حیات میں کسی کج روی اور بد عملی سے حتیٰ المقدور پرہیز کرے۔ اگر عام لوگوں کی غالب اکثریت، اسلامی تعلیمات کو خلوص نیت سے ترجیح دے کر اپنے معمولات سرانجام دینے کا پختہ ارادہ کرلے تو امید واثق ہے بیشتر لوگوں کے مسائل اور مشکلات کافی حد تک کم اور آسان ہو سکتی ہیں، لیکن حضرت انسان، مذکورہ بالا، واضح احکامات پر اکثر اوقات محض اس لئے عمل کرنے میں کوتاہی اور لاپرواہی کرتا ہے اور اپنی نسبتاً معمولی دنیاوی اور عارضی اغراض کے حصول پر توجہ دے کر اول الذکر بلند پایہ مقاصد کو پس پشت ڈالنے۔ کا اسیر ہو جاتا ہے۔ یوں وہ دنیاوی مفادات اور مال و زر کی حرص و ہوس میں مبتلا ہو کر ان کو صحیح یا غلط اور قانونی یا ناجائز کی تمیز و تفریق کئے بغیر حاصل کرنے کی ڈگر اپنا لیتا ہے یوں وہ راہ راست سے بھٹک کر اچھے اور برے افراد کے درمیان فرق سے عاری ہو جاتا ہے۔ اس طرح وہ نہ صرف اپنے آپ کو بلکہ اپنے اردگرد اور معاشرے کے افراد کو بھی غلط کاریوں سے متاثر کر نے والے ماحول کو خراب کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔

.
ایسے اطوار اور حالات میں اصلاحی عمل اور اقدامات کے لئے ذاتی اور اجتماعی کارکردگی کی درست سمت میں اکثر اوقات بلکہ شب و روز ضرورت ہے۔ معاشرے کی بہترین انداز پر راہنمائی کی خاطر اسلامی تعلیمات پر اگر پختہ ارادوں  سے عمل کیا جائے تو اللہ تعالیٰ بھی ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی  کر کے ان کی کاوشوں کے مثبت نتائج جلد یا بدیر عطا فرماتے ہیں۔ دین اسلام تو لوگوں کی ہر شعبے، علاقے اور دائمی راہنمائی کی قدرت رکھتا ہے۔یہ دین حق ہونے کا اعزاز رکھنے کا حامل ہے۔ قرآن حکیم اور حدیث رسولؐ میں مذکورہ بالا تمام مسائل، معاملات اور ضروریات کے امور ہر انسان کو دستیاب ہو سکتے ہیں۔ ماضی کے ادوار میں مسلمان اسلامی تعلیمات اور  احکام الٰہی کی اطاعت اور فرماں برداری کو اہم فرائض تسلیم کر کے عمل کیا کرتے تھے، اس لئے وہ دین و دنیا کے امور میں کامیابی اور کامرانی کے مثبت نتائج حاصل کر کے اپنے ہم عصر حکمرانوں اور لوگوں کے لئے شاندار اور قابل قدر کارکردگی کی مثالیں قائم کرتے رہے۔ وہ راہنما، سادہ زندگی بسر کرتے تھے، نیز وہ اپنے روز مرہ کے معمولات اور حکومتی ذمہ داریوں کی انجام دہی میں نمود و نمائش اور دکھاوے کی بجائے عوام کی مشکلات کو حل کرنے کی خاطر عام لوگوں کے بھیس میں موجودہ دور کے مزدوروں کی طرح لوگوں کا بھاری بوجھ اٹھاتے اور اس انداز کی کارکردگی میں کوئی قباحت محسوس نہ کرتے۔ ان کی ظاہری اور باطنی زندگیوں میں کوئی فرق اور ریا کاری نہ ہوتی۔ وہ مسلمان، گفتار کی بجائے اعلیٰ کردار کے غازی تھے۔ ہمیں ان کی کارکردگی کی پیروی میں کوئی ہچکچاہٹ اور رکاوٹ محسوس نہیں کرنی چاہئے۔  آج کل کے مسلمان بھی جب خلوص نیت سے اپنے فرائض ادا کرنے کی تگ و دو کریں گے تو اللہ تعالیٰ بھی ان کی جرأت و ہمت اور کوششوں کو اپنی برکت سے ثمر آور  فرمائیں گے۔


مسلمان گزشتہ چند صدیوں کے دوران تعلیم کے حصول اور اس کے انسانی زندگی پر صحیح استعمال سے معاشی اور تحقیقی میدانوں میں موجودہ ترقی یافتہ اقوام سے پیچھے رہ گئے ہیں۔مہذب ہونے کے بیشتر دعویدار ممالک محض اپنے اصرار کی بنا پر ہی مہذب اور شائستہ ہونے کے بلند بانگ اعلانات کرتے رہتے ہیں، حالانکہ وہ اپنے تخلیق کردہ عالمی ادارے اقوام متحدہ کے منشور اور بین الاقوامی قوانین کے احترام اور عمل داری سے کھلم کھلا انکار اور گریز کرتے رہتے ہیں، جبکہ اقوام متحدہ کا ادارہ  1945ء میں جن بڑے 51 بانی ممالک بشمول امریکہ اور برطانیہ وغیرہ نے تشکیل دیا تھا، وہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے 80لاکھ لوگوں کو اسی ادارے کی سلامتی کونسل کی منظور شدہ قراردادوں پر عمل درآمد کرانے کے لئے اپنی سفارتی سرگرمیاں اور بھارتی حکمرانوں پر دباؤ ڈالنے سے مسلسل گریزاں اور خاموش ہیں، حالانکہ یہ قراردادیں عرصہ 72 سال قبل اور اس کے جلد بعد منظور کی گئی تھیں۔اس متنازعہ خطہ ارض کی بنا پر جنوبی ایشیا میں رہائش پذیر تقریباً ایک ارب اور  تیس کروڑ افراد کی زندگی اور معاشی حالات  درست نہیں ہو سکے۔ موجودہ بڑی طاقتوں کے حکمرانوں کو بخوبی علم ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر وارلی قراردادوں پر عمل درآمد سے گریز کی صورت میں پاکستان اور بھارت کے درمیان تباہ کن ایٹمی جنگ کسی وقت بھی چھڑ سکتی ہے۔ اس خطہ ارض میں  انتشار کے حالات اردگرد کے علاقوں میں بھی پھیل کر لا تعداد لوگوں کی قیمتی جانوں اور املاک کے تحفظ کے لئے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں، لہٰذا بڑی طاقتوں کو اہل کشمیر کو جلد قراردادوں پر عملدرآمد سے آزادی دلانے کا اپنا موثر کردار کرنا چاہئے۔

مزید :

رائے -کالم -