ایشیائی سپر پاور بننے کا بھارتی خواب چکنا چور

ایشیائی سپر پاور بننے کا بھارتی خواب چکنا چور
ایشیائی سپر پاور بننے کا بھارتی خواب چکنا چور

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


نریندر مودی جب سے دوبارہ اقتدار میں آئے ہیں سمجھ رہے ہیں کہ ہندوستان خطے کی سپر پاور ہے۔ مودی نے کشمیر کو چھیڑا اورخصوصی حیثیت ختم کرتے ہوئے پورے جموں و کشمیر و لداخ کو اپنی عملداری میں داخل کر لیا۔ اسی لاکھ کشمیریوں کو چودہ ماہ سے قید کر رکھا ہے۔ اندرون ملک نہ صرف مسلمانوں، بلکہ تمام اقلیتوں کے خلاف شہریت قانون بھی مودی سرکار کے لئے وبال جان بن گیا۔ رواں سال کورونا وباء میں حکومتی اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے لاکھوں بھارتی باشندوں کی ہلاکت۔ یہ سب مودی سرکاری کی انتہا پسند ی اور خطے میں سپرپاور ہونے کے غرور کی نشانیاں ہیں۔ 
 اندرون ملک اور بیرون ملک بی جے پی کی انتہا پسند پالیسیوں کی وجہ سے آج بھارت ہر میدان میں کئی برس پیچھے چلا گیا ہے۔ ابھی تک تو بھارتی سرکار سے کورونا کی وباء ہی نہیں سنبھل رہی۔معیشت بالکل ختم ہو چکی ہے۔ کشمیر کی صورت حال پر مودی کان لپیٹے بیٹھے ہیں۔ بہر حال بھارت کا ایشیائی سپر پاور بننے کا خواب یوں چکنا چور ہو گیا کہ بین الاقوامی ادارے لوئی انسٹی ٹیوٹ نے اپنے سروے میں انکشافات کرتے ہوئے کہا ہے کہ آبادی کے اعتبار سے خطے کا دوسرا بڑا ملک اب ایشیا پیسفک میں درمیانے درجے کی طاقت بن چکا ہے۔ کورونا وائرس کے باعث خطے میں سب سے زیادہ بھارت کی ترقی کرنے کی صلاحیت متاثر ہوئی ہے۔ بھارت کو اپنے اہداف کے حصول کے لئے مزید کئی دہائیاں شب و روز محنت کرنا ہو گی۔ دفاع اور معاشی کمزوری نے بھارت کو طاقتور ممالک کی صف سے باہر لا کھڑا کیا۔ علاقائی اثرورسوخ میں بھی نمایاں کمی دکھائی دی۔


آسٹریلیا میں قائم بین الاقوامی ادارے لوئی انسٹیٹیوٹ نے 2020ء کے لئے ایشیا کا پاور انڈیکس جاری کیا ہے، جس میں بھارت نے گزشتہ برس کے مقابلے میں 40 پوائنٹ کم حاصل کئے ہیں۔ خطے میں آبادی و دیگر حالات کے اعتبار سے بھارت چین کا مقابلہ کرسکتا ہے، لیکن بدلتی صورت حال میں بھارت چین کے آس پاس بھی پہنچ جائے اس کا امکان نظر نہیں آتا۔ اس سے قبل یہ پیش گوئی کی گئی تھی کہ آئندہ ایک دہائی میں بھارت چین کی معاشی ترقی کے 50فیصد کے برابر آجائے گا تاہم موجودہ حالات میں اب چالیس فی صد کی حد عبور کرنا بھی مشکل نظر آتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر بھارت کو اپنا کھویا ہو امقام حاصل کرنا ہے تو اس کو اپنے اہداف کے حصول کے لئے مزید کئی دہائیاں شب و روز محنت کرنا ہو گی۔گو کہ سفارتی اثر پذیری میں معمولی اضافہ ہوا، مگر خطے کی ایک بڑی سپر پاور چین کی برابری کا فی الحال کوئی امکان نہیں۔خطے پر بھارتی اثر رسوخ میں بھی کمی کی نشاندہی کی گئی ہے، جس کے مطابق ماضی میں بھارت کے زیر اثر نیپال میں اب چین اس سے کئی گنا زیادہ بارسوخ ہوچکا ہے۔


رواں سال صدر ٹرمپ کے بھارتی دورے کے بعد بھارت اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات میں جارحانہ پن پر اتر آیا۔ پاکستان سمیت تمام چھوٹے ہمسایہ ممالک سے جارحانہ رویہ صاف نظر آنے لگا۔ حتیٰ کہ چین کے معاملے میں بھی اس رویے کا اظہار دکھائی دینے لگا۔اسی طرح اندرونی سطح پر بھی  پچھلے سال بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کا تشخص بدلنا، پاکستان پر فضائی حملے اور گلگت اور بلتستان پر چڑھ دوڑنے کی دھمکیاں، چین کے لئے واضح پیغام تھا کہ اس خطے میں بھارت ایک بڑی طاقت ہے۔


 شہریت کا نیا قانون نافذ کر کے مسلمانوں خاص طورپربھارت میں مقیم بنگلہ دیشی مسلمانوں کے خلاف محاذ کھولا گیا۔ اس طرح کے اقدامات نے بنگلہ دیش کو چین کی طرف دیکھنے پر مجبور کر دیا۔
بھارت نے بھوٹان پر اتنا دباؤ ڈالا کہ بھوٹان بھی بھارتی عملداری سے نکلنے کے لئے ہاتھ پاؤں مارنے لگا۔ چین نے بھارتی علاقائی برتری کے کھیل کو  علیحدہ کرنے اور اسے ایک غیرجانب دار فریق بنانے کے لئے مختلف حکمت عملی اختیار کی ہے۔نیپال میں بھی چینی اثرورسوخ بڑھنا شروع ہوگیا ہے۔ حال ہی میں نیپال کی حکمران جماعت میں اندرونی اختلافات کو وہاں پر متعین چینی سفیر نے حل کرنے کی کوششیں کیں۔ اس کے ساتھ ساتھ چین نے اقتصادی امداد میں بھی نمایاں اضافہ کر دیا ہے۔ چین  ایران کو بھی بھارت سے قدرے دور لانے میں کامیاب ہوا۔ ایران نے بھارت کو چابہار سے چلنے والی ٹرین منصوبے  اور ایک اہم گیس کے ذخیرے کے ترقیاتی منصوبے سے بھی اسے علیحدہ کردیا۔ 


 چین نے بھارت کے سیاسی اثر و رسوخ کو کامیابی سے محدود کرنا شروع کر دیا ہے۔ چین کے لداخ میں حالیہ عسکری اقدامات نے بھارت کی نام نہاد فوجی قوت کی قلعی بھی کھول دی ہے۔ یہ چین کی طرف سے بھارت کو ایک طرح کا کھلا پیغام بھی تھا کہ اس کی سی پیک کو نقصان پہنچانے کی کوئی کوشش بھی برداشت نہیں کی جائے گی۔
 امریکہ بھی افغانستان سے جاتے جاتے  بھارت کو افغانستان سے بھی نکال گیا۔ امریکہ کے طالبان سے مذاکرات میں بھی بھارت کا کوئی رول نہیں۔ بھارت نے افغانستان میں اربوں ڈالر خرچ کر رکھے ہیں، لیکن اس کا اسے کوئی فائدہ ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا۔حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کو تنہا کرتے کرتے بھارت خود نتہا ہو کر رہ گیا ہے۔ بھارت کے کچھ اندرونی فیصلے جن میں این آر سی، سی اے اے اور آئین کی شق 370اورA 35-کی منسوخی شامل ہے بھارت کی خارجہ پالیسی میں ناکامی کا باعث بن رہے ہیں۔ابھی بھی بھارت کے لئے وقت ہے کہ وہ اپنی  داخلہ اور خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کرے۔

مزید :

رائے -کالم -