اپوزیشن اور مہنگائی
مہنگائی کے گراف کو تیزی سے اوپر جاتا دیکھ کر پی ڈی ایم نے احتجاجی مظاہروں کا اعلان کردیا ہے۔ایک عرصے سے لوگوں کو اپوزیشن سے یہی شکایت تھی کہ وہ عوام کو درپیش اصل مسائل کے اوپر بات نہیں کرتی۔
۔ کچھ لوگوں نے یہ بھی کہا کہ ان کی اندر ہی اندر حکومت کے ساتھ کوئی ڈیل ہوگئی ہے۔ موجودہ حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد اپوزیشن نے جتنے بھی جلسے یا احتجاج کیے ان سب میں عوام کے مسائل سے زیادہ اپنی مشکلات کے حوالے سے حکومت کے خلاف باتیں ہوا کرتی تھیں۔ لیکن دیر آید درست آید کے مصداق اب پی ڈی ایم نے مہنگائی کو اپنے احتجاج کی بنیاد بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ بلاشبہ مہنگائی اتنی زیادہ ہوگئی ہے کہ شائد ہی کوئی اس سے انکار کرے اور اگر اپوزیشن صرف اسی مسئلے پر زور دے تو عوام اس ان کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔
یہ بات تو صاف ہے کہ حکومت کو عوام سے کوئی ہمدردی نہیں، ان کی صرف ایک ہی ترجیح ہے کہ کسی طرح آئی ایم ایف کے دئیے ہوئے ٹارگٹ پورے ہو جائیں۔ وہی آئی ایم ایف جس کے بارے میں وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ میں خود کشی کولوں گا مگر اس کے پاس نہیں جاؤں گا۔ اب وہی وزیر اعظم آئی ایم ایف کی پیشگی شرائط مان رہے ہیں۔ آئی ایم ایف کے ساتھ بھی حکومت نے وہی کیا جو وہ عوام کے ساتھ بڑے عرصے سے کرتی آ رہی ہے، جھوٹے دعوے۔ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات پہلی سطح پر ہی ناکام ہوگئے ہیں۔پاکستان کی جانب سے بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی شرط قبول کرنے کے باوجود بھی آئی ایم ایف نے ان اقدامات کو ناکافی قرار دیا ہے۔ مہنگائی، غربت اور بے روزگاری میں خوفناک اضافہ ہو چکا ہے۔ اشیاء خوردو نوش سے لے کر بجلی اور پٹرولیم کی قیمتیں تاریخ کے بلند ترین سطح پر ہے۔ موجودہ حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد، جب پاکستان آئی ایم ایف کے پاس گیا اور وہاں ان کی شرائط دیکھیں تو اس وقت کے وزیر خزانہ اسد عمر نے ان کے ساتھ معاہدہ کرنے سے صاف صاف انکار کر دیا تھا۔ انہوں نے تب کہا تھا کہ یہ معاہدہ پاکستان کے لیے تباہی ہے اور اسی بات پر اسد عمر کو ہٹا کر حفیظ شیخ کو نیا وزیر خزانہ لگایا گیا تھا۔ انہوں نے آتے ہی آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کر لیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان کو بتا دیا گیا تھا کہ پٹرول کی فی لٹر قیمت ایک ڈالر رکھنا ہو گی۔کورونا دنیا کے لیے موت بن کر آیا مگر ہمیں اس سے بڑا فائدہ ہوگیا - آئی ایم ایف کا پچھلا پلان منسوخ ہوگیا اور آئی ایم ایف نے ہمیں پونے دو ارب ڈالر کورونا امداد کی صورت میں دے دیے۔ اب جب کورونا ختم ہوا تو پاکستان نے پھر وہی معاہدہ آئی ایم ایف کے ساتھ کرنے کا پلان بنایا جس میں انہیں ابھی ایک ارب ڈالر کا قرض ملنا تھا، جو بحال نہیں ہوسکا۔
اپوزیشن نے الزام لگایا ہے کہ حکومت آئی ایم ایف سے قرضے کی قسط منظور کرانے کے لیے وہ وہ فیصلے بھی کر رہی ہے جن کا مطالبہ خود آئی ایم ایف نے نہیں کیا مثلاً مذاکرات شروع ہونے سے پہلے ہی بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا گیا۔ حکومت کہتی ہے کہ پٹرول کی قیمت میں اضافہ عالمی سطح پر پٹرول کی قیمتیں بڑھنے کی وجہ سے کیا گیا ہے جبکہ پچھلے پندرہ دن سے پٹرولیم مصنوعات کی حوالے سے عالمی مارکیٹ مستحکم رہی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اوگرا نے 6 روپے فی لیٹر بڑھانے کی تجویز دی تھی مگر وزیراعظم نے ساڑھے دس روپے بڑھا دئیے۔ پچھلے مہینے بھی جب اوگرا نے 2 روپے بڑھانے کی تجویز دی تھی،وزیراعظم نے پانچ روپے بڑھا دیے تھے۔ اس کے پیچھے کیا سائنس ہے یہ بھی ہم لوگ سمجھنے سے قاصر ہیں۔ شوکت ترین کو بڑی شان سے وزیر خزانہ بنایا گیا تھا اور ساتھ یہ بات بھی سنی گئی تھی کہ اب معیشت بہتر ہو جائے گی، مگر ادارہ شماریات کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق شوکت ترین کے دور میں ریکارڈ مہنگائی ہوئی ہے۔ اب شوکت ترین کی اپنی بقا کے لیے آئی ایم ایف سے مذاکرات مثبت ہونا بہت ضروری ہیں ورنہ پھر ان کی بھی چھٹی ہوتی نظر آ رہی ہے۔
اس وقت ملک میں مہنگائی کی صورت حال غیر معمولی ہے اور اس کے حل کے لیے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔ اب پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں اور ان کے رہنماؤں کی ذمہ داری ہے کہ وہ مہنگائی کے خلاف اس احتجاج کو کامیاب بنانے کی کوشش کریں۔ اگر پی ڈی ایم حکومت پر پریشر ڈال کر کسی طرح مہنگائی کے سونامی کو روک دیتی ہے تو یہ ان کی سب سے بڑی کامیابی ہوگی۔