”خوشی آپ کی دسترس میں ہے“

”خوشی آپ کی دسترس میں ہے“
”خوشی آپ کی دسترس میں ہے“

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


مجھے دفتر پہنچے چند ساعتیں ہی گزری ہوں گی کہ ایک ادھیڑ عمرخاتون اور اس کے ساتھ اس سے بڑی عمر کا ایک مرد دفتر میں داخل ہوئے۔میں نے اُنہیں تشریف رکھنے کا کہہ کر نائب قاصد سے اُنہیں پانی پلانے کو کہا۔جب وہ پُر سکون ہو گئے، تو میں نے باعثِ آمد دریافت کیا۔خاتون نے بتایا کہ اُن کے خاوند جو سرکاری ملازم تھے،ریٹائرمنٹ کے بعد انتقال کر گئے۔اُن کا فیملی پنشن کا کیس دفتروں کی باہم مراسلت میں اٹکا ہوا تھا۔ اور وہ اس کے پیچھے بھاگ بھاگ کر تھک چُکی تھی۔میں نے کیس کی آخری منزل کا دریافت کیا تو وہ اس سے بھی لا علم تھی۔میں نے کیس کا عنوان اورحوالہ نمبر لے کر پانچ جگہ پر فون کیا تو کیس کے ”آخری پڑاؤ“تک پہنچ گیا۔ کیس تک پہنچنے میں صرف کردہ تگ و دو اوروقت کامتعلقہ افسر سے ذکر کرتے ہوئے درخواست گزاری کہ خاتون کا اُس دن،اس کے دفتر کاآخری چکر ٹھہرے اوراُسے مزید ”دفتر گردی“کا شکار نہ ہونا پڑے۔اپنی بات مکمل کرنے کے بعد میں نے خاتون کو متعلقہ افسر کا نام اور دفتر کاپتہ بتا کر خدا حافظ کہا، توخاتون کی آواز شکریہ ادا کرتے کرتے خوشی اور تشکّر کے مِلے جُلے جذبات سے بھرّا  سی گئی۔اس کے الفاظ تھے”مجھے زندگی میں بہت سے دفاتر جانے کا اتفاق ہوا،مگر جو اخلاق،تواضع، معاونت اور شفقت اس دفتر سے ملی ہے وہ کہیں نہیں مل سکی“میں نے خاتون سے کہا،”شکریہ تو مجھے آپ کا ادا کرنا چاہیے کہ میرے دن کا آغاز آپ کی دُعاؤں سے ہورہا ہے۔ اور پھر مجھے خدا کابھی شکر ادا کرنا چاہیے کہ اُس نے مجھے آپ کے کام آنے کا موقع مرحمت فرمایا ہے۔“خاتون دعاؤں کی برسات کرتی رخصت ہو گئی اور میرا سارا دن تشکّر سے لبریز مُسّرت میں گزرگیا۔


خوشیاں تو ہمارے چار سُو بکھری پڑی ہیں۔ بس اُنہیں سمیٹنے کا ڈھنگ چاہیے۔کتنے ہی احباب ایسے ہیں جن کے دفتروں کے دروازوں پر خوشیاں ”تاڑ تاڑ“ دستک دیتی ہیں۔مگر اپنی طبیعت، ”شاہی روّیہ“ اور کبھی کبھی ”مصروفیّت“انہیں دروازے کی طرف دیکھنے تک کی مہلت نہیں دیتی۔ یوں خوشی شرمندہئ تعبیر ہوئے بغیر لوٹ جاتی ہے۔ آج معاشرتی،معاشی،ماحولیاتی اور وسیبی مجبوریوں اور بے بسی سے نِڈھال ہر عمر اور جنس کے افراد سرکاری دفتروں کے برآمدوں میں تشویش زَدہ قدم روانی کرتے،اس بات کے منتظر ہوتے ہیں کہ کس لمحے صاحب کا خادم اُن کی پرچی صاحب کے آگے لے جانے کی مہربانی فرمائے اور کس گھڑی صاحب کے سامنے شرفِ شنوائی حاصل ہو۔صاحب تک پہنچنے سے پہلے صاحب کا خادم اور دیگر ماتحت عموماً ”ڈیڑھ صاحب“ دِکھائی دیتے ہیں۔ دفتروں کے برآمدوں میں بنچوں پر بیٹھے کتنے سائلین، سفر کی کی تھکان کے باعث اونگھتے نظر آتے ہیں۔جن کی شنوائی نہیں ہو پاتی وہ سرِشام دُوردراز کے اضلاع میں اپنے عزیزوں اوربچوں کو ٹیلیفون پر دن بھر کی ”انتظار بھگتی“ سناتے ہیں، اوررُوہانسے ہو کر تاکید کرتے ہیں کہ سب رب کے حضوردعا کیجئے گا کہ کل صاحب سے ملاقات ہو جائے، وگرنہ ایک سے زیادہ راتیں فٹ پاتھ پر گزارنا ہوں گی۔


بات صرف سرکاری دفتروں تک ہی محدود نہیں ہے۔جاگیردار ہو،تاجر ہو، یا بزنس مین،جہاں بھی کوئی ”صاحبِ ثروت یا جلوت“ موجود ہے،اس کے ”قصرِ دولت و عظمت“ سے ”مخلوق“اپنے ”مقدّر“ سے ”بارآور“ ہوتی رہتی ہے۔کتنے ہی لوگ اپنی مجبوری اور بے بسی کے باعث خودی،اَنا اور عزتِ نفس سے ”نا آشنا“ہو چکے ہیں۔


عیدالفطر کے موقع پرایک بڑے جاگیردار نے سَومیل دُور اپنے ایک خادم کو ٹیلیفون کر کے آکر ملنے کو کہا۔ خادم نے اپنے گھر میں بیوی بچوں کے ساتھ عید کی خوشیاں چھوڑ کر، ٹریفک کے بند ہونے کے باعث،کسی سے موٹر سائیکل مستعار لی۔راستے میں مِٹھائی کی دکان سے مِٹھائی کا ڈِبّہ لیا،اورسَومیل دور،دشوار گزار راستہ طے کر کے جاگیردار کے گھر جا پہنچا۔اُسے سلام کے بعد عید مبارک کہی۔ مٹھائی کا ڈِبّہ پیش کیا۔جاگیردار نے جیب سے ایک کرنسی نوٹ نکال کر اس کی مُٹھی میں دے کر، مُٹھی دباتے ہوئے کہا،”یہ تمہاری عیدی ہے،میں نے تمہیں اسی لئے یہاں بلایا تھا۔اب آپ جا سکتے ہو“۔خادم نے صاحب کا شکریہ ادا کیا۔ نوٹ دیکھے بغیر جیب میں ڈالا اور چل دیا۔راستے میں خیال آیا کہ صاحب نے جو پیسے دیے ہیں، ان میں سے اپنے بچوں کے لئے بھی مِٹھائی لیتا جائے۔خوشی خوشی جیب میں یہ سوچ کر ہاتھ ڈالا کہ پانچ ہزارروپیہ تو وڈیرے نے دیا ہی ہوگا۔پانچ سو کی مِٹھائی ہی سہی،مگر جب جیب سے ہاتھ باہر نکالا تو اس میں پانچ سو کا نوٹ تھا۔اُس کا چہرہ لٹک گیا۔سفر کی خواری،وڈیرے کیلئے ہزار کی مِٹھائی، مستعار لی گئی موٹر سائیکل میں تین سو کا پٹرول اور پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ عید کا پورا دن بچوں سے دور گزر گیا۔خیر،اس نے پانچ سو کی مِٹھائی لی۔ اپنی بے بسی اور ناتوانی کو کوستا،تھکا ہارا شام کو بچوں میں جا بیٹھا۔وڈیرے جاگیردار نے اس کی عید کی خوشی دوبالا کرنے کی بجائے،اس سے اصل خوشی بھی چھین لی۔


میرے ہم وطن،محض ایک خوشی کے حصول کے لئے لاکھوں روپے خرچ کرتے ہیں۔کبھی عُمدہ لباس پر،کبھی گھر کی تعمیر پر،کبھی بچوں کی شادیوں پر،شادی بیاہ کے موقع پر ناچ گانے پراور پتہ نہیں کس کس موقع اور مناسبت پر خرچ کر کے خوشی محسوس کرنے کی ”کوشش“ کرتے ہیں۔مگردولت کے بے دریغ استعمال سے حاصل کردہ خوشی کا دورانیہ بہت کم ہوتا ہے۔یہ اُس خوشی کا نعم البدل کبھی نہیں ہو سکتی،جو کسی بے کس اور بے بس کے چہرے پر مسکراہٹ لا کر حاصل ہوتی ہے۔گویا خوش وہ رہ سکتا ہے جو دوسرے کو خوش کرنے کا اہتمام کرنے کا سوچتا ہے۔اَفسر ماتحت سے،ڈاکٹر مریض سے، دکاندار گاہک سے، وڈیرا رعیّت سے،خاوند بیوی سے،بیوی خاوند سے، استاد شاگرد سے اور اسی طرح ہر ”بااَثر“ اپنے ”متاثر“سے مسکراہٹ کے ساتھ نرم لہجے میں بات کر لے تودنیا کے جُملہ تجزیات کے مطابق اس پر ایک پائی بھی خرچ نہ ہوگی۔ اس”کرم“کا نہ صرف”متاثر“کی طبیعت پر خوشگوار اثر پڑے گا، بلکہ یقینی طور پر ”صاحب ِ اَثر“ کے لئے بھی روح افزاء ثابت ہوگا۔گویا،ہر وقت خوشی آپ کی دسترس میں ہے۔آپ کی مرضی ہے،ہاتھ آگے بڑھائیں یا کمر کے پیچھے باندھے رکھیں۔

مزید :

رائے -کالم -