قانون میرا زرخرید

ہمارے وہ بزرگ جوقیام پاکستان کے بعد پاکستان آکربھی انگرےزوں کے زمانوں کو اُن دنوں مےں شدت سے ےاد کرتے تھے، جب ابھی پاکستان اِس دہشت گردی سے آشنا نہےں تھا۔جب بڑے بوڑھے برٹش راج کو خراج پےش کرتے ہوئے کہتے تھے کہ بےس تولے سونا پہن کر اےک عورت کلکتے سے پشاور تک بلاخوف و خطر سفر کرسکتی تھی تو اس کا مطلب ےہ تھا کہ قانون طاقتور تھا۔قانون کی حکمرانی تھی۔
ہم اسلامی جمہورےہ پاکستان کے شہرےوں نے ابھی حال مےں ہی شاہ زےب اور شاہ رخ جتوئی کے سلسلے مےں قانون کی جس طرح دھجےاں اُڑتے دےکھی ہےں ،وہ کسی سے پوشےدہ نہےں۔آپ پےسے والے ہےں،آپ بااثر ہےں،آپ پاور مےں ہےںتو آپ اور آپ کی اولادوں کو کُھلی چھٹی ہے کہ جو اُن کا جی چاہتا ہے ،وہ کرتے پھرےں۔ دل لگی اور مذاق مےں ، کہےںذرا سے جھگڑے پر، اشتعال مےں آکر جب اور جس وقت چاہے، جسے چاہےں قتل کردےں۔جہازوں پر بےٹھ کر فرار ہو جائےں،بلکہ فرار کروا دئےے جاتے ہےں۔اگر کہےں شو مئی قسمت سے عدالت کے ہتھے چڑھ جائےںتو ساری افسر شاہی اور اےلےٹ کلاس کو مصےبت پڑجاتی ہے....سزا کا سُن کر مسکراتے ہوئے انگلےوں سے فتح کا نشان بناتے ہوئے باہر نکلتے ہےں۔ ڈوب مرنے کی بات ہے نا۔ فتح کا ےہ نشان اٹھارہ کروڑ لوگوں کے منہ پر اےک طمانچہ ہے ۔اےک کھلا پےغام ہے کہ قانون تو مےرا زرخرےد ہے۔
اب سوسائٹی مےں قصاص اور دےت کے حوالوں سے بحث و مباحثہ۔لوگوں کے ردعمل اور باتوں کے پٹارے ۔اتنے کروڑ اور آسڑےلےا مےں سکونت۔اےک اےسے عدم تحفظ معاشرے مےں جہاں قانون گھر کی لونڈی ہے۔اےک خاندان کے لئے سوچنے کی بات ہے کہ وہ اِس کےس کو شہرت ملنے کی وجہ سے اگر انصاف پا بھی لےںتو کیا بقےہ بچے اُن بااثر لوگوں سے محفوظ رہےں گے؟
پانچ سالہ معصوم سنبل زےادتی کا نشانہ بنتی ہے۔مجرموں کو فوری کھوجنے اور سزا دےنے کے بجائے ہم چار چشم دےد گواہوں اور ڈی این اے ٹےسٹ جےسی بحثوں مےں الجھ جاتے ہےں۔واقعے کے عےنی شاہد چار گواہ کہاں سے آہےں گے۔کےا ےہ جرم سر بازار ہوا، تب بھی ظلم ہوتے ہوئے مجرم کا ہاتھ نہےں پکڑا گےا تو انصاف کے لئے شہادت کی توقع اےسے لوگوں سے تو اےسے ہی ہے جےسے دودھ کی رکھوالی کی توقع بلی سے۔ اب شناخت پرےڈ کا کہا جا رہا ہے، وہ ہو گی۔وہ ہنستی مسکراتی بھولی بھالی بچی جو گھر سے آئس کرےم لےنے نکلی تھی۔کےا اُسے اس سانحے کی توقع تھی۔اےسا حادثہ تو اچھے بھلوں کے اوسان خطا کردےتا ، بلکہ سچ تو ےہ ہے کہ خبر پڑھتے ہوئے آپ کا اندر باہر ےکدم سناٹے مےں آجاتا ہے۔آنکھےں آنسوﺅں سے بھر جاتی ہےںاور شدےد غصے اور دُکھ کی کےفےات آپ کو اپنی لپےٹ مےں لے لےتی ہےںتو اےسے حادثے کا شکار ہونے والا فرداپنے ہوش و حواس قائم رکھے اور وہ بھی معصوم بچی۔
مجھے بہت پہلے کا وقوع پذیر ہونے والا اےک حادثہ ےاد آےا ہے کہ جنوبی پنجاب کے کسی گاﺅں مےں پچےس سالہ خاتون کو اندھےری رات مےں رےپ کےا گےا۔عورت کے منہ پر کپڑا باندھا گےا تھا،ناک کھلی رہی۔اُس جسم کی مخصوص بو اس کے اندر کہےں اتر گئی اور پورے دس سال بعد اُسی مخصوص بو کو اپنے کسی عزےز کے وجود سے محسوس ہونے پر اُس نے چھری اُس کے پےٹ مےں اتار دی تھی۔ےہ اےک ذمہ دار عورت کا معاملہ تھا۔بچی سے شناخت کی توقع ،جس کا منہ اور آنکھےں جانے کےسے بند کی ہوں گی۔اب ےہاں ڈی اےن اے ٹےسٹ موجود ہے،جو مجرم کی گرفتاری کروا سکتا ہے اور ےہاں ہمارے علماءاور آئےنی ادارے کونسل اف اسلامک آئےڈےالوجی کا ارشاد کہ اس ٹےسٹ کی عےنی شاہدوں کے مقابلے پر کوئی اہمےت نہےں۔
اب معاملہ اےسی فروعی بحثوں مےں الجھتا اور لٹکتا جائے گا۔ہم آخر اجتہاد کی اہمےت کو کےوں نہےں سمجھتے کہ اسلامی قوانےن کا اطلاق جن حالات اور زمانے مےں تھا،گزرتا وقت اور عصری تبدےلےاں ان قوانےن مےں تبدےلےوں کی متقاضی ہیں۔ اس ضمن مےں امام ابو حنےفہ کی مثال دی جاسکتی ہے کہ اپنے ہمہ وقت لوگوں سے رابطے کی وجہ سے وہ عام لوگوں کے مسائل سے آگاہ رہتے تھے اور شرعی قوانےن مےں اپنی مجلس مشاورت کی مدد اور رائے سے تبدےلےاں کرتے تھے۔موجودہ حالات مےں ڈی اےن اے ٹےسٹ سے معتبر کوئی گواہی نہےںجو مجرم کو پکڑ سکے اور اسے تختہ دار پر لائے۔
معصوم بچے ،لڑکےاں اور لڑکے دونوں اےسے وحشی انسانوں کا نشانہ بنتے ہےںجو زےادتی کے بعد ان کے گلے گھونٹ کر کہےں کھےتوں ،کہےں وےران کنوﺅں ،کہےں چھپڑوں ، کہےں نہروں مےں پھےنک دےتے ہےں۔ کہےں گاﺅں کے زمےندار کا بےٹامرکزی کردار ادا کررہا ہے۔کہےں گھر کی ملازمہ کے ساتھ صاحب خانہ کی زےادتی اور بچی کا قتل۔ہمارے معاشرے کی بے حسی سامنے آتی ہے۔ صبح اخبار کھولےں پانچ چھ کےس تو معمول کی بات ہے۔ابھی دےہی علاقوں مےں وقوع پذےر ہونے والے حادثات مےڈےا پر اکثر ےوں نماےاں نہےں ہوتے ، جےسے بڑے شہروں اور ان کی مضافاتی بستےوں مےں مےڈےا کے ہتھے چڑھ جانے والے واقعات شہرت پکڑ لےتے ہےں۔
کمزور اورغرےب کی تو اےف آئی آر تک نہےں کٹتی ۔تھانے مےں وہ فرےاد لے کر جاتا ہے تو کہےں اس کی شنوائی نہےںہوئی۔ مجرم اگر ےہ جان لے کہ پکڑے جانے پر اُس کا گاٹا اتر جانا ہے تو دےکھےں وہ غلط کام کرنے سے پہلے بےس بار سوچے گا۔جرائم دنےا کے کون سے کونے مےں نہےں۔دنےائے اول ہو دوم ہو ےا سوم،انسانی فطرت خےر اور شر دونوں کے ساتھ جڑی ہوئی ہے،مگر قانون کی سخت گرفت ہاتھ باندھنے مےں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ہمارے ےہاں کتنی اےن جی اوز ہےں جو ڈھےروں ڈھےر غےر ملکی فنڈز لےتی ہےں۔ان کی شاندار عماراتیں اور اُن مےں موجود سہولتیں دےکھ کر آنکھےں کھلی رہ جاتی ہےں۔کارکردگی کا حال رپوٹےں بنانا،پےپر ورک اور عملی کام صفر۔مےکانزم نہےں ،کوئی چائلڈ پروٹےکشن پالےسی نہےں۔
گلےوں بازاروں مےں پھرتے ےہ بچے اِن انسان نمابھےٹروں کے ہتھے ےوں آسانی سے چڑھتے ہےں۔پاکستان مےں تقرےباً 85 لاکھ بچے بنےادی تعلےم سے محروم ہےں۔غرےب لوگوں کی اےک تعداد دےنی مدرسوں مےں بھی جاتی ہے۔جہاں کا گھٹن زدہ رواےتی ڈنڈا پرور ماحول اس پر تنگ نظر اُستاد، جن کے چھوٹے تنگ نظر ذہن اکثر بچوں کو غلط راستوں پر چلانے کا باعث بنتے ہےں۔
اےک مرنا ہمارے بے لگام ٹی وی چےنلوں کا ہے ۔ماردھاڑ والی فلمےں۔چھوٹے بچے جو دےکھتے ہےں، وہی کرتے ہےں۔اےک کھلونے بنانے والی کمپنی ،جس نے بچوں کے ہاتھوں مےں پستول اور کلاشنکوفےں پکڑائی ہےں۔گھر مےں چار بچے اکٹھے کھےل رہے ہوں تو ڈز ڈز گولےاں چلتی ہےںاور ہمارے بچے اسی طرح لےٹ کر مرنے کی اےکٹنگ کرتے ہےں۔ہم کہاں جا رہے ہےں؟اےک بُرا ہوانٹرنےٹ کا ۔ماﺅں کو تو پتہ ہی نہےں چلتا کہ بچے اور بچےاں کےا کررہی ہےں۔چےٹنگ مےں کِسے الّو بنا رہی ہےںاور کہاں خود بن رہی ہےں۔ خدا ہمارے اوپر رحم کرے۔ ٭