اپنے عہد کے مجددِ نعت
حضرت حفیظ تائب ؒ ۔۔۔ معاصرین کی نظر میں
حقیقتاً حفیظ تائب ؒ وہ شخصیت ہیں جن کے بارے میں وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ اُن کی تخلیق خاص مقصد اور ضرورت کے تحت ہوئی تھی اور وہ عظیم مقصد اِس دور کو دورِ نعت بنانا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد کے دور کو نعتیہ تخلیقات کے اعتبار سے اگر بہارِ نعت کا زمانہ قرار دیا جاتا ہے تو اس میں بلاشبہ قائدانہ کردار حفیظ تائبؒ ہی کا ہے۔ حفیظ تائبؒ کے بارے میں بے شمار اصحابِ علم و فن نے اظہارِ خیال کیا، اُن میں سے بعض کے اقتباسات ہدیۂ قارئین کئے جا رہے ہیں۔
یہ اقتباسات اعترافِ عظمت اور اعترافِ حقیقت تو ہیں ہی،لیکن اس کا اصل مقصد نئی نسل کو اُن کی شخصیت اور اُن کے فن کے چیدہ چیدہ پہلوؤں سے روشناس کروانا ہے۔
جناب عمران نقوی نے ایک مرتبہ حفیظ تائب سے، اُن کے اعزازات اور پذیرائی کے حوالے سے سوال کیا تھا ’’اِن چیزوں کا آپ کی طبیعت پر کیا ردعمل ہوتا ہے، کچھ فخر کا احساس تو ہوتا ہو گا؟‘‘ تو اِس موقع پر حضرت حفیظ تائب ؒ کا جواب اِس مضمون کے حوالے سے بھی اُن کے احساسات اور جذبات کی ترجمانی بھی کرتا ہے اور ہماری رہنمائی بھی۔
’’جوں جوں میری نعت اور شخصیت کی تحسین ہوتی ہے، میری طبیعت میں عجز و انکسار بڑھتا ہے اور مَیں اللہ کریم کا شکر ادا کرتا ہوں، جس نے مجھے نعت اور منوعتِ دوجہاں کی محبت عطا فرمائی اور طبیعت کو بھٹکنے نہیں دیا۔ میری ایک نعت کا شعر ہے:
اندازِ پذیرائی سے ہوا رنگ اُن کی محبت کا گہرا
رحمت کے دریچے اور کھلے، مدحت کا تقاضا اور ہوا
’’فضل و کمال کی قدر اہلِ فضل اور باکمال ہی جانتے ہیں‘‘۔
جناب ڈاکٹر سید عبداللہؒ
’’نعت کا گلشن آج کل خوب پھل پھول رہا ہے۔ اِسی گلشن کا ایک بلبل خوش نوا حفیظ تائب ؒ ہے، جس کی نعت اب اپنے زمانے پر اپنا نقش قائم کر چکی ہے لہٰذا تعریف تعارف کی کوئی سعی اُس کے کمالِ فن کی تنقیص کے برابر ہو گی۔
حفیظ تائب ؒ کی نعت کو پڑھ کر کچھ یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ ایک ایسا وصاف ہے جو حضور اکرمؐ کے روبرو کھڑا ہے۔ اُس کی نگاہیں جھکی ہوئی ہیں اور اُس کی آواز احترام کی وجہ سے دھیمی ہے مگر نہ ایسی کہ سنائی ہی نہ دے اور نہ ایسی اونچی کہ سؤ ادب کا گمان گزرے۔ شوق ہے کہ امڈا آتا ہے اور ادب ہے کہ سمٹا جا رہا ہے۔
حفیظ تائب ؒ کی ہر نعت میں یہ کیفیت موجود رہتی ہے، مگر اُس کی نعت صرف آواز اور لہجہ نہیں، اُس میں حرفِ مطلب بھی ہے، یعنی وصفِ حسن بھی ہے، مگر غزل کا سا نہیں، اظہارِ شوق بھی ہے، مگر گیت کا سا نہیں۔ توصیف بھی ہے، مگر قصیدے کے مانند نہیں۔ اُس میں التجا و تمنا بھی ہے، مگر گدایانہ نہیں، اس میں طلب و تقاضا بھی ہے، مگر زر و مال اور متاع قلیلِ دنیا کا نہیں، انسانیت کے لئے چارہ جوئی کا۔
اپنی اُمت کے برہنہ سر پہ رکھ شفقت کا ہاتھ
پونچھ دے انسانیت کی چشمِ تر خیرالبشرؐ
روح ویران ہے، آنکھ حیران ہے
ایک بحران تھا، ایک بحران ہے
گلشنوں، شہروں، قریوں پہ ہے
پرفشاں ایک گھمبیر افسردگی یا نبی ؐ
حفیظ تائب ؒ موجودہ نعت گوؤں میں طرزِ شوق و نیاز کے لئے شہرت رکھتے ہیں۔ طرزِ شوق و نیاز سے مراد یہ ہے کہ شاعر اپنی نعت میں حضور اکرمؐ کی واقعاتی توصیف کے بجائے اپنے دِل کے جذبات و کیفیات کا بیان کرے اور اُس میں اپنے شوق و نیاز و خلوص کا بطور خاص تذکرہ کرے۔ نعت میں حفیظ تائب ؒ نے شاعری بھی کی، نیاز مندی بھی دکھائی اور نعت کو ایک نئے کوچے سے بھی آشنا کیا ہے۔ وہ نعت گوئی کے لئے وقف ہیں۔
کیا ہے نعت میں دیوان تائب
مری بخشش کا ساماں ہو گیا ہے
حفیظ تائب ؒ کی نعتیں سچائی کے وصف سے متصف ہیں۔ اُن کے اظہار میں خلوص ہر جگہ نمایاں ہے وہ وصافِ رسولؐ بھی ہیں اور عاشقِ رسولؐ بھی۔
حفیظ تائب ؒ کو نعت کے شعری تقاضوں کا پورا خیال رہتا ہے۔ ان کی نعت میں مترنم ردیف بڑی اہمیت رکھتی ہے۔
شوق و نیاز و عجز کے سانچے میں ڈھل کے آ
یہ کوچۂ حبیب ہے پلکوں سے چل کے آ
زبان و بیان میں کمال درجے کی شگفتگی اور شائستگی، سکون و سکوت اور برجستگی کے باوجود متانت جو لازمہۂ ادب ہے۔ آرائش کا یہ رنگ او زیبائش کا یہ ڈھنگ صلوا علیہ وآلہ میں ہر جگہ جلوہ افزا ہے‘‘۔
جناب احسان دانشؒ
’’حفیظ تائب ؒ کے یہاں جس عشقِ سرکارِ دو عالمؐ کا نور پایا جاتا ہے، وہ بہت کم نعت گو شعراء کو نصیب ہوا ہے اور حفیظ تائب ؒ کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ صرف مداحِ رسالت مآبؐ ہے اور اس کی زبان جب بھی کھلتی ہے، رسول اللہؐ کی مدح وثناہی میں کھلتی ہے۔ یہ کیسی خوش نصیبی اور سرفرازی ہے جو حفیظ تائبؒ کو حق تعالیٰ کی جانب سے عطا ہوئی ہے۔
وہ اِس دور کے ممتاز نعت گو ہیں، جن کے کلام میں اُن کا عشق و عقیدہ جھلکتا ہے۔وہ دِل سے نعت کہتے ہیں اور زبان و قلم سے ادا کرتے ہیں۔ ہم لوگ اُن پر رشک کرتے ہیں اور دُعائیں دیتے ہیں‘‘۔
جناب ڈاکٹر غلام مصطفی خاںؒ
’’حضرت حفیظ تائب ؒ ایک پختہ کار اور قادر الکلام شاعر ہیں۔ حضورؐ سے والہانہ عقیدت اور محبت کے باوجود انہوں نے نعت میں مبالغے سے احتراز کیا ہے اور اپنے اکثر مضامین قرآن پاک سے لئے ہیں۔ معنوی محاسن کے علاوہ حضرت حفیظ تائب ؒ کے یہاں ذخیرہ الفاظ بھی وسیع ہے اور الفاظ کی بندش میں دلکشی بھی بہت ہے۔ الفاظ کی فراوانی کے علاوہ عمدہ عمدہ ردیفوں کی فرواوانی بھی ہے پھر ترکیبات اور تشبیہات و استعارات بھی بکثرت ہیں اور بعض مقامات پر علامہ اقبال کا پر تو نظر آتا ہے‘‘۔
جناب احمد ندیم قاسمی ؒ
’’یہ دور اُردو زبان میں نعت گوئی کا دورِ روشن ہے اور اِس دورِ روشن کے آفتاب بلاشبہ حفیظ تائبؒ ہیں کہ اس شخص نے حضور اکرمؐ کی ذاتِ گرامی کے ساتھ اپنی عقیدت اور عشق کا اظہار اتنی گہرائی،اتنی شدت، اتنی تہذیب اور اتنے سلیقے سے کیا ہے کہ اُن کی نعت کے الفاظ میں جذبے دھڑکتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں اور نکتے نکتے میں صلِ علیٰ کی گونج سنائی دیتی ہے۔
چودھویں صدی ہجرت کے نصف آخر میں جن نعت نگاروں نے اُردو نعت کو موضوع اور مواد کے معاملے میں نئے انداز سے سجایا اور سنوارا ہے، ان میں حفیظ تائبؒ کا نام بوجوہ غیر معمولی حد تک نمایاں ہے۔انہوں نے آنحضرتؐ کے وجود گرامی سے شدید عشق کے علاوہ اُن کی زندگی بخش اور زندگی افروز تعلیمات کو بھی اپنی نعتوں کا موضوع بنایا ہے اور یوں صنفِ نعت کی حدود کو آفاق گیر حد تک پھیلایا ہے۔ اِس پھیلاؤ نے نعت کو موضوع و اظہار کی جو وسعتیں عطا کی ہیں، اُن کی جھلک اُردو نعت میں اس سے پہلے ذرا کم ہی دکھائی دیتی تھی۔۔۔حفیظ تائبؒ نے صنفِ نعت پر بعینہٖ وہی احسان کیا ہے، جو غالب، اقبال اور آج کے بعض نمایاں شعراء نے غزل پر کیا ہے۔
حفیظ تائبؒ کی نعت تمام ممکنہ فنی محاسن سے آراستہ ہے اور ایک کڑی حدِ ادب قائم رکھ کر اِس اعلیٰ معیار کی نعت کہنا جو اس دور میں سند کا درجہ رکھتی ہے، صرف حفیظ تائبؒ کا اعزاز ہے۔
مَیں نے فارسی، اُردو اور پنجابی کی بے شمار نعمتیں پڑھی ہیں۔ بعض عربی نعتوں کے تراجم بھی میری نظر سے گزرے ہیں۔ چنانچہ مَیں دعویٰ سے کہہ سکتا ہوں کہ آنحضرتؐ سے عقیدت اور عشق کا اظہار تو نعتوں میں جا بجا ملتا ہے، مگر حفیظ تائبؒ کے ہاں اِس عقیدت اور عشق کے پہلو بہ پہلو مَیں نے جو ندرتِ اظہار دیکھتی ہے اُس کی مثال ذرا کم ہی دستیاب ہو گی۔
حفیظ تائبؒ کی نعتیں پڑھئے تو معلوم ہوتا ہے کہ حضور اکرمؐ کے توسط سے وہ کائناتِ انسانی کے مثبت مطالعے میں مصروف ہے۔ زندگی کا کوئی مسئلہ اُس کے موضوع سے خارج نہیں ہے، کیوں کہ اُس کا ایمان ہے کہ اِس کائنات کی تخلیق ہی اس وجودِ گرامی کی خاطر ہوئی جو ختم المرسلین بھی تھا اور خاتم النبین بھی اور جس کا پیغام صرف عرب یا صرف عجم کے لئے نہیں تھا، بلکہ پورے کرۂ ارض کے علاوہ پوری کائنات کے لئے تھا۔
عقیدت کی یہ وسعت حفیظ تائبؒ سے ایسی ایسی نعت کہلوا گئی ہے کہ اگر مستقبل میں اس کی نعت کو سند نہیں مانا جائے گا تو اور کسے مانا جائے گا۔ انتہائی عقیدت اور بے پناہ عشق کے ساتھ ہی ندرتِ اظہار بلکہ طلسم اظہار اور کہاں ہے؟ یہ آفاقیت اور کہاں ہے؟ یہ بوقلمونی اور ہمہ گیری اور کہاں کہاں ہے؟ یہ نعت میں مسائلِ حیات کو سمونے کا سلیقہ اور کہاں ہے؟ اُس کے باوجود اتنی عاجزی اور کہاں ہے۔
اِس حقیقت کو اب تمام اہلِ فن کے ذہنوں پر آفتاب بن کر طلوع ہونا چاہئے کہ حفیظ تائب ؒ ہی نے اُردو اور پنجابی نعت گوئی کو حیاتِ نو بخشی ہے اور ہم سب لوگ جو کبھی کبھار نعتیں کہہ لیتے ہیں، دراصل اُس کے مقلد ہیں۔
مَیں نعت کے اِس دور کی خوش قسمتی سمجھتا ہوں کہ اِس دور میں حفیظ تائبؒ کا سا نعت گو نصیب ہوا، چنانچہ بیسویں صدی کی نعت کا عنوان حفیظ تائب ؒ کی نعت ہے۔
مَیں نے ہمیشہ اس حقیقت پر فخر کا اظہار کیا ہے کہ مَیں اُس دور میں زندہ ہوں جس میں حفیظ تائب ؒ نعت کہہ رہے ہیں، ہم سب کی آئندہ نسلیں اس امر پرناز کریں گی کہ اُن کی اجداد نے اِس عاشق رسولؐ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اپنے کانوں سے سنا اور اس سے مصافحے کی سعادت حاصل کی اور اُسے اپنے سینے سے لگا کر اِس کے جذبے و عشق کو اپنے سینے میں منتقل کرنے کی سعی کی۔
مجھے یاد نہیں کہ اِس اندر باہر سے حسین و جمیل شخص سے میری پہلی ملاقات کب ہوئی۔ اندازاً اتنا کہہ سکتا ہوں کہ جب وہ مجھ سے ملا ہو گا تو میرا ستارۂ مقدر روشنی کے آخری نقطے پر جگمگا رہا ہو گا اور آج مَیں سوچتا ہوں اور کہ اگر مجھے حفیظ تائب ؒ کی دوستی میسر نہ آتی تو یہ میری کتنی ہولناک محرومی ہوتی۔
جو لوگ حفیظ تائب ؒ کو قریب سے جانتے ہیں وہ اِس حقیقت سے باخبر ہیں کہ تائب کے مزاج و کردار میں اکثر خوبصورتیاں مبالغے کی حد تک موجود ہیں اور اُس سے مل کر اُس سے باتیں کر کے اُس سے قربت حاصل کر کے یہ اعتماد توانائی حاصل کرنا ہے کہ انسان واقعی اشرف المخلوقات ہے اور فرشتوں نے اُسے سجدہ کیا تھا تو بے جا نہیں کیا تھا۔ یہ شخص جسے حفیظ تائب ؒ کہتے ہیں، ہم گنہگاروں کے درمیان ایک رحمتِ خداوندی بن کر اترا ہے۔ اِس کو دیکھ کر سمجھ کر یقین نہیں آتا کہ اِس گئے گزرے دور میں بھی کوئی ایسا محبوب انسان، ایسا ہمہ صفت موصوف انسان،ایسا کھرا اور سچا انسان ایسا اندر باہر سے خوبصورت انسان بھی ہو سکتا ہے‘‘۔
جنابمیرزا ادیب مرحوم ؒ
’’موجودہ دور میں نعت پہلے سے کہیں زیادہ پر ثروت ہو گئی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ آج نعت فکر اور اسلوب کے اعتبار سے بڑی متنوع نظر آتی ہے، جن شاعروں نے اِس کی ثروت میں قابلِ ذکر اور قابلِ تحسین اضافہ کیا ہے ان میں حفیظ تائبؒ کا نام سرفہرست ہے۔
حفیظ تائب ؒ کی نعت گوئی کسی بھی غرض سے ملوث ملوث نہیں ہوتی۔ وہ صرف ثواب کمانے کے لئے بھی نعت نہیں کہتا۔ نعت گوی اُس کی زندگی ہے۔ یہ اُس کے قلب کے بے اختیار تڑپ ہے۔ یہ اس کے اندرونی کرب کا اظہار ہے۔ اُس کی نعت میں اُس کی پوری ذات سمٹ گئی ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اُس نے بعض شاعروں کی تقلید میں سراپا نگاری نہیں کی۔ اُس کا بیشتر نعتیہ کلام حضور اکرمؐ کے انسانی محامد و محاسن کی شاعرانہ رنگ میں وضاحت کرتا ہے۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ حفیظ تائب ؒ کی نعت و صف نگاری کے ذیل میں آتی ہے۔
حفیظ تائبؒ نے مروجہ کلاسیکی روایات سے صرفِ نظر نہیں کیا، مگر اُن علامات اور استعمارات سے اجتناب بتا ہے جو ضمیاتی تصورات کے پروردہ ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ نعت نگار نے خدائی صفات کو حضور مکرمؐ کی ذات و صفات سے وابستہ نہیں کیا۔ حمد و نعت میں ایک فرق رکھا ہے اور ایک ذمہ دار نعت گو سے اِسی کی توقع رکھی جا سکتی ہے۔
بطورِ انسان کے حفیظ تائب ؒ کی جو خصوصیت مجھے بہت متاثر کرتی ہے۔وہ ہے اُس کی حاتم طائیت۔۔۔ جس طرح حاتم طائی کسی کی حاجت روائی میں کچھ سوچے سمجھے بغیر جنگلوں کی راہ لیتا تھا اور ہر مرحلے پر اپنی جان خطرے میں ڈال دیتا تھا۔ کچھ ایا ہی معاملہ حفیظ تائب ؒ کے ساتھ بھی ہوتا رہتا ہے۔۔۔ اصل میں وہ بڑا سخت جان اور ضدی ہے۔۔۔ نقصان پر نقصان اٹھاتا ہے۔۔۔ اپنی ضد سے باز نہیں آتا۔ وہ بندۂ محبت۔ اُس کی ضد ہے کہ وہ دوسروں کے کام آئے گا اور محبت بانٹنا اُس کی فطرت میں شامل ہے۔
حفیظ تائب ؒ بڑا سیدھا سادا، بھولا بھالا آدمی ہے اور اگر مجھ سے یہ کہا جائے کہ تم نے انسانی خلوص کو کہیں انسانی شکل میں دیکھا ہے تو مَیں بلا تامل کہہ دوں گا، ہاں دیکھا ہے اور یہ انسانی شکل حفیظ تائب ؒ کی ہے‘‘۔
احمد راہی
حفیظ تائبؒ سی نعت گوئی
کہاں کسی کو نصیب ہو گئی
وہ نعت جس وقت کہتے ہوں گے
تو روحِ حضرتؐ قریب ہو گی
جناب ڈاکٹر وحید قریشی ؒ
’’عہدِ حاضر میں حفیظ تائبؒ سب سے بڑے نعت گو ہیں، نعت کے بارے میں اُن کا علم بہت وسیع ہے۔عربی فارسی اُردو اور پنجابی چاروں زبانوں میں اُن کا مطالعہ ہے۔
اُردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں یقیناًوہ ایک صاحبِ طرز نعت نگار ہیں۔انہوں نے نعتیہ شاعری میں توسیع کی ہے۔ ایک سمت اُسے دی ہے خصوصاً زبان و بیان اور لہجے کے اعتبار سے نعت کو جو وقار انہوں نے دیا ہے اُس سے ہماری نعتیہ شاعری میں بیش قیمت اضافہ ہوا ہے۔ وہ ایک نورانی آدمی ہیں اُن سے مجھے بڑا حوصلہ رہتا تھا اور بڑی تقویت حاصل ہوتی تھی۔ مَیں نے زندگی بسر کرنے کا گُر بھی اُن سے سیکھا اور طوفانوں میں صبرو سکون کا سبق بھی جو انہوں نے دیا اُس سے بھی مَیں نے بڑا فائدہ اٹھایا‘‘۔
جناب ڈاکٹر وزیر آغا ؒ
’’حفیظ تائبؒ نعت کے ایک بہت بڑے شاعر تھے۔انہوں نے اپنی ہر نعت جذب کے عالم میں لکھی تھی اور چونکہ بات دِل سے نکلتی تھی اِس لئے اُس کے اثرات بھی بڑے پیمانے پر مرتب ہوئے تھے۔۔۔وہ زندگی بھر ایک ایسی روحانی کیفیت میں یکسر ڈوبے رہے جو قسمت والوں کو نصیب ہوتی ہے‘‘۔
جنابمشفق خواجہؒ
’’خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ ہمارے درمیان ایسا شاعر بھی موجود ہے، جس نے نعت گوئی کو معجزۂ فن بنا دیا ہے۔
میری نظر میں اُردو میں ایسا کوئی دوسرا مجموعۂ نعت نہیں ہے، جو مطالب اور ادائے مطالب دونوں کے اعتبار سے حسن کاری کی اعلیٰ مثال ہو‘‘۔
حضرت مولانا محمد بخش مسلمؒ
’’حفیظ تائبؒ کی نعمتیں بہت خوب ہیں۔ بہرنوع مرغوب ہیں۔اُن میں بلاغت ہے، راحت ہے، روحانیت ہے،شاعری ہے، علم ہے، فن ہے، اسلام ہے، دعوتِ محبت و طاعتِ خیر الانام علیہ الصلوٰۃ والسلام ہے۔مَیں حفیظ تائبؒ کی خدمت میں خراج و آفرین پیش کرتا ہوں‘‘۔
*****