اعلیٰ تعلیم کا فروغ: ملکی ترقی کاپیشہ خیمہ
پروفیسر ڈاکٹر ضیاء القیوم(وائس چانسلریونیورسٹی آف گجرات )
بلاشبہ تعلیم کی ترقی و ترویج ہی وہ روشن مینارہ ہے جس کی جگمگاتی روشنیوں میں قوموں اور تہذیبوں نے تخلیق و تعمیر کی درخشاں راہوں پر سفر کیا اور تاریخ عالم میں اپنا نام سنہری حروف میں رقم کر وایا۔ اگر دیکھا جائے تو تعلیم کی بھی مختلف جہات بیک وقت کام کررہی ہوتی ہیں یہاں پر میرا مطمعء نظر تخلیقی تعلیم کا فروغ ہے۔ حالیہ سالوں میں پاکستان کے مختلف طبقوں نے مختلف سطحوں پراعلیٰ تعلیم کے فروغ و وسعت کا نعرہ لگایا ہے اور یہ نعرہ بجا بھی ہے کیونکہ آج جب ہم پوری دنیا میں مختلف ترقی یافتہ اقوام کی ترقی کا راز جاننے کی کوشش کرتے ہیں توعیاں ہوتا ہے کہ ان تمام اقوام نے تخلیقی علم کو اپنی معیشتوں کی خشتِ اوّل تصور کرتے ہوئے اپنے تمام سماجی و معاشی نظام کو علم کے ساتھ وابستہ کرتے ہوئے اور تخلیقی علم کی وسعتوں کو فروغ دیتے ہوئے ایجادات و انواع کا ایک ایسا جال بچھا دیا جس کے ذریعے انہوں نے ترقی پذیر قوموں کے بیشتر وسائل کو بھی اپنے قابو میں کر لیا اور یوں علم کی طاقت کے ذریعے پوری دنیا میں اپنی دھاک بٹھا دی۔ نالج اکانومی کے اس دور میں قوموں اور ملکوں کی ترقی میں اعلیٰ تعلیم کلیدی اہمیت کی حامل ہو گئی ہے اور معیاری اعلیٰ تعلیم کے بغیر ملک اور اقوام ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں کیونکہ افرادی قوت کی ترقی اور اداروں کی تعمیر کے بغیر خوشحالی کا خواب شرمندہ ء تعبیر نہیں ہو سکتا۔ اعلیٰ تعلیم میں سرمایہ کاری بڑے منافع کے ساتھ واپس آتی ہے۔ عالمی منظر نامے پر مسابقت اور فضیلت کے لیے جدوجہد نے اعلیٰ تعلیم کے سماجی کردار کو دو چند کر دیا ہے چنانچہ اعلیٰ تعلیم کے نظام کو ا س طرح فعال بنانا کہ وہ قومی تعمیر نو کے عمل میں تجدیدی کاوشوں کا علمبردار ثابت ہو، ترقی کی خواہش رکھنے والی اقوام کا نصب العین بن گیاہے۔
ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں برتنا چاہیے کہ پاکستان کو اس وقت کئی قسم کے سماجی و معاشی مسائل کا سامنا ہے۔ان تمام مسائل کا تذکرہ ساری قوم ہر وقت اور ہر فورم پر کرتی رہتی ہے مگر نہ تو ان مسائل کے پس پردہ حقائق کا صحیح ادراک کرنے کی کوششیں کی جاتی اور نہ ہی ان کے حل کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش ہمارے سامنے آتی ہیں۔ ہاں نعرہ ضرور لگایا جا تا ہے کہ ان مسائل کے حل کے لیے کوششیں تیز تر کر دی گئی ہیں۔ اگر فلسفیانہ پہلو سے مختلف مسائل کا جائزہ لیا جائے تو ہر ایک کے پیچھے ہمیں کوئی نہ کوئی معاشی اْلجھن ضرور حرکت کرتی نظر آئیگی۔ میرے خیا ل میں اس وقت ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہمارے نوجوان طبقہ کی بیروزگاری ہے۔ وجہ اس کی بادی النظر میں یہی نظر آتی ہے کہ ہم نے مختلف میدانوں میں انفراسٹرکچر کو سائنسی بنیادوں پر استوار کرنے کی قطعاً کوششیں نہیں کی۔
ہمارے اعدادوشمار ہمیں یہ تو بتاتے ہیں کہ پاکستان اس وقت آبادی کے اعتبار سے دنیا کے ان چند ایک ممالک میں سے ہے جس کی کْل آبادی کا ساٹھ فیصد سے زیادہ حصہ نوجوان لوگوں پر مشتمل ہے۔ مگر ذرا اپنے دل سے پوچھئے کہ ہم سب مل کر اس نوجوان نسل کے مستقبل کو پائیدار اور محفوظ بنانے کے لیے کیا اقدامات کر رہے ہیں۔ ہم اعلیٰ تعلیم کو ترقی دینے کا نعرہ تو لگا رہے ہیں مگر اس ترقی کے لیے جو parametersاختیار کیے جانے چاہیں اور جو لائحہ عمل اختیار کیا جانا چاہیے کیا اس کا کوئی ایسا قابل عمل نقشہ ہمارے ذہن میں ہے۔ پہلے تو ہمیں اعلیٰ تعلیم کی تعریف متعین کرنے کی ضرورت ہے۔ اعلیٰ تعلیم دراصل کسی بھی طالب علم کی تعلیم کاوہ حصہ ہے جو وہ کسی یونیورسٹی میں جا کر مکمل کرتا ہے۔ مجھے تسلیم ہے کہ پاکستان میں ا س وقت کچھ بہت بہترین یونیورسٹیاں موجود ہیں جو ہر سال طلبہ کو اعلیٰ تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کی پیشکش کرتی ہیں مگر پھر بھی ہم جدید دنیا کے مقابلہ میں اعلیٰ تعلیم کے میدان میں بہت پیچھے ہیں۔ پاکستان کو آزاد ہوئے آج انہتر برس ہونے کو آئے مگر آج تک ہم اپنے طالب علموں کو کوالٹی ایجوکیشن مہیا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔
ہم ابھی تک پاکستان میں تعلیمی نظام کو مستقل بنیادوں پر استوار کرنے میں بھی کامیاب نہیں ہو سکے۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ہم نے تعلیمی نظام کو ان کارپردازان کے حوالہ کیا ہوا ہے جنہیں تعلیم کی اہمیت و فعالیت کا اس درجہ احساس نہیں جتنا کہ ہونا چاہیے اور جہاں تک اعلیٰ تعلیمی نظام کے ڈھانچہ کا تعلق ہے تو یہاں بھی ہم مشین کے مختلف پروزوں کو اپنی اپنی جگہ پر اس طریقہ سے بٹھانے میں کامیاب نہیں ہو سکے جس نقطہ پر آ کر وہ مشین اپنی ثمر آورکارکردگی سے ہمیں مستفید کر سکے۔ یہ سب کچھ کہنے سے میرا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ہم اعلیٰ تعلیمی نظام کی ترقی و مربوطیت سے مایوس ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اعلیٰ تعلیمی نظام کو اس کی متعلقہ معراج تک پہنچانے کے لیے جتنے بھی لازمی عناصر و عوامل درکار ہیں ان کا انتظام کرنے میں کوئی کو تاہی نہ برتنا چاہیے۔
دنیا کی تمام ترقی یافتہ اقوام اپنے بجٹ کا معتدبہ حصہ دومدوّں میں خرچ کرتی ہیں ایک صحت اور دوسرا تعلیم۔ آج کے جدید ٹیکنالوجی کے ترقی یافتہ دور میں دنیا بھر میں صرف اور صرف وہی معیشتیں کامیابی کی حدود کو چھونے جا رہی ہیں جنہوں نے اپنی معیشت کی بنیاد تعلیم، علم، ایجاد اور تنوع کے ساتھ وابستہ کر لی ہے۔ ہمیں بھی ترقی کے ان اہداف کے حصول کے لیے اپنے اعلیٰ تعلیمی نظام کو کچھ اس طرح سے مرتب کرنے کی ضرورت ہے کہ ہماری یونیورسٹیوں کا کوئی بھی فارغ التحصیل ہونے والا طالب علم بیروزگاررہ کر ملکی معیشت پر بوجھ نہ بنے بلکہ وہ یونیورسٹی میں تعلیم کے دروان ہی ایسا باصلاحیت فرد بن جائے جو نہ صرف اپنے لئے نئی معاشی راہیں دریافت کرسکے بلکہ دوسروں کو بھی ساتھ لے کر چل سکے۔ ان سب باتوں سے میرا مقصودیہ ہے کہ ہمیں اپنی یونیورسٹیوں یعنی اعلیٰ تعلیمی اداروں میں انٹر پرینئر شپ (entrepreneurship)یعنی خود انحصاری اورself۔businessکو بطور مضمون متعارف کروانے کی ضرورت ہے۔ میں اس سے قبل یہ عرض کر چکا ہوں کہ ہمارے بیشتر سماجی مسائل کے پس پردہ بے روزگاری کا عنصر کام کر رہا ہے۔ اگر ہم وطن عزیز سے اس بیروز گاری کے جِن کو غائب کرنے میں کامیاب ہو گئے تو یقین کیجئے ہم جدید ترقی کے اہداف کی منزل کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ کمیونٹی ڈویلپمنٹ، سماجی فلاح اور سوسائٹی کے ساتھ زیادہ سے زیادہ روابط ہی ایک جدید فلاحی یونیورسٹی کی پہچان ہیں۔ ایسی ہی جدید فلاحی یونیورسٹیاں ہماری عصری ضرورتوں اور تقاضوں کو پورا کر سکتی ہیں۔
اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ہمیں تعلیم برائے تعلیم کے نظریہ کو ترک کرتے ہوئے تعلیم برائے ترقی و تخلیق کے نعرہ کو اپنانے کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کو دی جانے والی اہمیت ابھی تک اپنے ابتدائی مدارج میں ہے۔ پاکستانی یونیورسٹیاں ابھی تک وسائل کی کمی کا شکار ہیں۔ اس صدی کے شروع میں حکومت پاکستان نے پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کو فروغ دینے اور اعلیٰ تعلیم کے اداروں کو پروان چڑھانے کے لیے ہائر ایجوکیشن کمیشن کا ادارہ قائم کرکے جو گرانقدر خدمت سر انجام دی تھی اس کے کچھ کچھ ثمرات ہمیں آج نظر آنے لگے ہیں مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستانی یونیورسٹیوں کو دی جانے والی گرانٹ میں کانٹ چھانٹ کرنے کی بجائے انہیں اپنی سرگرمیوں کی بناء4 پر ملکی ترقی کے سفر کو مہمیز لگانے کے لئے ان کی ضرورتوں کے مطابق فنڈز مہیا کیے جائیں تاکہ وہ نوجوان نسل کی صلاحیتوں کی آبیاری اور ان کو ملک و قوم کا با اعتماد و ذمہ دار شہری بنانے کے لیے بہتر انداز میں کام کرنے کے قابل ہو سکیں۔
اکیسویں صدی میں جدید یونیورسٹی کے تصور میں تبدیلی آ چکی ہے اور وہ محض ایک اعلیٰ تعلیم مہیا کرنے والے ادارہ کے رتبہ سے آگے بڑھ کر سماج کی تعمیر، معاشیات کی ترقی اور لیڈر شپ مہیا کرنے والا ادارہ بن چکی ہے۔ تعلیم چاہے اعلیٰ ہو چاہے ادنیٰ، دراصل معاشرہ کو ایسے انسانی سرمایہ سے مستفید کرتی ہے جس کے ذریعے قوم کا مستقبل بن بھی سکتا ہے اور بگڑ بھی سکتا ہے۔ آج ہمیں اپنے معاشرہ کے تعلیمی نظام میں ایسی بنیادی اور انقلابی تبدیلیاں لانے کی اشد ضرورت ہے جو ہماری معاشرتی، سماجی اور معاشی ترقی کے لیے مشعل راہ اور وسیع و عریض امکانات کا پیش خیمہ بن سکیں۔ ایسی تبدیلیاں صرف اور صرف کمیونٹی اور یونیورسٹی کے باہمی اشتراک سے ہی متعارف کروائی جا سکتی ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی تیس فیصد سے زیادہ آبادی غربت کی لکیرسے نیچے اپنا سفر زندگی طے کر رہی ہے اور ہر سال چھ لاکھ کے قریب نوجوان گریجوایٹ بیروزگاروں کی صف میں شامل ہو رہے ہیں۔ تعلیم کے متعلق اگر یہ کہا جاتا ہے کہ یہ کمانے کا نہیں خرچ کرنے کا فریضہ ہے تو پھر کیوں نہ ہم بحیثیت قوم اپنے دل میں ٹھان لیں کہ ہم سب نے مل کر اپنی تعلیمی ترقی کے سفر کو اس مقام پر لے جانا ہے جہاں تعلیم اور صرف تعلیم ہی قوم کے ہر دْکھ کا مداوا بن جاتی ہے۔
ہمارے ہاں اعلیٰ تعلیم کو مقصدیت سے وابستہ کرکے ہی تعلیم کے فوائد کو حقیقی معنوں میں حاصل کیا جا سکتا ہے اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لے اعلیٰ تعلیمی اداروں کے کار پر دازان اور ان کو کنٹرول کرنے والی بیوروکریسی اورعوامی نمائندگان میں مفاہمت کی مکمل فضا کا پروان چڑھنا ضروری ہے تاکہ سب کے سب مل کر صرف اورصرف ایک مقصد کی لگن اور حصول میں جْٹ جائیں اور وہ مقصد صرف یہی ہو کہ ہم نے اپنی نوجوان نسل کو اعلیٰ تعلیم کے ذریعے پیشہ وارانہ لحاظ سے باصلاحیت بنانا ہے نہ کہ صرف تعلیم دے کر انہیں بیروزگار بنانا ہے۔