ڈینگی کے پھیلتے ہوئے سائے

ڈینگی کے پھیلتے ہوئے سائے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


ملک بھر میں ڈینگی بخار سے متاثرہ مریضوں کی تعداد دس ہزار سے متجاوز کر گئی ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔گزشتہ چوبیس گھنٹے کے دوران ڈینگی کے مزید497 کیس سامنے آ گئے، پانچ افراد جاں بحق ہونے کی اطلاعات بھی ہیں،محکمہ صحت پنجاب کے مطابق مرنے والے دو افراد چکوال اور اٹک کے رہائشی تھے،جبکہ دو افراد کا تعلق کراچی اور ایک کا مانسہرہ سے بتایا گیا ہے۔رواں برس پنجاب میں ڈینگی سے ہلاک ہونے والوں کی مجموعی تعداد 8ہو گئی ہے۔گزشتہ چوبیس گھنٹے میں پنجاب میں مزید242 افراد ڈینگی میں مبتلا ہوئے ہیں۔ راولپنڈی سے109، اسلام آباد سے101،لاہور سے چھ اور چکوال سے17 مریضوں کے بارے میں رپورٹ ہوئی ہے۔ راولپنڈی کے رواں برس کیسز کی تعداد2070 اور اسلام آباد میں 1550 ہو گئی ہے۔لاہور میں مریضوں کی مجموعی تعداد60 ہے،سندھ میں ڈینگی سے متاثرہ مریضوں کی تعداد2068 تک پہنچ گئی ہے۔بلوچستان میں یہ تعداد1772 ہے، انسداد ڈینگی مہم میں ناکامی پر ڈی سی لاہور صالحہ سعید کو تبدیل کر دیا گیا ہے، ڈپٹی کمشنر راولپنڈی کو بھی ڈینگی مہم میں ناکامی پر تبدیل کیا گیا۔
اگرچہ پنجاب کے بڑے شہروں میں لاہور ڈینگی سے سب سے کم متاثر ہے اور اگر آبادی کے اعداد و شمار سامنے رکھے جائیں تو پھر متاثرین کی تعداد مقابلتاً کم ہی نظر آتی ہے،شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ شہبازشریف نے اپنی وزارتِ علیا کے دوران ڈینگی کے خلاف جنگی بنیادوں پر جو مہم شروع کی تھی اس کا زیادہ زور لاہور پر تھا، جس کے اثرات اب تک باقی ہیں، کیونکہ اس دور میں لاہور ہی سب سے زیادہ متاثر تھا،چونکہ ڈینگی بخار نیا نیا منظر عام پر آیا تھا اِس لئے ڈاکٹروں کو بھی اس کی تشخیص اور علاج کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں تھیں،سری لنکا اس تجربے سے گزر چکا تھا اور وہاں اس بیماری پر بڑی حد تک قابو پا لیا گیا تھا،جو ایک خاص قسم کے مچھر سے پیدا ہوتی تھی جو خاص طرح کی فضا میں پرورش پاتا اور کھڑے پانی میں اس کی نشوونما ہوتی تھی،شہباز شریف نے سری لنکا کے ڈاکٹروں کی ٹیم کو پاکستان بُلایا اور وہ کئی ہفتوں تک لاہور میں مقیم رہی،اس طرح صبح سویرے اجلاس شروع ہو جاتا دو گھنٹے کے اجلاس کے بعد سری لنکا کی ٹیم کی رہنمائی میں آگے بڑھا جاتا، شہباز شریف نے اپنے حال ہی میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں انکشاف کیا ہے کہ جب سری لنکا کی ٹیم کے سربراہ نے انہیں بتایا کہ یہ حملہ بہت خوفناک ہے اور اس سے30ہزار لوگ موت کے منہ میں جا سکتے ہیں تو اُن کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی اور انہوں نے انکشاف کرنے والے ڈاکٹر سے کہا کہ وہ یہ بات خفیہ رکھیں،کیونکہ اگر یہ اطلاع عام ہو گئی تو عوام میں خوف و ہراس اور اضطراب پھیلے گا۔
امر واقعہ یہ ہے کہ شہباز شریف نے اپنی شبانہ روز کی محنتوں اور اپنے کام کرنے کے خصوصی سٹائل کی وجہ سے چند ماہ کے اندر ڈینگی پر قابو پا لیا،جس کا اعتراف سری لنکا کی ٹیم نے اس طرح کیا کہ جب وہاں یہ وبا پھوٹی تھی، تو انہیں بھی قابو پانے میں بڑا وقت لگا تھا،لیکن ”شہباز سپیڈ“ سے کام کر کے پنجاب میں جتنی تیزی سے اس پر قابو پایا گیا وہ بیک وقت حیران کن اور قابل ِ تعریف ہے۔اُس وقت پنجاب ہی ڈینگی کی وبا کا مرکز تھا۔دوسرے نمبر پر صوبہ خیبرپختونخوا تھا جسے پنجاب سے ڈاکٹروں کی ٹیم کی شکل میں کمک بھیجی گئی اور وہاں بھی قابو پا لیا گیا،لیکن اِس وقت یہ وبا پورے ملک کو لپیٹ میں لے چکی ہے اور صوبہ خیبرپختونخوا سب سے زیادہ متاثر ہے۔ حکومت کی کوششیں تو موجود ہیں،لیکن اگر ماضی کی کاوشوں کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو ان کا رنگ پھیکا نظر آتا ہے۔ پنجاب کی وزیر صحت اگرچہ خود ڈاکٹر ہیں اور انہیں اپنی کاوشوں کو دو چند بلکہ سہ چند کر کے ثابت کرنا ہوگا کہ وہ بطور ڈاکٹر ڈینگی کے عذاب کے اثرات کو بہتر طور پر سمجھتی ہیں،لیکن جس ٹھنڈے ٹھنڈے انداز میں پنجاب حکومت کی مہم جاری ہے اس سے نہیں لگتا کہ پنجاب میں کوئی ہنگامی صورتِ حال ہے۔ البتہ لاہور کی خاتون ڈی سی کو تبدیل کر دیا گیا ہے،حالانکہ وبا کا زور دوسرے شہروں میں زیادہ ہے اور لاہور،نسبتاً سب سے کم متاثرہ شہر ہے، تاہم اگر ڈسی سی کو ہٹانا ضروری تھا تو دوسرے ذمہ دار حکام پر بھی”توجہ“ دی جانی چاہئے تھی،لیکن ایسا نہیں ہوا،بظاہر لگتا ہے کہ ایک ڈی سی کو تبدیل کر کے یہ تاثر دیا گیا ہے کہ حکومت نے ذمہ دار لوگوں کو ”سزا“ دے دی ہے،حالانکہ حکومت سے جس قسم کی تیز رفتار سرگرمی کی توقع ہے وہ ناپید ہے اور نہیں لگتا کہ ایسے اقدامات سے ڈینگی کی بڑھتی ہوئی وبا پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
جہاں تک سندھ اور خصوصاً کراچی کا تعلق ہے تو یہ سیاسی آلائشوں کی وجہ سے ملک کا گندہ ترین دارالحکومت بن چکا ہے،حالانکہ بعض پرائیویٹ ادارے بھی کچرا ہٹانے میں سرکاری اداروں کی معاونت کر رہے ہیں اور وہ کام کر رہے ہیں،جو اصولی طور پر سرکاری اداروں کو کرنے چاہئیں،لیکن تمام تر سیاسی شتر غمزوں کے باوجود نہ تو کراچی کو صاف کیا جا سکا اور نہ ہی اس کی گندگی سے پیدا ہونے والے اثرات سے اس صوبائی دارالحکومت کو محفوظ رکھا جا سکا ہے۔سندھ کے ہسپتالوں میں صحت کی سہولتیں ویسے ہی ناپید ہیں،یہاں تک کہ شکار پور جیسے شہر میں کتے کے کاٹے کی ویکسین تک دستیاب نہیں تھی،جس کی وجہ سے حال ہی میں ایک بچہ موت کے منہ میں چلا گیا،غالباً سیاسی بے یقینی اور عدم استحکام کی وجہ سے اس صوبے کی گورننس کا بُرا حال ہے۔ صوبائی حکومت پر وفاقی حکومت کے حملے جاری ہیں اور ہر چند روز بعد یہ خبر آ جاتی ہے کہ آئین کی کسی شق کا سہارا لے کر صوبائی حکومت تبدیل کر دی جائے گی اور کراچی کو خصوصی درجہ دے دیا جائے گا،حالانکہ ایسا کرنے سے پہلے ضرورت اِس بات کی ہے کہ پہلے ملک کے سب سے بڑے شہر کو صاف کیا جائے اور نتیجے کے طور پر اسے ڈینگی جیسے امراض سے بچایا جائے اور پھر کوئی سیاسی سرگرمیاں کی جائیں،لیکن جس صوبے کا سپیکر جیل میں ہو، اور جس کے وزیراعلیٰ کی گرفتاری کی خبر اُڑائی جاتی ہو، وہاں سیاسی استحکام کیا خاک آئے گا ایسے میں کراچی کا کچرہ اور ڈینگی کا وائرس حکومت کا منہ چڑا رہاہے، پنجاب کی حکومت تبدیلیوں اور معطلیوں اور سندھ کی حکومت سیاسی چالوں کے ذریعے اگر ڈینگی کی وبا ختم کرنے کی کوشش کرے گی تو ایسا نہیں ہو گا،اس کے لئے شہباز شریف کی اچھی کارکردگی کی مثال موجود تھی،لیکن اس سے استفادے کی راہ میں سیاسی دشمنی حائل ہے،اِس لئے ڈینگی پھیلتا جا رہا ہے اور نیم دلانہ اقدامات اس کے خاتمے میں ناکافی ثابت ہو رہے ہیں۔

مزید :

رائے -اداریہ -