محترم وزیر اعظم صاحب!آپ آرمی چیف کی پیروی کرکے تو دیکھیں
اگلے روز اسلام آباد میں اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس ہوئی جس میں چھوٹی بڑی گیارہ جماعتوں نے شرکت کی۔ جس میں قابل ذکر میزبان پاکستان پیپلزپارٹی، جمعیت علمائے اسلام (ف) اور پاکستان مسلم لیگ (ن) ہیں۔ اس کانفرنس کے کلیدی محرک مولانا فضل الرحمن تھے جنہوں نے گزشتہ برس بھی اکتوبر، نومبر میں بلوچستان سے حکومت مخالف تحریک شروع کی جو ملک بھر کے مختلف شہروں سے ہوتی ہوئی جلوس کی صورت میں اسلام آباد پہنچی۔ جہاں دھرنا دیا گیا۔مگروہ مقصد حاصل نہ ہوسکا جس کے لئے یہ تحریک شروع کی گئی تھی۔مقصد عمران خان کی حکومت کا خاتمہ اور نئے انتخابات کا انعقاد تھا۔ مذکورہ تحریک جسے آزادی مارچ کا نام دیا گیا تھا کی ناکامی کی وجہ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کا عدم تعاون تھا مگر حالیہ آل پارٹیز کانفرنس میں پی پی اور ن لیگ نے نہ صرف تعاون کیا بلکہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔یہ الگ بات کے کانفرنس میں میزبان پی پی کے لوگ قدرے تاخیر سے آئے اس تاخیر کیوجہ تاحال سربستہ راز ہے۔ کانفرنس میں 26نکات پر مشتمل ایک اعلامیہ بھی جاری کیا گیا جس میں مطالبات پیش کئے گئے مگر یہ مطالبات کسی کو مخاطب کئے بغیر پیش ہوئے۔ ہوتا یہ ہے کہ کہ آپ جس شخص یا ادارہ سے کوئی مطالبہ کرتے ہیں تو اس کو مخاطب کرتے ہیں اس کا نام لیتے ہیں،مگر کانفرنس میں کسی کو مخاطب کئے بغیر اور نام لیے بغیر یہ مطالبات کئے گئے ہیں۔ نام لینے میں کیا امر مانع تھا یہ بھی فہم سے بالا تر ہے۔ کانفرنس کے مطالبات میں ایک مطالبہ یہ بھی تھا کہ پی پی سندھ میں اپنی حکومت ختم کرئے۔سندھ اسمبلی میں اپوزیشن کی ہم خیال پارٹیاں مستعفی ہوں اورقومی اسمبلی میں پی پی اورن لیگ استعفے دے۔جس پر کافی بحث ہوئی۔ پی پی اور مسلم لیگ ن کوئی حتمی تاریخ دینے سے گریزاں تھے۔ دریں اثنا مولانا فضل الرحمن کے خطاب کو میڈیا پرروکا گیا۔
ان دو وجوہات کی بنا پر مولانا صاحب غصے میں آگئے اور قریب تھا کہ وہ کانفرنس چھوڑ کر چلے جاتے مگر ن لیگ کی مریم اورنگزیب اور پی پی کی شیریں رحمن نے مولانا کے کانفرنس میں موجود رہنے میں بڑااہم کردار ادا کیا وگرنہ اے پی سی کے ختم ہونے کی نوبت آ سکتی تھی۔ کانفرنس میں شامل تمام جماعتوں پر مشتمل ایک اتحادبھی قائم کیا گیا جس کا نام پاکستان ڈیموکریٹ موومنٹ طے پایا ہے سندھ اسمبلی میں پی پی اور قومی اسمبلی سے پی پی اور ن لیگ کے استعفوں پر اختلاف کے باعث طویل بحث کی بدولت کانفرنس کا اعلامیہ اور ایکشن پلان جس کا اعلان ساڑھے سات بجے ہونا تھا وہ رات پونے دس بجے کیا گیا۔ کانفرنس نتیجہ خیز رہی یا نہیں اس کا فیصلہ عوام اور آنیوالا وقت کرے گا۔ تاہم یہاں اپنے معزز ممبران پارلیمنٹ، سیاستدانوں اور حکومت کی ذی وقار شخصیات کی خدمت میں کچھ عرض کرنا چاہتے ہیں۔ پچھلے دنوں ہم نے اپنا 73واں یوم آزادی منایا ان 73سالوں میں ہمارے 22وزرائے اعظم آئے۔ عمران خان 22ویں وزیر اعظم ہیں ان کو چھوڑ کر ہمارے اکیس وزرائے اعظم نے اپنے عہدہ کی مدت پوری نہیں کی۔ ایک بھی پاکستانی وزیر اعظم کی مثال نہیں دی جا سکتی جنہوں نے معیاد پوری کی ہو۔
یہ ایک سنجیدہ لمحہ فکریہ ہے کہ آخر ایسا کیوں ہوا؟ ہمارے کسی بھی سیاستدان یا حکمران نے اس اہم غورطلب مسئلہ پر توجہ نہیں دی۔ کاش کہ دی ہوتی توآج ملک میں سیاسی اورجمہوری استحکام کے ساتھ ساتھ معاشی حالات بھی بہترہوتے۔ یہاں یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ہمارے سیاستدانوں میں بھی ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی قوت نہیں ہمیشہ ہمارے سیاستدانوں نے ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشیاں اوردشنام طرازی کرکے ایک دوسرے کے خلاف سیاسی مخالفت کو ذاتی دشمنی میں بدل کر رکھ دیا ہے۔ یہ کوئی قابل ستائش امر نہیں بلکہ مروجہ جمہوری اصولوں اور آداب کے بھی خلاف ہے۔ موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے 5جنوری1977 میں 9پارٹیوں پرمشتمل تشکیل پانے والا پاکستان نیشنل الائنس یادآتا ہے جو دائیں بازو کی جماعتوں پرمشتمل تھا جس کے سرکردہ رہنماؤں میں جماعت اسلامی کے میاں طفیل محمد جمعیت علمائے پاکستان کے مولانا شاہ احمد نورانی، پاکستان مسلم لیگ کے چوہدری ظہور الہی اورتحریک استقلال کے اصغرخان شامل تھے۔ یہ الائنس ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت ختم کرنے کے لیے بنایا گیا اورملک ناصرف سیاسی افراتفری کا شکار ہوا بلکہ اس کے اثرا ت ملک کی امن عامہ کی صورتحال اور اقتصادیات پربھی اثر انداز ہوئے ملک کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر فوج کو دخل انداز ہونا پڑا اور 5جولائی 1977 کو جنرل ضیا الحق نے مارشل لا نافذ کردیا اورخود اس کے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور بعد میں صدر بن گئے اور پھر بستی لال کمال بھاول پور میں طیارے کے حادثے میں انتقال تک صدر رہے۔
ملک کی بہتری اور عوامی فلاح کے پیش نظر ملک بھر کے سیاستدان ایک پیج پرجمع ہوں اورایک دوسرے پر سیاسی آلائشیں پھینکنا بند کریں اور جو جیتے اسے حکومت کرنے دیں اوربرداشت کا مادہ پیدا کریں۔ یہ نا ہو کہ چین کے رہنما ماؤزے تنگ کی طرح کوئی رہنما پیدا ہوجائے اور ہمارے سیاستدانوں کے ساتھ وہی کرے جو ماؤزے تنگ نے اپنے سیاستدانوں کو اکھٹا کرکے انہیں ٹھکانے لگا کرکیا تھا یا ایک بار پھر فوج کو عسکری خدمت کے ساتھ ساتھ انتظامی اموربھی سنبھالنے پڑ جائیں۔
پچھلے ہفتے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید سے شہباز شریف، بلاول زرداری بھٹو سمیت تمام پارلیمانی رہنماؤں کی ملاقات ہوئی۔ عسکری قیادت نے واضح کر دیا کہ فوج کا سیاسی معاملات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ نیب قوانین میں تبدیلی اور انتخابی اصلاحات جیسے تمام کام سیاسی قیادت کو کرنا ہیں اور فوج ہمیشہ آئین کے مطابق سول انتظامیہ کی مدد کرتی رہے گی۔ تاہم عسکری قیادت نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ملک میں امن وا مان کی صورتحال کو یقینی بنانے کے لئے قومی ایکشن پلان پر عمل درآمد تیز تر اور موثر ترین بنایا جائے تاکہ پاکستان میں ملک دشمن عناصرکو بدامنی پھیلانے کا موقع نہ مل سکے اور مذہبی ہم آہنگی کو یقینی بنانے کیلئے بھی کہا گیا۔ ملک و قوم کی بہتری کے لئے عسکری قیادت اور پارلیمانی رہنماؤں نے اس پر اتفاق کیا۔