اب تحریکوں سے حکومت تبدیل نہیں ہو گی
عسکری قیادت نے ملک کی سیاسی قیادت کو اپنی سیاست سے لاتعلقی کا جو یقین دلایا ہے، معلوم نہیں اس پر سیاسی قیادت نے یقین کیا ہے یا نہیں؟ اگر یقین کر لیا ہے تو پھر سیاسی لوگوں کو یہ کہنا بند کر دینا چاہئے کہ عمران خان ایک سلیکٹڈ وزیراعظم ہیں اور اُنہیں دھاندلی کر کے لایا گیا ہے۔ عسکری و سیاسی قیادت کی خوشگوار ماحول میں بیٹھک کے بعد نواز شریف سیاسی طور پر تنہا ہو گئے ہیں،کیونکہ اُن کے اس بیانیہ کی کسی نے تائید نہیں کی کہ ہماری لڑائی عمران خان سے نہیں، اُنہیں لانے والوں کے ساتھ ہے۔فوج کی طرف سے یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ وہ سیکیورٹی اور قومی سلامتی کے معاملات میں اپنا کردار ادا کرے گی،لیکن الیکشن کمیشن، چیئرمین نیب کی تقرری یا آئین میں کسی تبدیلی و ترمیم میں اُس کا کوئی کردار نہیں،یہ سب کچھ سیاسی قیادت نے کرنا ہے۔
آرمی چیف نے تو شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری کی موجودگی میں یہ بھی کہہ دیا کہ اگر آپ کی حکومت بنتی ہے تو فوج اُس کے ساتھ بھی کھڑی ہو گی اور اُس کا ہر فیصلہ مانے گی۔ عسکری قیادت کی دور اندیشی قابل ِ داد ہے کہ عین اے پی سی سے کچھ دیر پہلے اُس نے سیاسی قیادت سے ملاقات کر کے اپنی پوزیشن واضح کر دی، کیونکہ خدشہ یہی تھا کہ اس کانفرنس میں فوج کے خلاف باتیں ہو سکتی ہیں،مگر اس کا پہلے ہی تدارک کر دیا گیا، صرف نواز شریف کی تقریر فوج مخالف ثابت ہوئی، کیونکہ وہ تقریر ریکارڈ کی گئی تھی،اس لئے جوں کی توں چل گئی، جس سے یہ راز بھی کھل گیا کہ نواز شریف فوج کے خلاف بھرے بیٹھے ہیں اور اب اس نکتے پر فیصلہ کن جنگ لڑنا چاہتے ہیں کہ ملک میں ووٹ کی حکمرانی ہو گی یا ووٹ کی حرمت کو پامال کر کے من پسند فیصلے کرنے والوں کی؟
ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو عسکری قیادت نے اس تاثر کو دور کر دیا ہے کہ وہ کسی سیاسی جدوجہد کو روکنے کی کوشش کرے گی۔ پُرامن سیاسی تحریک کو اب کوئی نہیں روکے گا، گویا اس تاثر کو بھی ختم کر دیا گیا ہے کہ فوج اس حکومت کے ساتھ کھڑی ہے اور اسے ہر طرح بچانے کی کوشش کرے گی۔اب بال اپوزیشن کی کورٹ میں آ گئی ہے کہ وہ کس طرح حکومت مخالف تحریک کو منظم کرتی ہے: یہ اس پر منصر ہے، تاہم ایک بات اُسے پیش ِ نظر رکھنی چاہئے کہ عسکری قیادت نے اگر سیاست سے لاتعلقی کا اعلان کیا ہے، تو اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ اب غیر آئینی طریقے سے حکومت بدلنے کا راستہ بھی بند ہو گیا۔اب چھڑی گھما کر وزیراعظم کو گھر بھیجنے کی روایت بھی ختم ہو چکی ہے۔ایسے میں اگر اے پی سی کے فیصلوں پر عمل کرتے ہوئے اپوزیشن احتجاج کرتی ہے، دھرنے دیتی اور لانگ مارچ کا بیڑہ اٹھاتی ہے، تو اُس کا وہ نتیجہ نہیں نکلے گا، جو ماضی میں نکلتا آیا ہے۔ اب حکومت کو کسی احتجاج کے نتیجے میں برخاست نہیں کیا جا سکے گا،کیونکہ جنہوں نے یہ کام کرنا ہوتا ہے، انہوں نے ماورائے آئین فیصلوں پر اب خط ِ تنسیخ پھیر دیا ہے۔ عسکری قیادت کی سیاسی قیادت سے ملاقات درحقیقت اُن تمام غلط فہمیوں کو دور کر گئی ہے، جو حکومت مخالف اجلاسوں کے بعد پیدا ہوتی رہی ہیں اور جن میں حکومت کے جانے کی تاریخیں تک دی جاتی رہی ہیں۔
میاں نواز شریف نے اپنی تقریر میں جو باتیں کیں، وہ بھی ماضی کے تناظر میں ایک کڑوا سچ ہیں،لیکن انہیں ماضی کی بجائے حال کے تناظر میں کچھ کہنا چاہئے تھا۔ انہیں یہ بھی کہنا چاہئے تھا کہ اب نظریہئ ضرورت والی عدلیہ دفن ہو گئی ہے۔وہ یہ مثالیں دیتے رہے کہ عدلیہ آمروں کو نظریہئ ضرورت سے بھی بڑھ کر نوازتی رہی اور آئین پر شب خون مارنے والوں کو وہ اختیارات بھی دے دیئے جو انہوں نے مانگے ہی نہیں تھے۔آج کی عدلیہ تو یہ طے کر چکی ہے کہ کسی آمر کو آئین شکنی کی اجازت نہیں دے گی،کسی نظریہئ ضرورت کو استعمال نہیں کرے گی، بلکہ اُلٹا آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کرے گی۔اس بات کا ذکر نواز شریف نے کیا ہی نہیں۔ نواز شریف نے ایک دن پہلے تقریر ریکارڈ نہ کی ہوتی تو انہیں کانفرنس والے دن عسکری و پارلیمانی قیادت کی ملاقات کا علم ہو جاتا اور انہیں علم ہو جاتا کہ جن باتوں کا وہ اپنی تقریر میں ذکر کرنے جا رہے ہیں،وہ تو اب قصہ ئ ماضی بنتی جا رہی ہیں اور عسکری قیادت خود سیاست دانوں کو بُلا کر انہیں یقین دِلا رہی ہے کہ سیاست میں اُن کا کوئی کردار نہیں، سیاست دان جانیں اور سیاست، اُن کا کام صرف ملک کے سیکیورٹی اور دفاعی نظام کو مضبوط بنانا ہے۔ نواز شریف نے اپنی تقریر میں احتساب کے نظام کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔چیئرمین نیب جاوید اقبال پر بھی تابڑ توڑ حملے کئے۔فوج کی طرف سے اس بات کی وضاحت کر دی گئی کہ چیئرمین نیب کو لگانا سیاسی قیادت کا کام ہے۔موجودہ چیئرمین کو بھی سول قیادت نے باہمی مشاورت سے تعینات کیا تھا،اِس لئے یہ دوش دینا کہ یکطرفہ احتساب بھی کسی خاص کے اشارے پر ہو رہا ہے، ایک بے بنیاد بات ہے۔
اب اگر اس صورتِ حال کو اس طرح دیکھا جائے کہ عسکری قیادت تو سیاست سے کنارہ کش ہو چکی ہے،مگر اپوزیشن اسے کھینچ کھانچ کر پھر اُسی طرف لانا اور اپنی سیاسی تحریک سے عسکری قیادت کو مجبور کرنا چاہتی ہے، تو بے جا نہیں ہو گا۔عمران خان کی حکومت کو گرانے کے لئے آئینی راستے تو کھلے ہیں،لیکن اُن کی بجائے اگر خود اپوزیشن کسی اور سے آس لگائے بیٹھی ہے تو شاید اُسے مایوسی ہوئی۔ ایک تو اب حالات بہت بدل چکے ہیں، دوسرا حکومت اور فوج کے درمیان کوئی کشیدگی نہیں،ایسے میں کسی تحریک یا لانگ مارچ کے ذریعے تبدیلی نہیں آ سکتی۔اندر کی خبریں دینے والوں نے یہ بھی بتا دیا ہے کہ سیاسی و عسکری قیادت کے درمیان جو ملاقات ہوئی،اُس میں شہباز شریف یا بلاول بھٹو زرداری نے یہ نہیں کہا کہ عمران خان کو فوج لائی ہے، نہ ہی الیکشن میں دھاندلی کا کوئی ذکر آیا، البتہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کھل کر بتا دیا کہ فوج ہمیشہ منتخب حکومت کے ساتھ کھڑی ہو گی، چاہے وہ کسی بھی جماعت کی ہو۔