چین کیوں خاموش ہے (2)
آپ کا ہمسایہ ملک یا تو آپ کا دوست ہوتا ہے یا دشمن۔ ایسا شاذ ہی ہوتا ہے کہ وہ غیر جانبدار رہے۔ اگر غیر جانبدار رہے بھی تو صرف ایک مختصر مدت تک ہی رہ سکتا ہے۔ بالآخر اسے دوستی اور دشمنی میں سے ایک کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان کے ہمسایوں میں ایک عجیب و غریب قسم کی کھچڑی موجود ہے۔ چین اگر دوستی کی ایک انتہا تک ہے تو انڈیا دشمنی کی دوسری انتہا پر ہے۔ افغانستان ایک عرصے سے پاکستان کے دشمنوں میں شمار ہوتا ہے۔ اگست 1947ء میں افغانستان وہ واحد مسلم ملک تھا جس نے اقوامِ متحدہ میں قیام پاکستان کی مخالفت کی تھی۔ آج تک گومگو کا وہی عالم ہے۔ پاک افغان سرحد پر جنگلہ بندی اس کا حل تھا جس میں جاں کا زیاں تھا۔ اس جنگ بندی میں بھی ”جُز قیس کوئی اور نہ آیا بروئے کار“…… آخر پاک فوج کو یہ ہفت خواں طے کرنا پڑا۔ ہمارے آفیسرز اور جوان ایک تواتر سے اس جنگلہ بندی پراسس میں شہید ہو رہے ہیں۔
دنیا کے کئی اور ممالک میں بھی بارڈر فینسنگ ہوئی ہے لیکن جانی نقصانات کا وہ سکیل جو پاک۔
افغان سرحد پر دیکھنے میں آیا ہے، وہ کہیں اور نہیں دیکھا گیا۔ حَد یہ ہے کہ ہمارا دشمن نمبر ایک، انڈیا بھی LOC پر جنگلہ بندی کر چکا ہے لیکن اس میں کتنے بھارتی یا پاکستانی ٹروپس مارے گئے ہیں؟ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ہمارا دشمن نمبر ایک انڈیا نہیں افغانستان ہے۔ یہ وہی افغانستان ہے جس کے 35لاکھ باشندوں کو پاکستان نے اپنے ہاں سالہا سال تک پناہ دیئے رکھی اور آج بھی لاکھوں افغان پاکستان میں پناہ یافتہ ہیں …… ہمارا چوتھا ہمسایہ ایران ہے اور پاک ایران سرحد پر بھی جنگلہ بندی کس مقصد کے لئے کی جا رہی ہے اس کا جواب ہر پاکستانی کو اپنے آپ سے پوچھنا چاہیے اور دوسرا سوال یہ بھی پوچھنا چاہیے کہ یہ باڑ، ایران کیوں نہیں لگا رہا؟
جب جنگلہ بندی کا عمل مکمل ہو جاتا ہے تو دو حریف ممالک اپنی بڑی شاہراہوں سے رابطہ سڑکوں کا ایک جال سرحدوں تک بچھا دیتے ہیں۔ یہ کام پاکستان نے بھی LOC پر کیا ہوا ہے اور انڈیا نے بھی اپنے ہاں یہی اہتمام کر رکھا ہے۔
لیکن انڈو۔چائنا سرحد پر بارڈر فینسنگ کا یہ کام ماضیء قریب تک نہ ہونے کے برابر تھا۔ نقشے پر نظر ڈالیں تو آپ کو انڈو۔ چائنا سرحد کے مشرقی سیکٹر میں اروناچل پردیش نظر آئے گا اور مغربی سیکٹر میں لداخ دکھائی دے گا۔ ان دونوں سیکٹروں کا رقبہ وغیرہ پہلی قسط میں دے چکا ہوں۔ وسطی سیکٹر میں نیپال۔ انڈیا سرحد پر بھی انڈیا نے یہی کھیل کھیلا ہوا ہے۔ تاہم مشرقی سیکٹر میں اگر اروناچل بارڈر پر 90000مربع کلومیٹر کا رقبہ متنازعہ ہے اور اگر مغربی سیکٹر میں لداخ میں 33000مربع کلومیٹر کا متنازعہ بارڈر ہے تو انڈو۔ نیپال کا متنازعہ علاقہ صرف 2000مربع کلومیٹر ہے۔
مشرق اور مغرب کے دونوں سیکٹروں میں جہاں چین نے اپنے علاقوں میں چھوٹی بڑی سڑکوں کا جال بچھا رکھا ہے وہاں بھارت ایسا نہیں کر سکا۔ وجہ یہ ہے کہ تبت (چین) کا علاقہ نسبتاً ہموار، سطع مرتفع اور نیم کوہستانی ہے جبکہ انڈیا میں اروناچل پردیش اور لداخ دونوں کی سرزمین سراسر کوہستانی اور برفانی ہے اور وہاں سڑکیں بنانے کا کام ایک چیلنج ہے۔ یہی وجہ تھی کہ انڈیا تقریباً نصف صدی تک (1947ء سے 2000ء تک) ان علاقوں میں سڑکیں تعمیر کرنے سے قاصر رہا…… لیکن اگر سڑکیں نہ ہوں تو دو حریف ممالک اپنی افواج کو ہنگامی حالات میں سرحد پر کیسے جمع کر سکتے ہیں؟…… اسی باعث انڈیا اپنے دونوں سیکٹروں میں بڑی یا چھوٹی سڑکیں تعمیر کرنے میں لیت و لعل سے کام لیتا رہا۔
لیکن پھر وقت نے انگڑائی لی اور صدیوں کی صورتِ حال تبدیل کر دی۔ ”وقت“ ایسے ہی کرتا ہے۔ اَن گنت صدیوں تک سویا رہتا ہے اور پھر اچانک جاگ پڑتا ہے۔حضرت اقبال نے چین کی آزادی (1948ء)
سے تقریباً ربع صدی پہلے کہہ دیا تھا:
گراں خواب چینی سنبھلنے لگے
ہمالہ کے چشمے ابلنے لگے
1962ء کی انڈو۔ چائنا وار کے بعد چاہیے تو یہ تھا کہ شکست خوردہ انڈیا جاگتا۔ لیکن ہوا یہ کہ فاتح چین تیزی سے جاگا اور اس نے اروناچل پردیش (مشرقی سیکٹر) اور اقصائے چین (مغربی سیکٹر) میں سڑکوں کا جال بچھانا شروع کر دیا۔2000ء میں قراقرم ہائی وے ابھی مکمل طور پر تعمیر نہیں ہوئی تھی کہ چینیوں نے CPEC اور BRI کے خواب دیکھنا شروع کئے۔ امریکہ نے اپنے نئے دوست انڈیا کو سیٹلائٹ تصاویر دکھا کر خبردار کیا کہ چین کا اگلا اقدام اروناچل پردیش اور لداخ پر قبضہ کرنا ہوگا۔ اور پھر اس خدشے کے آثار واضح ہونا شروع ہوئے۔ انڈیا نے لداخ میں لیہ (Leh) سے دولت بیگ اولدی تک مواصلات کا سلسلہ تعمیر کرنا شروع کیا۔ رابطہ سڑکیں اور ہوائی اڈے اس کی اولین ترجیح تھے۔ 2014ء میں جب چین نے CPECکا اعلان کیا اور 46ارب ڈالر کے اس منصوبے کا آغاز کیا تو امریکہ نے انڈیا کو مستقبل قریب کے حالات سے خبردار کر دیا۔ چنانچہ لداخ میں LAC پر رابطہ سڑکوں کی تعمیر کا ایک نیا اور ہنگامی سلسلہ شروع ہو گیا۔
انڈیا نے اس علاقے کی کچی سڑکوں کو بلیک ٹاپ کرنا شروع کیا اور ساتھ ہی لداخ کے شمالی سرے پر دولت بیگ اولدی کے ائر فیلڈ کو بھی توسیع دینے کا آغاز کر دیا۔ دولت بیگ اولدی اور لیہ کے درمیان سینکڑوں کلومیٹر کا فاصلہ ہے اور راستہ حد درجہ غیر ہموار، برفانی اور پہاڑی ہے۔ راستے میں دو قصبے شائی اوک اور ڈربوک بھی ہیں۔ لیکن جو سڑک لیہ کو براستہ شائی اوک / ڈربوک، دولت بیگ اولدی سے ملاتی ہے وہ LAC کے بہت قریب سے ہو کر گزرتی ہے۔ چنانچہ چین کے کان کھڑے ہوئے کہ اگر انڈیا نے اس روڈ کو استعمال کرتے ہوئے LAC عبور کرکے چینی علاقے پر حملہ کر دیا تو معاملہ بگڑ جائے گا۔ چنانچہ چین اس نئی سڑک پر تو کوئی اعتراض نہ کر سکا کہ یہ انڈیا کے بقول اس کے اپنے علاقے میں تھی (لیکن چین کے بقول یہ لداخ کا پورا علاقہ متنازعہ ہے اور چین کا ہے)۔ اسی روڈ پر دریائے گلوان اور وادی گلوان واقع ہے۔2020ء کے آغاز پر جب مارچ میں برف پگھلی اور سڑکوں پر آمد و رفت شروع ہوئی تو چین نے اس علاقے میں جارحانہ گشتوں کا سلسلہ شروع کر دیا جو 15 جون 2020ء کو انڈیا کے 20سولجرز کی ’ہتیا‘ کا سبب بنا۔ اور اسی ’ہتیا‘ نے یہ سارا سیکٹر آتش زیرِ پا کر دیا۔ ابھی تک یہ سلسلہ جاری ہے۔
انڈیا نے نہ صرف لداخ کے اس علاقے میں پرانے ائرسٹرپس (Air Strips) اور ائر فیلڈز کو از سرِ نو بحال (Re-activate) کرنا شروع کر دیا بلکہ 2016-17ء میں ایک نئی سٹرائک کور بھی کھڑی کرنے کا اعلان کر دیا…… قارئین اس نئی ’پہاڑی کور‘ کے قیام کی خبروں سے آگاہ ہوں گے…… یہ کور کھڑی ہو چکی ہے اور اس کے انڈر کمانڈ دوکوہستانی ڈویژن بھی Raise کر دیئے گئے ہیں۔ یہ کور اور یہ ڈویژن انڈیا کے ”ریپڈ ری ایکشن گراؤنڈ اوفیسنو“ کا پنجہ ء ضرب (Punch) کہلاتے ہیں۔ 2019ء میں اسی نئی کھڑی کی گئی کور کے تحت انڈیا نے ایک جنگی مشق بھی چلائی تھی جس کا نام Him Vija تھا۔ اس ایکسرسائز کی ڈی بریفنگ کے دوران ایک سینئر انڈین آرمی آفیسر نے یہ تبصرہ کیا تھا کہ: ”چین اب اس علاقے میں کوئی قابلِ عمل محدود جھڑپ یا لڑائی (Battle) لڑنے کا رِسک مول نہیں لے سکے گا!“……
معلوم ہوتا ہے کہ چین کی طرف سے وادی ء گلوان میں جو خونریز جھڑپ جون کے وسط میں لڑی گئی تھی اس کا اصل سبب انڈیا کی طرف سے اس علاقے میں مواصلات کی وہی توسیع تھی جس کا ذکرِ سطور بالا میں کیا گیا ہے۔ انڈیا کی جانب سے ان سڑکوں اور ہوائی اڈوں کی تعمیر اگرچہ انڈیا کے زیر تسلط علاقے میں ہو رہی ہے لیکن ان سے چین اور پاکستان دونوں کو خطرہ ہے…… انڈیا، لیہ کی طرف سے مشرق میں جاتی ہوئی شائی اوک۔ دولت بیگ اولدی روڈ کو استعمال کرکے LAC کے اس پار کوئی جارحانہ اقدام کر سکتا ہے اور پاکستان کے خلاف دولت بیگ اولدی کے ہوائی اڈے سے سکردو۔ گلگت روڈ پر فضائی حملہ کرکے CPEC کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
اب آخر میں سوال یہ کیا جا سکتا ہے کہ چین 15جون سے اب تک خاموش کیوں ہے۔
29،30 اگست کی درمیانی شب انڈیا نے LAC پر اپنے علاقے میں ان چار کوہستانی چوٹیوں پر قبضہ کر لیا تھا جن پر سے براہِ راست LAC کے پار چینی ٹروپس اور عسکری تنصیبات پر فائرنگ کی جا سکتی ہے۔ راکٹوں اور میزائلوں کے اس دور میں یہ بلندیاں (Heights) واقعی چین کے لئے باعثِ خطر ہوں گی…… لیکن دیکھتے ہیں اکتوبر کی برف باری میں جب لداخ میں آمد و رفت کی مشکلات بڑھتی ہیں تو انڈیا اپنی لیہ۔ شائی اوک / ڈربوک۔ دولت بیگ اولدی روڈ سے کوئی موثر زمینی رابطہ رکھ سکتا ہے یا نہیں اور ان چار بلندیوں کو Sustain بھی کر سکتا ہے یا نہیں۔(ختم شد)